اتباعِ سنت کی اہمیت

تحریر : امان اﷲ باجوڑی
اﷲ تعالی نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، جس سے مقصود ایک ایک ایسی کارگاہ کو وجود دینا تھا جہاں صرف اﷲ کے بتائے ہوئے طریقوں پر انسان زندگی گزارے۔ لیکن اﷲ تعالی کا ارشاد ہے ’’خلق الانسان ضعیفا‘‘ یعنی ہم نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی نگاہ انتہائی کوتاہ اور محدود ہے، وہ اپنے رب کے مقتضیات کا کما حقہ ادراک و استعاب نہیں کرسکتا،اس لیے اﷲ تعالی نے کامیابی کے لیے اسلام کا راستہ متعین کرکے بتا دیا ، اور پھر انبیاء کا سلسلہ شروع کرکے اسلام کے احکام بھی بتادئیے، اور ان انبیاء کے طور طریقوں ہی میں امت کے لیے کامیابی رکھ دی، چناں چہ انبیاء کے ماننے والے کامیاب ٹھہرے اور نہ ماننے والے نامراد ہوگئے، طوفانِ نوح میں بیاسی وہی لوگ بچے جو نبی کے ماننے والے تھے،موسیؑ کا مان کر بنی اسرائیل سینکڑوں سالوں کے غلامی کے زنجیر توڑنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر ماننے والوں کے ساتھ اخروی نجات کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔
البتہ پہلے جتنے انبیاء آئے سب مخصوس علاقے اور مخصوص زمانہ کے لیے مبعوث ہوئے، آخر میں ایک عالم گیر نبی عالم گیر دین لے کر تاقیامت انسانوں کے ہدایت لے کر آئے، اﷲ تعالی نے ان کی زندگی کو تاقیامت انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ، ان کو اپنانے پر بہت زور دیا اور فرمایا’’تمھارے لیے رسول اﷲ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘(احزاب)
حضور ﷺ نے خود کو احکامِ الہی کے سانچوں میں ڈال دیا تاکہ وہ امت کے لیے معیار اور کسوٹی بن کر رہیں، اور شریعت کے طیّبات و محرمات میں تمیز کردی۔اﷲ تعالی کا ارشاد ہے :’’نبی آخر الزمان ﷺ ان کو بھلے باتوں کا حکم کرتے ہیں، برے کاموں سے منع کرتے ہیں، پاک چیزوں کو حلال کرتے ہیں، خبائث کو حرام کرتے ہیں، اور ان کا بوجھ اور ان کے گردن میں جو طوق ہے ان کو ان سے دور کرتا ہے‘‘۔(اعراف: ۱۵۶)
سنت کا معنی
سنت کا لغوی معنی سیرت اور طریقہ ہے، اچھی ہو چاہے بری(لسان العرب) سنت کو سنت کہنے کی وجہ یہ ہے آپﷺ نے ان کو اچھے طریقے سے عمل کرکے دیکھایا ہے،اس لیے سنت بدعت کے مقابلے میں آتا ہے۔سنت کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ؟ اس میں اہل رائے کے آراء میں بہت اختلاف ہے، سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جب آپ ﷺ ، صحابہ اور تابعین کے کلام پر لفظِ سنت وارد ہو تو اس سے مراد وہ مخصوص طریقہ اور منہجِ نبوی ہوتا ہے جس کی دین میں اتباع کی جائے۔(حاشیہ لمحات من تاریخ السنۃ)
سنت کا حکم
جو کچھ آپﷺ فرمائیں ، اگر محض خبر ہے تو اس کی تصدیق ضروری ہے اور اگر حکم تشریعی مثلا ایجاب، تحریم یا اباحت ہو تو اس کی اتباع ضروری ہے۔(مجموع الفتاوی: ۷۷/۱۸)جب کہ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’امور ِ دین میں اتباع واجب ہے اور دنیوی امور میں مستحب۔‘‘(تفسیر قرطبی)
سنت کی قسمیں
سنت کی دو قسمیں ہیں:۔ سنتِ ہدی: جس کو چھوڑنے میں گناہ ہو۔سنت زوائد:جس کے چھوڑنے میں کوئی کراہت نہ ہو۔
جب کہ اتباع کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ اتباع یہ ہے کہ حضور ﷺ ، صحابہ اورر تابعین جولے کر آئے اس کی پیروی کی جائے۔(نضرۃ النعیم)
اتباع سنت کی اہمیت
اسلامی احکام کی دوسری سب سے اہم بنیاد’’سنتِ رسول‘‘ ہے جو دراصل قرآن کی ایسی تشریح ہے جس کے بغیر قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھنا مشکل ہے۔ قرآن میں اقامتِ صلاۃ، حجِ بیت اﷲ اور زکوۃ کے احکام تو ہیں لیکن نماز پڑھنے کا طریقہ، نصاب زکوۃ کی تفصیل اور حج کا مکمل طریقہ ہمیں آپ ﷺ کے احادیث ہی سے معلوم ہوگا۔لہذا احادیث رسولﷺ قرآن مجید کے مجہولات و مجملات کی عینِ تفصیل و تشریح ہیں۔نبی پاک ﷺ کا ہر قول و فعل حکمِ تشریعی کی حیثیت رکھتا ہیں،کیوں کہ اﷲ تعالی کا ارشاد کہ’’وہ (نبی ﷺ) اپنی خواہشات سے نہیں بولتا، وہ تو وحی ہی ہے جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے’’(النجم) اور دوسری جگہ ارشاد ہے’’ کہہ دیجئے کہ میں اتباع نہیں کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے(احقاف)
اتباع سنت کی اہمیت قرآن کی روشنی میں
اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں مختلف انداز سے مسلمانوں کو اتباعِ رسولﷺ پر ابھارا ہے،کبھی جھڑک کر، کبھی ڈراکر اور کبھی بشارتیں سنا کر سنت کی اہمیت کو خوب واضح کیا ہے۔ چناں چہ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:’’اے ایمان والو!اطاعت کرو اﷲ کی اور اس کی رسول کی۔ اور اپنے اعمال برباد نہ کرو‘‘(محمد:۳۳)
اطاعت رسولﷺ درحقیقت اﷲ کی اطاعت ہے:’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی‘‘(نساء:۸)
اطاعت کا تاج آپﷺ کے سر پر رکھ دیا گیا:’’ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘(النساء:۶۴)
رسول اﷲ ﷺ کا ہر حکم ماننا ضروری ہے :’’جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے روک لے اس سے اس سے منع ہوجاؤ‘‘(الحشر:۹۷)
نبیﷺ کے کسی فیصلے پر ذرہ سے تنگی بھی ایمان کے لیے خطرہ ہے:’’تیرے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھے اپنے آپس کے معاملات میں منصف نہ بنائیں، اور پھر جو فیصلہ کریں اس سے اپنے جی میں تنگی کو نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں‘‘(نساء: ۹۶۵
اتباعِ سنت اﷲ کی محبت اور مغفرت کا ذریعہ ہے:’’(اے نبی!) آپ کہہ دیجئے: اگر اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اﷲ بھی تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا‘‘(آل عمران: ۳۱)
سنت کی اتباع کرنے والوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے:’’جس نے اﷲ اور رسول کی اطاعت کی وہ عظیم کامیابی کے ساتھ کامیاب ہوا‘‘(احزاب:۷۱)
اطاعت کرنے والے جنّت میں مقرب لوگوں کے پاس ہوں گے:’’جس نے اﷲ اور رسول کی اطاعت کی، تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ نے انعام کیا ہے۔ انبیاء، صادقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور ان کی (یہ) رفاقت بہت اچھی ہوگی‘‘(نساء: ۶۹)
لیکن جو آدمی رسولﷺ کی اتباع نہیں کرے گاقیامت کے دن اپنا ہاتھ کاٹتا ہوگااور کہتا ہوگا:’’کاش میں رسولﷺ کے ساتھ اﷲ کا راستہ اختیار کرلیتا‘‘(الفرقان:۲۷)
اتباعِ سنت صاحب سنت کی نظر میں
آپﷺ کے سامنے پچھلی امتوں کی حالات تھیں کہ قومِ عاد و ثموداور قوم لوط و نوح کیوں کرہلاک ہوئے، موسیٰ کا نہ مان کر بنی اسرائیل کتنے سال تک وادی تیہہ میں سرگرداں پھرتے رہیں، نبی کا نہ مان کر فرعون ، ہامان اور نمرود کا کیا حشر ہوا۔ اس لیے آپﷺ نے امت کو اپنی اطاعت پر ابھارا اور فرمایا:
تم پر میری سنت اور خلفائے راشدین مھدیین کی اطاعت لازم ہے، ان سے چمٹے رہو اور اس پر مضبوطی اختیار کرو‘‘(سنن ابی داؤد: ۴۶۰۷)
آپﷺ نے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی نافرمانی کی۔(البخاری:۲۹۵۷)
ایک جگہ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنّت میں داخل ہوگیا۔(کنز العمّال)
ایک جگہ فرمایا: جس کا اطمینان سنت پر ہو وہ کامیاب ہے اور جس کا اطمینان سنت کے علاوہ پر ہو تو وہ ہلاک ہوگیا۔(رواہ احمد:۳۷۵/۱۱)
ایک جگہ ارشاد فرمایا: بہترین کلام کتاب اﷲ ہے، بہترین سیرت محمدﷺ کی سیرت ہے، اس میں نئی چیزیں گھڑنا بدترین کاموں میں سے ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(مسلم:۵۹۲/۲)
ایک مرتبہ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنّت میں داخل ہوگا، اور جس نے میری نافرمانی کی تو درحقیقت اس نے(جنت میں داخل ہونے سے) انکار کیا۔(بخاری:۷۲۸۰)
ایک مرتبہ یوں فرمایا:جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھے زندہ کیا اور جس نے مجھے زندہ کیا وہ جنّت میں میرے ساتھ ہوگا۔(ترمذیؒ۹۶/۲)
ایک دفعہ لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔ اے لوگو! میں نے تمھاری اندر دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑلو تو ہرگز گمراہ نہ ہوں گے ایک کتاب اﷲ اور ایک سنتِ رسول۔(کنزالعمّال:۹۵)
سنت سے اعراض کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ (بخاری :۵۰۶۳)
صحابہ کرام اور اتباعِ سنت
ہمارے اسلاف نقشِ پائے حبیب ﷺ کے ذرہ ذرہ پر فدا تھے، ان پر یہ بات عیاں تھی کہ ہفتِ اقلیم کے جملہ دفینے ’’سنتِ حبیبﷺ‘‘ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، انہوں نے شاہرہِ سنت کی اکملیت و اہمیت کو سمجھا پھر اپنے نبی کے رنگ میں رنگ گئے،چناں چہ ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ :میں ہر گز ایسا کام نہیں چھوڑ سکتا جس نبیﷺ نے کیا ہو، میں ڈرتاہوں کہ اگر میں کوئی سنت چھوڑ دوں گا تو بھٹک جاؤں گا۔(مسند احمد)
اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ نے حجرِ اسود کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں تو پتھر ہے، نفع نقصان نہیں دے سکتا،اگر نبیﷺ تمہیں بوسہ نہ دیتے تو میں بھی تمہیں بوسہ نہ دیتا۔(بخاری)
ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: ہم کچھ نہیں جانتے تھے ، اﷲ تعالی نے ہماری طرف رسول بھیجا، پس ہم وہی کرتے ہیں جس طرح ان کو کرتے دیکھا ہے۔(مسند احمد)
ابنِ مسعودؓ کا فرمان ہے کہ: اتباع کرو بدعت نہ کرو، یہی نجات کے لیے کافی ہے۔(الابانہ)
ایک مرتبہ آپﷺ خطبہ دے رہے تھے اور فرمایا کہ:’’ اجلسوا‘‘ ابن مسعودؓ ابھی دروازے سے اندر آرہے تھے کہ ادھر دروازے ہی پر بیٹھ گئے، یہاں تک کہ آپﷺ نے ان کو اندر بلایا۔(سنن ابی داؤد)
اسلافِ امت اور اتباعِ سنت
امام مالکؒ نے فرمایا سنت کی مثال نوحؑ کی کشتی کی طرح ہے ، جو اس میں بیٹھا اس نے نجات پائی اور جو نہ بیٹھ سکا وہ غرق ہوگیا۔(تاریخ بغداد)
امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ:جس کو راہ حق کا پتہ چل گیا ، اس کے لیے راہِ حق پر چلنا آسان ہوجاتا ہے، اور راہِ حق کی جانکاری آپ ﷺ کے احوال، اقوال اور افعال کی اتباع سے ملتی ہے۔(مدارج)
سہل بن عبد اﷲؒ کا قول ہے :نجات تین چیزوں میں ہے ۔۱)حلال کھانا،۲) فرائض کی آدائیگی،۳)اتباعِ سنت۔(تفسیر قرطبی)
شاہ ولی اﷲؒ رقم طراز ہیں: میں کہتا ہوں کہ دین کا انتظام اس بات پر موقوف ہے کہ آنحضرتﷺکی سنتوں کی اتباع کی جائے۔(حجۃ اﷲ البالغہ)
جنگ آزادی میں ظاہری ناکامی کے بعد تحریک کے سرکرداں رہنماء گرفتار کرلیے گئے، مولانا قاسم نانوتویؒ تین دن روپوش رہیں اس کے بعد نکلے اور فرمایا غارِ ثور کی سنت زندہ ہوگئی، پھر پتہ نہیں اس سنت پر عمل کا کبھی موقع ملے گا یا نہیں۔(سوانح قاسمی)
حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ: تین دن مسلسل اپنے اعمال میں سنت کی روح تلاش کرتا رہا، تب کہیں جاکر اطمینان ہوا کہ معمولات میں کوئی کام خلافِ سنت نہیں ہے۔(بیس بڑے مسلمان)
علامہ گنگوہیؒ نے لکھا ہے ’’سنت سے تھوڑی مخالفت کو سخت دشمن جانیں‘‘۔(اکابر علمائے دیوبند)
ابن شہاب زہریؒ فرماتے ہیں: سنت کا دامن تھامنا نجات ہے۔(شرح الشفاء)
امام غزالی ؒ کہتے ہیں: تمام امور میں اتباعِ سنت سعادت کی کنجی ہے۔(شمائل کبری)
اتباع سنت کے اسی جذبہ کے تحت حضرت مہاجر مکیؒ نے فاقہ کی حالت میں پیٹ پر دو پتھر باندھ کر اس سنت کو بھی زندہ کیا۔(اتباع سنت)
عہد حاضر میں اتباعِ سنت کی اہمیت
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم اسلاف سے رشتہ توڑ کر سنت طریقوں کو فراموش کرتے جارہے ہیں، دوسروں کے عیبوں کی تلاش میں ہمیں دو منٹ اپنے گریبان میں جھانکنے کی فرصت نہیں ملتی کہ ہماری اپنی زندگی سنت سے کتنی مماثلت رکھتی ہے۔ ہمارے اسلاف جو سنت کے پرتو تھے آج ان کی قبروں پر اتباع سنت بھولی بسری لَو دے کر شکوہ کرتی ہے کہ اتباع کا حقیقی مظہر باون تولہ رتی سے آگے نہ بڑھ سکا، لیکن دعوے ایسے کہ اٹھائے نہیں اٹھتے۔
ترکِ سنت ہی کی وجہ سے آج ہم مسلمان خوار ہیں، ہماری نسلیں سنت سے دور ہوتی جارہی ہے، اور اس کی بڑی وجہ سیرت طیبہ کے مطالعہ کا ناپید ہونا ہے، دعوت و ارشاد کے سلسلے میں حضورﷺ کے لیے حالات نہایت ناساز گار تھے لیکن آپﷺ نے ان کا مقابلہ کرکے دیکھایا، آج ہمارے لیے بھی اسی طریقہ پر محنت کی ضرورت ہے۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ فرماتے ہیں کہ احمد مجتبی ﷺ کی شریعت اور آئین جس توجہ کی مستحق ہیں اگر اسی طرح توجہ اس کی طرف کی جائے تو آج بھی مسلمان وہی جوشِ ایمان وہی مبہوت کن کارنامے دنیا کو پھر دکھا سکتے ہیں جو آنحضرتﷺ نے دیکھائے تھے۔(راہ سنت)
لہذا ہم اگر روزانہ اپنا محاسبہ کریں اور خود کو اپنے ضمیر کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ احیائے ایمان اور غلبہ اسلام کا نسخہ ٔاکسیر ’’اتباعِ سنت‘‘ہی میں مضمر ہے۔
یہ بزم مے ہے، یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اس کا ہے
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.