سٹیٹس کو اور ٹیسٹ کی ستیاناس

از قلم؛ انیس الرحمٰن باغی

کچھ عرصہ قبل میں نے ایک پوسٹ کی کہ اس سٹیٹس کو اور برانڈ کمپلیکسٹی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا کہ چائے جو کہ خالصتاً دیسی چیز ہے وہ بھی پینے لوگ
Chaye Khana
جاتے ہیں۔۔۔
اور آج ایک دوست کی دعوت پر Mudi Gullکے ہمراہ اس نابغہ روزگار نام نہاد چائے خانہ پر چلے گئے کہ دیکھیے کہ کیا ٹیسٹ اور ذائقہ پنہاں رکھتا ہے یہ چائے خانہ۔۔۔؟؟؟

لیکن وہ سنا تھا کہ "اونچی دکان پھیکا پکوان" آج زندگی نے پھر سے اس ضرب المثل پر ایک اور مہرِ تصدیق ثبت کردی۔۔۔

سب سے پہلے اس ریسٹورانٹ کا خوابناک ماحول کہ بندہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے کہ تاریکی یقینی طور پر اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔۔۔

اب اگلہ مرحلہ شاندار لیدر پیک میں ملفوف اس دعوت نامہ نما "لو لیٹر" یعنی کہ ریٹ لسٹ کا معائنہ کرنا تھا اور اس طویل فہرست میں سے اپنی مطلوبہ چیز کو تلاش کرنا ایک گنج ہائے گراں مایا تلاش کرنا تھا سو اس کٹھن مرحلہ کو ہم نے میزبان پر ہی ڈال رکھا اور اس #لو_لیٹر کو پڑھنے سے پرھیز ہی کی۔۔۔

اور اس گنج ہائے گراں مایہ کی گرانی کے آسمانوں کو چھوتے گراف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ #ریگولر_ٹی ہی منگوائی جائے اور میزبان اس بات پر مصر تھا کہ #سپیشل_ٹی منگوائی جائے۔۔۔

لیکن اجماع کا اتفاق اوّل الذکر قسم پر ہی ہوا اور بیرے کو بلا کر اسے چار #ریگولر_ٹی کا کہا گیا اور جب وہ ایک عدد ٹھنڈے قہوہ کو ترمس نما جگ میں لیکر اور دودھ نما سفید مائع کو الگ لیکر آیا تو ہم کبھی ماحول کی طرف دیکھیں کبھی لانے والے کی طرف اور کبھی اپنی طرف دیکھیں اور اپنی ستم ظریفی پر ہم دھاڑیں مار مار کر رونے والے عمل کو ہم نے ایک بھرپور آہ بھر قہقے میں بدل کر اس نام نہاد چائے خانہ کے موجد کو دل میں ایسی ویسی دعائیں دیں کہ کیا بتاؤں۔۔۔

اور پھر ہمارے چائے پینے کے موڈ کے ساتھ جو ہوا ہوگا وہ چائے نوش خود ہی اندازہ لگا سکتے کیونکہ راوی اس معاملہ میں خاموشی ہی لکھ پاتا ہے کہ اسکے پاس الفاظ نہیں کہ وہ اپنی اس کیفیت کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال سکے۔۔۔

یہ خود ساختہ ملغوبہ کہ جو ایک میٹھے مشروب کی شکل میں ہم بنا پائے تھے کو طوعاً و کرھاً پینا ہی پڑا کہ بل تو ادا کرنا ہی تھا نا، اور بل بھی کہ ایک کپ جو کہ 140 روپے کا تھا اور سپیشل 195 روپے کا تھا۔ کہ اتنی قیمت میں ہم اکی قافلہ کو شاندار قسم کی چائے پلا سکتے ہیں۔۔۔۔

چائے کی اس شدید ترین بے حرمتی اور اپنی بے عزتی سے محسوس کرنے پر ہمیں اہلیانِ صدر پر رشک آیا کہ وہاں تبارک ہوٹل جیسی ایک نعمت ان کے پاس موجود ہے کہ ایسی شاندار چائے وہاں سے آپکو 30 روپے میں مل جاتی ہے اور وہ بھی کہ لب سوز ہو جو۔۔۔۔

بہرحال ہم پر جو بیتی سو بیتی ایک بھاری بھرکم بل ادا کرنے کے بعد ہم فی الفور ہی اس ریستوران سے ایسے غائب ہوئے جیسے "گدھے کے سر سے سینگ"۔۔۔

اور پھر ہم نے ٹھانی کے عوام کو بھی اپنی یہ بستی سی سنا کر ان سے التماس کرونگا کہ خدارا بچیے اس برانڈ کمپلیکسٹی سے نکالیے اپنے آپ کو اس خود ساختہ خول سے کہ ذائقہ کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا وہ جہاں سے مل جائے اسے لے لینا چاہیے اور برانڈز کے چکر میں ہمیں اپنی ثقافت اور سادگی کو بھول نہیں جانا چاہیے۔۔۔

مجھے کل بھی نہیں سمجھ آتی تھی کہ لوگ اس چائے جیسی دیسی چیز کو بدیسی سٹائل میں پینے کیسے چلے جاتے ہیں کہ جب تک ہوٹل میں لوگوں کے شور بیچ میں بیٹھ کر لمحہ بہ لمحہ اس مشروب کو نظرِ حلق نہ کیا جائے تو مزا ہی نہیں آتا۔۔۔

اور آج اس بیستی سی کے بعد بھی میری سمجھدانی میں بات آنے سے رہی کہ وہاں بار بار جانے والے لوگ وہاں کیا لینے جاتے ہیں؟؟؟

میں اپنے اس سوال کے جواب کا عوام سے منتظر رہونگا۔۔۔
 

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 106769 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.