میں اور میرے کلاس فیلوز کا ٹولہ ایک دوست کی شادی میں
موجود تھے، کافی عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی، تھوڑی دیر گپ شپ میں گزری، جس
طرح دوستوں میں بے تکلفی ہوتی ہے، بات مجھ پر آگئی کہنے لگے سوشل میڈیا پر
تصویروں میں تو بہت سمارٹ نظر آتے ہو مگر حقیقت میں تو بہت موٹے لگ رہے ہو
، کم کھایا کرو، واک کیا کرواور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ، میں نے ان کی
باتوں پر غور کرنے کے بعد وہیں فیصلہ کیا کہ آج سے کھانا ، پینا کم، فل
ڈائیٹنگ کرنی ہے، دل میں اس مشکل کام کو کرنے کا پختہ ارادہ کیا تھوڑی دیر
میں کھانا کھل گیا، سب دوست اندھا دھند کھانے پہ لپکے، پلیٹیں بھر بھر کر
سامنے رکھ لیں، تھوڑا بہت کھایا،پھر کھانے کی دوسری قسموں کی اور پلیٹیں
بھر کر لے آئے۔ پیٹ بھر گئے ،کھانا بہت سارا ویسے ہی پلیٹوں میں چھوڑدیا ۔
یقین کریں! عام حالات میں یہی کھانا اگر کسی ریسٹورنٹ میں جاکر منگواتے تو
5,6ہزار کا بل بننا تھا جو صرف 6دوستوں نے ضائع کردیا اس دن سے میں اس سوچ
میں ہوں کہ ہر شادی پر یہی حشر ہورہا ہے۔ یہ کیوں بے حسی ہے؟……شادیوں میں
جاتا تو پہلے بھی تھا اور بہت کچھ دیکھتا بھی تھا مگر اس مرتبہ کچھ سوالات
مجھے بہت چبھے کہ اولاد کے جوان ہوجانے کے بعد ماں باپ کو ان کی شادی بیاہ
کی فکر ہوتی ہے کیوں کہ شادی،فطری ضرورت ہے ، انبیاء کرام علیہم السلام کی
سنت ہے ،انسانی معاشرہ کی بنیاد ہے ، پیار و محبت ، اُلفت و انست کی عمدہ
مثال ہے ، تسکین نفس کا حلال طریقہ ہے ، ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے ، نیا
گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے ۔ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے
۔
رشتے کی تلاش سے لے کر بیاہنے تک ناک رکھنے اور جھوٹی شان سے دو دن کی خوشی
کے لیے ایک غریب والد کو ساری عمر محنت ومشقت کرنا پڑتی ہے پھر جاکر کچھ
رقم جمع ہوتی ہے بعض اوقات تو بھاری بھرکم قرض کا بوجھ اُٹھاناپڑتا ہے ،
قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر لازمی قرضہ لینا پڑتا ہے اور سالہا سال جس کی
ادائیگی کرتے کرتے بوڑھے والدین آخرت کا رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے لیے شادی کا لفظ ہی گویا مصیبت بنتا جارہا
ہے۔شادی بیاہ پر ہونے والے اخراجات اور فضول خرچی کی وجہ سے غریب تو کیا
متوسط طبقے کے لوگ بھی بے حد پریشانی اور مشکلات میں ہیں۔ہماری خواہ مخواہ
کی اناہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کیاسوچیں گے؟……ان ہی سوچوں کو مد نظر رکھتے
ہوئے زیب و زینت ، بڑے شادی خانے، متنوع اقسام کے کھانے اور دوسروں کی شادی
بیاہ سے تقابل کرنے پر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے بے جا لگانے پڑتے ہیں۔
شادی بیاہ کے موقع پر مایوں، مہندی، ڈی جے کا بندوبست، فوٹو گرافر کاخرچہ،
گانا بجانا، ہوائی فائرنگ، آتش بازی ،پیسے لٹانے کا خرچہ، سہرا باندھنا ،
بھاری زیور، جہیز، مکلاوا، واگ پھڑائی، جوتا چھپائی، دودھ پلائی، لڑکی
والوں کی طرف سے تمام سسرال والوں کے جوڑے لگائی اور سارے رشتے داروں کی
مٹھائی اور بدِ بھجائی وغیرہ۔ شادی بیاہ کے مواقع پر ایک دو نہیں بلکہ
سینکڑوں ہندووانہ رسمیں نبھائی جاتی ہیں۔ جتنی زیادہ رسمیں اتنی ہی زیادہ
ٹینشنیں۔ اخراجات کی اصل وجہ شادی نہیں بلکہ مغربی وہندووانہ فرسودہ رسومات
ہیں جو ہمارے معاشرے میں بری طرح سرائیت کرچکی ہیں جن کی وجہ سے شادی کو نہ
صرف مہنگا بنایا جارہا ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بڑی جرأت سے نظر
انداز کیا جارہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی شادی اکثر خانہ بربادی بن
جاتی ہے جبکہ ہمارا مذہب تو ہمیں ہر موقع پر سادگی کا درس دیتا ہے، پھر
کیونکر یہ اصراف ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں؟
شادی کے بابرکت موقع پر رقص وسرور کی محفلیں سجانا بھی ایک جزو بن گیا،جس
شادی میں یہ خاص کام نہ ہو اس شادی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے، ویسے تو یہ
بیماری پرانی ہے لیکن سوشل میڈیا کے عام ہونے کے سبب اس بیماری کو اتنی
تقویت حاصل ہوچکی ہے کہ ہر خاص وعام اس بیماری کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ جو ایک
مسلم معاشرے کے لئے نہایت شرمناک ہے۔مجھے یاد آیا کہ کچھ ہی دن قبل میرے
ایک دوست نے واٹس ایپ پر مختلف شادیوں کی مہندیوں کا ایک کلپ بھیجاجس میں
پڑھا لکھا اور ان پڑھ طبقہ رقاصہ پر پیسوں کی بارش کر رہا ہے ، قابل غور
ہمارے لیے یہ بات ہے کہ رقاصہ ہماری قومی کرنسی پر ڈانس کر رہی ہے ،اس کو
اپنے ناپاک پیروں تلے روند رہی ہے،ایسے لوگوں کو نصیحت کرنے پر جواب یہ
ملتا ہے کہ:’’خوشی میں سب چلتا ہے‘‘۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ شادی کے موقع پر سب سے زیادہ عزیز ازجاں وہ شخص ہوتا
ہے جو کہتا کہ کھانا کھل گیا۔اس اعلان کے بعد منظر دیکھنے والا ہوتا ہے جب
ہرکوئی دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ساراصبروتحمل اورتہذیب
وشرافت کاجنازہ کھانے کی ٹیبل پرنکل جاتاہے، چمچوں اور پلیٹوں کے ہتھیار سے
طبل جنگ بج جاتا ہے پھر پلیٹ اتنی بھر لی جاتی ہے کہ ایک پہاڑی سی بن جاتی
ہے۔ تھوڑی سی کھائی اور پلیٹ رکھ کر کسی اور ڈش کی جانب چل پڑے آدھی پلیٹیں
بھری ہوئیں میزوں پر پڑی رہتی ہیں۔جب ضرورت سے زائدکھانا لیا جائے گاتو
ضائع ہی ہو گا۔ظاہر ہے اتنا کون کھا سکتا ہے۔ کھانا ضائع کرنا کفرانِ نعمت
اور ناشکری ہے، اسے ضائع ہونے سے بچائیے،برتن اچھی طرح صاف کیا جائے…… نبی
اکرم صَلَّی اﷲ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:’’جب لقمہ گرجائے تو (کھانے
والا)اسے اٹھالے اورپونچھ کر کھا لے،اس کوشیطان کے لیے نہ چھوڑے ‘‘۔
جب لقمہ اٹھا کر کھانے کا حکم ہے توپلیٹ میں کھانا چھوڑ کرضائع کردیناکہاں
کا ادب ہے؟ شادی پر خرچ ہونے والی کل رقم کا ایک بڑا حصہ کھانے پر خرچ کیا
جاتا ہے اور اسی کھانے کاایک بڑا حصہ مہمان اپنے ہاتھوں سے ضائع کر دیتے
ہیں دیگر رواجوں کے ساتھ ساتھ کھانا ضائع کرنا بھی ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔
خدارا! غور کیجئے کہ ہم لوگ ہی ہوتے ہیں جو ان شادیوں میں جاتے ہیں پھر کیا
وجہ ہوتی ہے کہ گھر میں اور باہر ہم لوگوں کے روئیے اتنے تبدیل ہو جاتے
ہیں؟اپنے گھر میں ایک روپے کا نقصان برداشت سے باہر ہوتا ہے ، گھر کے سٹور
کا بلب بند کرنا اگرکوئی بھول جائے تو ہم سراپا احتجاج ہوجاتے ہیں جبکہ
وہاں لاکھوں کا کھانا ضائع کرتے افسوس نہیں ہوتا۔اتنے متضاد رویوں کی وجہ
ہماری بے حسی ہے ۔ہم سب نے میز بان کے پیسوں کو لوٹ کا مال سمجھا ہوتا ہے ۔
یہ بہت شرمناک رویہ ہے۔
یاد رکھیے!ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کا کھانا بھی
بمشکل نصیب ہوتا ہے، اکثر سوشل میڈیاپر تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ غریب
بچے کوڑے سے یہی بچا کھانا اٹھا کر کھا رہے ہوتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے تازہ
ترین اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں تقریباً50 سے 55فیصد لوگ غربت کی
لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی آرام سے میسر
نہیں ہوتی۔دعا ہے کہ اﷲ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائے اورنعمتوں کی قدر
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین |