’’بسنت ‘‘ پر اعتراض کیوں؟

وکیپیڈیا کے مطابق بسنت (Basant) یا بسنت پنچمی موسم بہار میں منائے جانے والا بنیادی طور پر ہندوؤں کا ایک تہوار ہے۔ بسنت کا سنسکرت میں لفظی مطلب بہار کا ہے۔ اسے بسنت پنچمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے جو عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے۔ ویدوں میں لکھا ہے کہ یہ سرسوتی دیوی کا دن ہے۔ اس دن خوشی منائی جاتی ہے اور سرسوتی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لیے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ بسنت ہندوؤں اور سکھوں کا مشترکہ تہوار ہے۔ ایک ہندو مؤرخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب ''Punjab under the later Mughals'' میں لکھا ہے : ’’حقیقت رائے باگھ مل پوری سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ حقیقت رائے نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیجا گیا جہاں اسے سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس واقعے سے پنجاب کے ہندوؤں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر زکریا خان کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اس گستاخ رسول کی گردن اڑادی گئی۔ اس پر ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے کی ایک مڑہی (یادگار) قائم کی جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ ’’باوے دی مڑہی‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقام پر ایک ہندو رئیس کالو رام نے حقیقت کی یاد میں اس کی موت کے دن کو ایک میلے کی شکل دی اور ہر سال بہار کے موسم میں بسنت میلے کا آغاز کیا۔ پنجاب کا بسنت میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے‘‘۔ ایک مکتب فکر بسنت کو ایک موسمی نہیں بلکہ مذہبی تہوار سمجھتا ہے چونکہ اس کا ذکر پرانی ہندو مذہبی کتب میں آتا ہے۔ پرانی کتابوں کے مطابق پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسرے شکلیں بنا کر آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور کی جاتی ہیں۔ یہ خیالات جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے سنگاپور، تھائی لینڈوغیرہ۔

بسنت منانے کے نتیجے میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ پتنگ کی ڈور ہے جس سے گلے کٹ جاتے ہیں۔ کچھ بچے پتنگ بازی کرتے ہوئے چھت سے بھی گر جاتے ہیں اور کچھ ان گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جو پتنگ باز چلاتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہر سال بسنت کے موقع پر پاکستانی عدالتوں میں اس تہوار کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔بسنت کے موقع پر دھاتی دھاگوں کے استعمال سے بعض ہلاکتوں کے باعث پنجاب حکومت نے چند برس قبل بسنت کے تہوار اور اس موقع پر پتنگیں اڑانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 2012ء میں اس کو لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا جوکہ 2018ء تک بحال رہا لیکن چند دنوں پہلے ہی پنجاب حکومت نے کئی سال سے بسنت پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا اور فروری میں بسنت منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

یہ ہے وہ حقیقی پس منظر جس کی وجہ سے بسنت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ لیکن آج خبروں میں، ٹی وی شوز میں یہ بحث اٹھائی جارہی ہے کہ بسنت پر پابندی لگاکر اقلیتوں کو اپنا مذہبی تہوار منانے نہیں دیا جارہا۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان تنگ نظری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اقلیتوں کی آزادی صلب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اس تہوار پر پابندی لگانے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ یہ ایک خونی تہوار کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ جانی نقصان کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ لیکن آج پابندی اٹھانے کے لیے ان نقصانات کو زیرِ بحث اور زیرِ غور لانے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایاجارہا ہے۔ اس کے نقصانات پر بات کرنے کے بجائے بحث یہ کی جارہی ہے کہ کیا اسلام بسنت منانے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اسلام میں پتنگ اڑانے کی اجازت ہے ؟ پاکستان میں اقلیتوں کی آزادی پر پابندی کیوں لگائی جارہی ہے؟ کیا پاکستان میں اقلیتوں کو اپنا مذہبی تہوار منانے کا کوئی حق نہیں ہے؟ اس طرح کے سوالات اٹھا کر بھو لے بھالے لوگوں کے ذہنوں کوالجھایا جارہا ہے۔ یہ حکمرانوں اور میڈیاکی انتہائی گھناؤنی سازش ہے کہ با ت کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں اور اصل حقیقت سے اس کا رخ پھیر دیتے ہیں۔ یہ ایک بالکل الگ بحث ہے کہ اسلام بسنت منانے یا پتنگ اڑانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟ اگر دیتا ہے تو اس کی حدودو قیودات کیا ہیں؟ اگر نہیں دیتا تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس تہوار سے کتنانقصان ہوتا ہے ، کئی ماؤں کی گودیں اجڑ جاتی ہیں، معصوم بچوں کے گلے کٹ جاتے ہیں، کئی لوگ ہمیشہ کے لیے معذورہوجاتے ہیں، درجنوں گھروں میں صفِ ماتم بچھ جاتا ہے، ساری ساری رات فائرنگ کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں جس سے لوگوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔

سینئر صحافی حامد میر نے ہندوؤں کی خوشنودی کے لیے ایک پروگرام اس موضوع پر تو کرلیا اسلام میں بسنت منانے اور پتنگ اڑانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ حامد میر ذرا اس پر بھی پروگرام کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ گذشتہ سالوں میں اس تہوار کی وجہ سے کتنی اموات ہوئی ہیں اور کتنے لوگ اپنے گھر کا واحد سہارا تھے جو آج بے سہاراہیں۔ کتنے معصوم بچوں کے گلے کٹے تھے۔ کتنے لوگ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے تھے۔ صرف ایک طبقے کی مسرت و شادمانی اور لاابالی پن نے کتنے لوگوں کے گھر وں میں صف ماتم بچھائی تھی۔ حامد میر لوگوں کو یہ سب کچھ بتانے کے بعد اس پر بحث کریں کہ کیا اس تہوار کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ اس کے نقصانات کو بالائے طاق رکھ کراسلام اور مسلمانوں کو ہدفِ تنقید نہ بنائیں۔اسلام دشمنوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہر معاملے کی حقیقت کو الجھا کر اس کا رخ پھیر دیتے ہیں۔ بسنت درحقیقت ایک ہندووانہ تہوار ہے لیکن اسلام دشمنوں نے اس تہوا ر کو مسلمانوں کی ثقافت کا آئینہ دار بنادیا اور بھولے بھالے مسلمانوں نے اس تہوار کو بخوشی قبول کرلیا۔ اسی لیے اس تہوار کو پنجاب کی ثقافت کا آئینہ دار کہہ کر حکومتی سطح پرمنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں معاملہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر پابندی کا نہیں بلکہ ان کے تہوار کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے کا ہے جوکہ ہر گز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ایک حد مقرر کی ہے اور اسی حد میں رہ کر غیر مسلم اپنی عبادات کرسکتے ہیں اور اپنا مذہبی تہوار بھی مناسکتے ہیں۔اس تہوار کو ہندوؤں کا تہوار ہی رہنے دیا جائے ، خوامخواہ مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ نیز اس تہوا ر یا کسی بھی تہوار کی آڑ میں فحاشی و عریانی کی اجازت اور جان و مال کے ضیاع کی اجازت کوئی بھی مسلم اور مہذب معاشرہ نہیں دے سکتا۔ لہٰذا مروجہ خونی بسنت کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے ۔ رہی بات فیاض الحسن چوہان کی کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان عید الاضحی مناتے ہیں تو اس موقع پر بھی کئی لوگ زخمی ہوجاتے ہیں اوران کی جانیں چلی جاتی ہیں ، لہٰذااس پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ اس جاہلانہ قیاس پر فیاض الحسن کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ انہوں نے ایک ہندووانہ تہوار کو قرآن کے حکم اور نبی کی سنت سے قیاس کیا ہے۔ یقینی طور پر یہ اسلام دشمنی ہے اور انتہائی درجہ کی ہٹ دھرمی ہے۔ اسلام کا معاملہ بہت حساس ہے ، اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو خاموش رہنا چاہیے۔ عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہئیں بلکہ کسی اہلِ علم سے رابطہ کرنا چاہیے۔

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 86723 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.