ٹریفک بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔تھوڑی دور اک ہجوم
نظر آ رہا تھا۔ شاید کوئی حادثہ ہوا تھا۔رینگتے ہوئے بالاخر گاڑی اس ہجوم
کے پاس پہنچ گئی۔ دو رویا سڑک کی درمیانی پٹی کے پاس ایک موٹر سائیکل زمین
پر گری ہوئی تھی اور موٹر سائیکل کے ساتھ ایک آدمی بے ہوش پڑا تھا۔ زمیں پر
خون بکھرا ہوا تھا۔بہت سے لوگ ارد گرد کھڑے تھے۔ دور 1122 کی گاڑی کا سائرن
اپنی فوری آمد کی اطلاع دے رہا تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ حادثہ دیکھ کر لوگ
رک گئے تھے اور ہر طرح سے مدد کو تیار تھے۔مگر آج کا یہ واقعہ کوئی پہلا
واقعہ نہیں ،یہ تو روز کا معمول ہے۔میرا ایک عزیز گاڑی پر جا رہا تھا۔ آگے
کسی گاڑی کو ایک موٹر سائیکل نے ملنا چاہا۔ گاڑی والے نے اسے بچانے کے لئے
یکدم بریک لگا دی۔ موٹر سائیکل والا بچ گیا۔پیچھے آتی سات گاڑیاں آپس میں
گلے مل گئیں۔ سب کے بمپر، بونٹ ٹوٹ پھوٹ گئے۔ آپس میں تھوڑی سی بے حاصل
جھڑپ کے بعدٹوتی ہوئی گاڑیوں کے ساتھ سب گھر کو لوٹ گئے۔
میں ہر صبح اس سڑک سے گزرتا ہوں اور ہر روز ایسا کوئی نہ کوئی ملتاجلتا
حادثہ نظر سے گزرتا ہے۔میں ان حادثات کی بنیادی وجہ پر غور کر رہا تھا۔ بڑی
سادہ سی بات ہے۔ پہلی لین تیز رفتار گاڑیوں کے لئے ہوتی ہے، مگر موٹر
سائیکل اور رکشا چلانے والے اپنی لین کی بجائے پہلی لین میں بڑی دلیری سے
چلتے ہیں۔ خصوصاً موٹر سائیکل سوارکمال تیزی سے پہلی اور دوسری لین میں
لہراتے آتے اور جاتے ہیں اور اس سرعت سے لین بدلتے ہیں کہ گاڑی والا چاہے
بھی تو ملاقات روکی نہیں جا سکتی۔ رکشا ڈرائیور ان موٹر سائیکل والوں سے
بھی بڑھ کر ہیں۔وہ سواری سڑک کے کنارے سے اٹھاتے ہیں۔ پھر جہاز کی طرح رکشے
کو بھگاتے سب کو کاٹتے پہلی لین میں آتے ہیں۔ دوران پرواز سواری نظر آتی ہے
تو پھر اتنی پھرتی سے سڑک کنارے آتے ہیں کہ پیچھے سے آنے والے سر پیٹ کر رہ
جاتے ہیں مگر وہ دعوت دیتے ہوئے کہ بچ سکو توبچ جاؤاپنی پرواز جاری رکھتے
ہیں۔مگر کبھی کبھار کوشش کے باوجود تیز رفتار گاڑیوں کو چلانے والے ان
ملاقات کے متمنیوں سے نجات نہیں پا سکتے اور ملاقات ہو کر رہتی ہے۔ٹریفک
پولیس ان موٹر سائیکل سواروں اور رکشا ڈرائیوروں کو کنٹرول کرنے میں بالکل
ناکام ہے۔
ٹریفک پولیس کے ایک افسر نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ٹریفک میں بد نظمی
کی بنیادی وجہ جرمانے کی رقم کا معمولی ہونااور عوام میں شعور نہ ہونا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ایک ذمہ دار شخص کے اس بیان پر ہنسوں یا ایسی عقل پر ماتم
کروں کہ جب ایسے ہونہار لوگ پولیس میں سینئر پوزیشنز پر ہوں تو اس محکمے کا
اﷲ ہی حافظ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ جس محکمے کے سینئرلوگوں کے شعور کا یہ عالم
ہے وہاں عام ٹریفک اہلکاروں میں شعور کہاں سے آئے گا۔ عوام کیسے باشعور
ہونگے۔معذرت کے ساتھ پولیس کے ذمہ داروں کو عرض ہے کہ بھاری جرمانے سے
یقیناً پولیس کا مک مکا آسانی سے ہو جائے گا اور مک مکا ر یٹ بھی کافی بہتر
ہو جائے گا، لوگ بھاری جرمانہ دینے کی بجائے نذرانہ دے کر جان چھڑانا بہتر
سمجھیں گے۔ مگر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
پولیس کے ذمہ داران کے ایک محتاط اندازے کے مطابق، لاہور میں روزانہ چھ
ہزار (6000)سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ مگر ایسے چھوٹے
چھوٹے واقعات اور پولیس کے مک مکا کی وارداتیں اس میں شامل کر لی جائیں تو
میرے محتاط اندازے کے مطابق روزانہ چھ (6000) ہزارسے لگ بھگ چار گنازیادہ
خلاف ورزیاں ہوتی ہوں گی۔چند دن پہلے ایک خبر منظر عام پر آئی کہ ٹریفک کی
خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کی اس بڑی تعداد کی حوصلہ شکنی کے لئے انسپکٹر
جنرل پولیس پنجاب نے لاہور پولیس کے انچارج (CCPO) کو کہا ہے کہ اسے روکنے
کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جرمانے کی رقم میں ہوشربا اضافہ کر دیا جائے۔کچھ
پریشان کن جرمانوں کا ذکر بھی زبان زد عام رہا۔ رب العزت کا احسان ہے کہ
لوگوں پر یہ قہر نہیں ٹوٹا۔
پولیس کے لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی مسئلے کا حل زیادہ
جرمانہ نہیں ہوتا۔ ہاں عوام میں شعور کو اجاگر کرنے کی یقیناً بہت ضرورت ہے
۔ دنیا میں بہت سے ایسے شہر ہیں، جہاں ٹریفک ہمارے شہر سے بھی کئی گنا
زیادہ ہے، مگر بے ترتیب نہیں۔ وہاں کی پولیس فعال اور ایماندار ہے۔ وہ پوری
قوت سے ٹریفک کنٹرول کرتی اور اسے نظم میں لاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ
ہمارے شہر میں شعور سے عوام کو آگاہی کون دے گا۔ دو صورتیں ہیں۔ ایک تعلیم
اور دوسرا ٹریفک پولیس کا مثبت کردار۔ اس ملک میں تعلیم کو ایک گھورکھ
دھندہ بنا دیا گیا ہے۔ وہ خود زبوں حالی کا شکار ہے۔ تعلیم پہلے خود کو
ٹھیک کر لے پھر کسی اور کی اصلاح کا سوچا جا سکتا ہے۔دوسری ٹریفک پولیس ،
تو اس کے منفی رویوں پر آسانی سے ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
میرا ایک دوست یورپ کے ایک ملک میں پھر رہا تھا۔اچانک اس کو کسی نے اس کا
نام لے کر پکارااور پھر ایک گاڑی اس سے کچھ آگے رکی۔ اس کا ایک پرانا دوست
گاڑی کو بیچ سڑک کھڑی کرکے تیزی سے باہرنکلا ۔ اسے گلے ملا اور اس کے بعد
اس نے گاڑی میں بیٹھے اپنے بیٹے کو آواز دی، ـ’’ بیٹا باہر آؤ، اپنے چچا سے
ملو‘‘۔گاڑی میں سے جواب آیا، ’’ میں گاڑی میں سے باہر نہیں آ سکتا، پہلے
گاڑی کسی پارکنگ میں لگائیں پھر باہر آنے کی بات کریں‘‘۔ گاڑی والا دوست
کچھ شرمندہ ہو کر کہنے لگا، بھائی یہاں کے سکولوں والے ہمارے بچے بگاڑ دیتے
ہیں۔اب دیکھو میرا بچہ قانون کے نام پر میری پروا ہ ہی نہیں کرتا، کیا کروں۔
آؤ گاڑی میں بیٹھ کر کسی اچھی جگہ جا بیٹھتے ہیں وہیں گپ شپ ہو گی۔ مجبوری
میں وہ ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھے اور چل دیئے۔یہ وہ تعلیم ہے جو ہم اپنے
بچوں کو دینے میں ناکام ہیں۔ہماری تعلیم میں ان بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت
ہے کہ جو ہمارے بچوں کو اچھا شہری اور اچھا انسان بنانے میں معاون اور مدد
گار ہوں۔
ٹریفک پولیس جسے عوام کو شعور دینا ہے کرپٹ اور شعور سے عاری ہے ۔اس کے ذمہ
داروں کو اپنے بارے سوچنا ہو گا کہ کہاں کہاں خامیاں ہیں۔میں نے عرصے سے بس
پر سفر نہیں کیا۔ چند سال پہلے مجھے بس پر فیصل آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر
بس پر ایک مثلث شکل کا سٹکر لگا تھا۔ اس سٹکر پر اوپر نمبر 4 لکھا تھا اور
نیچے ’’نماز ہر برائی سے روکتی ہے‘‘ لکھا تھا۔ مجھے اچھا لگاکہ کسی نیک شخص
نے اخلاقی تعلیم کے حوالے سے سب بسوں پر سٹکر لگا دیا تھا۔ مگر نمبر4 کیوں
درج ہے سمجھ نہ آئی۔ پندرہ دن بعد ایک دفعہ پھر بس پر جانا پڑا۔ہر بس پر
ایک نیا گول سٹکر لگا تھا ۔ درمیان میں 5 لکھا تھا اور ارد گرد ’’رزق حلال
عین عبادت ہے‘‘۔ اچھی بات تھی مگر پہلا سٹکر بالکل غائب اور نیا ہر جگہ
موجود ، آخر کیا وجہ ہے۔ ایک ٹرانسپورٹر دوست سے پوچھا، ہنس کر بتانے لگا،
سٹکر لگانے والے نیک لوگ ٹریفک پولیس کے ملازم ہیں۔ پچھلا مہینہ اپریل
چوتھا مہینہ تھا۔ بس پر سٹکر کی موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پولیس
نے چوتھے مہینے کا بھتہ وصول کر لیا ہے۔ یہ مہینہ مئی پانچواں ہے ۔ پانچویں
کا بھتہ ملنے کے بعد پانچ نمبر کا سٹکر لگا دیا گیا ہے۔ بھتہ لینے کے بعد
پولیس پورا مہینہ غیر ضروری تنگ نہیں کرتی۔اصلاع کا سوچنے والے بتائیں کیا
پولیس نے وہ بھتہ لینا بند کر دیا ہے اور سٹکر بازی ختم ہو گئی ہے۔
لاہور میں جہاں جہاں ویگن کا اڈہ ہے وہاں ایک پہلوان موجود ہے جو ہر ویگن
والے سے ایک مخصوص رقم لے کرچالان نہ ہونے کی ضمانت دیتا ہے اور واقعی کسی
ضمانت حاصل کرنے والے ڈرائیور کا چالان نہیں ہوتا۔یہ ملی بھگت ہے ۔ ٹریفک
کی اصلاع کے لئے کبھی کسی نے سوچا کہ یہ ملی بھگت کیسے ختم ہو۔
میری رہائش ایک بڑی سڑک کے قریب ہے۔اس سڑک پر سارا دن بڑے ٹرالروں اور
ٹرکوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ مجھے سارا دن اس بڑی سڑک سے گزرنا ہوتا ہے۔
راستے میں تین چار بڑے چوک ہیں۔چوک میں کھڑے ہو کر ٹریفک کنٹرول کرنے کی
بجائے عموماً ٹریفک والے چوک سے ہٹ کر چالان کرنے اور پیسے وصول کرنے میں
مگن ہوتے ہیں اور کھل کر کہتے ہیں کہ انہیں چالانوں اور رقم دونوں کے ٹارگٹ
پورے کرنے ہیں ۔ وہ ٹارگٹ پورا کریں کہ ٹریفک کنٹرول۔ کیا ٹریفک پولیس
ٹارگٹ سے نجات پا سکتی ہے۔کیونکہ ٹریفک کی بہتری کے لئے نجات ضروری ہے۔
لاہور میں ٹریفک کی اصلاع کے لئے سب سے پہلے پولیس کو اپنی اصلاع کرنا ہو
گی۔ ویسے ٹریفک پولیس ہومیوپیتھک قسم کی پولیس ہے۔ اسے جب تک عام پولیس کے
ساتھ مربوط نہ کیا جائے ، یہ بہت سے کام نہیں کر سکتی۔ جہاں قانون کی خلاف
ورزی پر کسی کو قابو کرنا یا گرفتار کرنا مقصود ہو یہ ناکام نظر آتی ہے۔ اس
کی بہتر تنظیم نو کرتے وقت اسے مقامی تھانوں کے ساتھ وابستہ کر دیا جائے تو
صورتحال بہت بہتر ہو جائے گی۔ |