دیش بھکتی کے ایسے جھنڈا بردار تو آپ کو ہزاروں نظر آئیں
گے جواپنی آنکھوں میں یورپ کا سپنا سجائے اپنےخودساختہ بائنری لٹمس
سےدوسروں کی وطن پرستی جانچتے پھرتے ہیں ۔ اور موقعہ ملتے ہی دیش اور دیش
پریم چھوڑ ، پیٹ کا سوال لئیے ایسے فرار ہوتے ہیں کہ پھر یوروپ کی مستی میں
کبھی ماتا یاد آتی ہے نہ ماترم۔
اس منافقانہ ماحول میں اگر میں کہوں کہ اپنی دھرتی کا سچے دل سے بھلا چاہنے
والے ایسے سپوت بھی زندہ ہیں جو کھوکھلے نعروں پر نہیں بلکہ سچی خدمت کے
ذریعے وطن سے محبت ثابت کرتے ہیں تو شائد حیرت ہو ۔
آج میں ملوانا چاہتا ہوں ، ہمارے نوجوان دوست محمد ساجد حسین سے ۔
پسماندہ ریاست جھارکھنڈ کے ایک غیر معروف شہر چتر پور، رام گڑھ کے متوطن اس
نوجوان کو رب نے وہ صلاحیتیں اور قابلیت عنایت کررکھی ہیں کہ اگر وہ بھی
چاہے تو کسی اور کی مانند شائد امریکہ کی پر آسائش زندگی اور مائکروسافٹ و
گوگل جیسی کمپنیوں کے مقامات بلند پا لے ۔ لیکن بھائ ساجد نے اپنے لئیے
دولت کے مقابل خدمت کا راستہ چنا ۔ ساجد حسین کے اصل کارنامہ کی وضاحت سے
پہلے آپ کے تعلیمی سفر کی ایک جھلک بھی دلچسپی کا سبب ہوگی ۔
مدرسہ میں ابتدائی تعلیم اورانٹر میڈیٹ کے بعدبی آئی ٹی (سندری) سے
انجینیرنگ کی تکمیل کرکے ساجد نے سخت مسابقتی امتحان GATE میں ملکی سطح پر
55 واں مقام پایا اور ہندوستان کے انتہائی معیاری ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ
آف سائنس بنگلو ر سے ماسٹرس کی تکمیل کی ۔ جرمنی کی بوان سویگ ٹیکنیکل
یونیورسٹی سے ریسرچ مکمل کیا ۔ جرمنی ، پولینڈ ، سویزرلینڈ ، سلواکیہ ،
اسکاٹ لینڈ کے بشمول یوروپ کے کئی نامور اداروں میں تحقیقی مقالے پیش کئیے
۔ باوقار انٹرنیشنل جرنلس میں آپ کے تحقیقی مقالے شائع ہوئے ۔
نیشنل ایرو اسپیس بنگلور اور جرمنی کے اعلیٰ تحقیقی اداروں میں بحیثیت
مٹیریل ریسرچ سائنٹسٹ کام کیا ۔ اعلیٰ ترین کیریر کا یہ وہ سنگ میل تھا جس
کا خواب دنیا کے کروڑوں نوجوان دیکھتے ہیں لیکن بمشکل چند اس کی تعبیر پاتے
ہیں ۔ ساجد حسین بھی اس تعبیر تک رسائی پانے والے انھیں چند جینیس نوجوانوں
میں سے ایک ہیں ۔
یوروپ کے مصروف شب و روز کے بیچ ایک دن ساجد کے ذہن میں ایک انوکھے سوال نے
سر اٹھایا کہ میری ان مسلسل کامیابیوں کا میرے وطن اور میرے گاؤں کوکیا
فائدہ ؟ کیا میں وطن سے دور خود کو سنوارنے اور دولت جٹانے میں ہی زندگی
بتادوں گا ؟
جواب ڈھونڈھتے انھیں دیر نہ لگی ۔
کیریر کے اس موڑ پر جہاں دولت ، شہرت اور عزت کی برکھا برستی ہے ، انھوں نے
ایک انوکھا فیصلہ کیا ۔اپنی قابلیت کو کچھ نئے طریقوں کے سہارے ان نونہالوں
میں منتقل کرنے کا فیصلہ جوصلاحیت کے باوجود محرومیوں کا شکار ہیں ۔
وطن کی مٹی اور خدمت کا جذبہ بالآخر انھیں گھر لے آیا ۔ اور پھر وجود میں
آیا ایک انوکھا ادارہ ۔
یعنی ۔۔۔ لیبارٹری اسکول!!
یہ نہ نوٹ چھاپنے والا کارپوریٹ اسکول ہے نہ انکی نقالی فرمانے والا سیمی
کارپوریٹ ادارہ ۔
نہ ہی حکومتوں کے احسان تلے دبا سرکاری اسکول۔
بھلا ہو ہمارے ان فرسودہ ماڈلس کا ، ایک وہ اسکولس ہیں جہاں تعلیم کے نام
پر بزنس اور تماشے رائج ہیں اور دوسرے وہ جہاں تعلیم کے نام پر نکما پن اور
سیاست ۔۔الا ماشاء اللہ
ساجد کہتے ہیں کہ ہمارا اسکول بچوں کے کرئیٹیو ٹیلینٹس ، کمپوٹیشنل اور
کریٹیکل تھنکنگ کو تجربات کے سہارے نکھارتا ہے ۔ یہاں کتابوں کا بوجھ کم
اور لیبارٹریز کا لطف زیادہ ہے ۔ یہاں بائیلوجی کلاس ، لیکچر روم میں نہیں
باغ ، جنگلات اور جانوروں کے بیچ ہوتی ہے ۔اسکول یونیفارم پہنے بچوں کو
اسکوٹر انجن کے پرخچے ٹٹولتے ، مٹی گوندھتے ،کمھار کا پہیہ گھماتے، ہینڈی
کرافٹس میں ہنر آزماتے اور چکرادینے والے گنجلک الیکٹرانک سرکٹس میں نظریں
گاڑے پائیں تو آپ حیران نہ ہو ں ، یہ اسی لیبارٹری اسکول کی نئی دنیا ہے ۔
انھیں یہ خیال کیسے آیا ؟ ساجد کہتے ہیں ۔۔
I want to transform the education system right from the grassroots. I
believe that we remember whatever we did practically in our school days,
not the things taught in the classrooms
یہی تصور لیبارٹری اسکول کے جنم کا سبب بنا ۔
ساجد حسین کے لیبارٹری اسکولس کے اس انوکھے خیال کو مزید قوت ملی جب آئی
آئی ٹی اور آئی آئی ایم سے انکے دو دوست اس پراجیکٹ میں شامل ہوگئے ۔انکی
قائم کردہنامی اسٹارٹ اپ کمپنی نے بہت جلد خود کی خدمات کو ثابت کیا ۔
تجربات، تیکنالوجی اور نتائج پر مبنی اس تعلیمی ماڈل کی ترویج اور اس ماڈل
کے تحت رسورسزکی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ریاستی سطح پر فراہمی اس
کمپنی کا مقصد ہے ۔ اس مقصد کے لئیے فیلو شپ پروگرام بھی شروع کیا۔
پراجیکٹ کے تحت چل رہے اسکولز اور یہاں علم پارہے بچوں نے اس تجربہ اور
ویژن کی کامیابی کو مختصر وقت میں ثابت بھی کیا ۔
انس نے آئی آئی ٹی کے پروجیکٹ سے تحریک پائی اور 11 سال کی عمر میں کمپیوٹر
گیم ڈولیپ کردیا ۔ انٹرنیشنل میتھمیٹکس اولمپیاڈ میں 65 بچوں نے شر کت کی
اور 18 نے میڈل پایا ان میں گیارہ سالہ عامر بھی شامل ہے جو دن میں پڑھتا
اور رات دیر گئے تک دودھ بیچتا ہے ۔ ایک اور بچے نے تین جلدوں میں کا میکس
لکھ دی۔
انکے اس انوکھے کانسپٹ اور اس کی کامیابی کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ۔
انھیں اسٹارٹ اپ انڈیا پرگرام کے تحت 2018 میں ریاست کی ساتویں کامیاب ترین
کمپنی کاایوارڈ اور چیف منسٹر کے ہاتھوں اعزاز ملا ۔ ملک کی کئی دیگر
تنظیموں اور این جی اوز نے بھی اس ماڈل کو کئ انعام و اعزازت سے نوازا اور
سراہا۔
آج ساجد حسین کا تین سالہ نوخیز ادارہ اپنےعلاقہ میں ایک نئے تعلیمی انقلاب
کا بگل بجارہابے۔ یہ صرف ادارہ نہیں بلکہ ادارہ ساز بن چکا ہے ۔
ساجد حسین کی اسٹوری محض ایک کارنامہ کی داستان نہیں بلکہ۔۔
1) جذبہ خدمت کا انوکھا ماڈل ہے جو کھوکھلی دیش بھکتی اور حقیقی جذبہ خدمت
کا فرق بھی کھولتاہے۔ ہمارے نوجوان کسی کی جملہ باز بھپکیوں سے سہم کر
مرعوب نہ ہوں ۔ آپ نے ہمیشہ اس ملک کو دیا ہے اور سچے جذبہ کے ساتھ
دیتےرہیں گے. انشاءاللہ
2) ارادہ اور فیصلہ کی قوت کی عمدہ مثال ہے ۔ بھلا 33 سالہ نوجوان اتنا
چیلنجنگ فیصلہ کیسے کرسکتا ہے جو اسکے کیریر کو داؤ پر لگا دے ۔میں ساجد سے
کہتا ہوں کیا ملک میں تھنکرس اور پروفیشنلز کی کمی ہے؟ لیکن سچ یہ ہے کہ
ایسا جنون تم جیسے " ایڈیٹس" کا ہی اعزاز ہے ۔
3) جذبہ خدمت اور سیکھنے کی لگن زندہ ہوتو تعلیمی پس منظر رکاوٹ نہیں بنتا
۔ بھلا انجنیر کا فن تعلیم سے کیا تعلق ؟ لیکن ساجد کہتے ہیں کہ مسائل حل
کرنا آپ کا کام ہے ۔ اگر یہ جذبہ زندہ ہو تو ، مسئلہ تکنیکی ہے یا سماجی ،
یہ سوال بڑا نہیں۔
4) ان والدین کے لئیے بھی خاموش پیغام ہےجو سماج سے کاٹ کر بچوں کو صرف
نصابی کتب کا کیڑا بنانے پر تلے ہوتے ہیں اور اس غیر فطری دوڑ میں کیریرکی
مصنوعی چمکڈھوندھتے ہں جبکہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں طلباء کی شخصیت سازی
میں زیادہ رول غیر نصابی سرگرمیوںکا ہوتا ہے۔ بھائ ساجد نے ثابت کیا کہ
صالح اجتماعیت اور اسکی طلبائ خدمات صرف شخصیت ساز نہیں بلکہ "کیریر ساز"
اور سماج ساز بھی ہوتی ہیں ۔
فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنہ
5) ملت کے نونہالوں میں حوصلوں اور صلاحیتوں کی کمی نہیں ۔بسا اوقات ہماری
اسکول کمیٹیاں ، ٹیچرس کی کاہلی ، والدین اور معاشرہ کی بے حسی کل ملا کر
ہمارے ٹیلینٹس کو غارت کرتے ہیں ، اگر ہر شہر میں ساجد حسین بیدار ہوں تو
معلوم ہوگا کہ۔۔
عفطرت نے "ہمیں" بخشے ہیں جو ہر ملکوتی |