کُچھ یوں اور کُچھ یوں

پاکستان کے حکمران کرپٹ ہیں،ہر کسی کو اپنے خزانے بھرنے کی پڑی ہے ۔غریبوں کا استحصال(مجبوری کا فائدہ)ہے۔ہر حکمران اپنے اپنے فائدے کی سوچ رہا ہے۔کہ کیسے اس قوم کو لوٹا جائے اور انکو خون کے آنسو رلایا جائے۔اللہ کا عذاب ہے کہ اللہ نے خوف اور بھوک کو مسلط کر دیا ہے ہر کوئی اپنا اپنا پیٹ سیر کرنے کےلئے کچھ یُوں اور کچھ یُوں کی صدائیں دیتا پھرتا ہے۔ادھر جاگیرداروں اور موروثی سیاست کرنے والوں نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اب اللہ ہی ہے جو ہمیں ان سے نجات دے سکتا ہے،سوائے اللہ کی غیبی مدد کے ہمیں کوئی ان حالات سے نہیں نکال سکتا ہے! یہ ہے وہ کھائی جسمیں ہم نے خود کو دھکیل دیا ہے ،جسے دوہرا دوہرا کر ہم پچھلے 70 سال سے تاریخ کے نازک موڑ سے گزرتے رہے ہیں۔ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم سارے عذابوں اور آفات کا ذمہ (نعوذ باللہ) اللہ پر ڈال دیتے ہیں،اور ان آفات سے چھٹکارے کے لئے بھی اللہ سے ہی امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان حالات سے نکال دے اور ہم خود مزے سے سو جاتے ہیں۔جب کوئی کہنے والا کہے کہ اجی! آپ خود کیوں نہیں کچھ کرتے تو ہم اپنی بے بسی کا رونا روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو غریب ہیں میں اکیلااس معاشرے کی لئے کیا کر سکتا ہوںوغیرہ۔

لیکن ذرا سوچئیے!ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں ایک ضابطہ حیات مہیا کیا ہے،اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کے اسلوب سیکھائے ہیں۔لیکن صد افسوس انسان اسلام کی تعلیمات سے اس قدر دور ہےکہ بعد دفعہ اس ضابطہ حیات کی تمام حدود کو پامال کر دیتا ہے۔حلال و حرام کی تمیز کو بھول جاتا ہے،دیکھتے ہی دیکھتے وہ انسان جس کو اللہ نے اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا ہے ۔وہ وحشیوں جیسا روپ دھار لیتا ہے۔یہی صورت حال ہمارے معاشرے کا ناسور بن گئی ہے۔ہر کوئی چاہتا ہے ہمیں کچھ کرنا نہ پڑے بس کچھ یُوں اور کچھ یُوں ہو جائے۔ہر انسان کی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسکی زندگی مزے میں گزرے۔لیکن کچھ خامیاں جو کہ ہر انسان میں حتی المقدور پائی جاتی ہیں،جیسے:رشتےداروں سے تعلقات کو منقطع کرنا،دوسروں کا حق ہڑپ کرنا،غریبوں کی مدد نہ کرنا، حقیر کو کمتر سمجھنا اور امیروں کی عزت کرنا ان کو بہتر جاننا،ناحق قتل کرنا ،اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر انسانیت کے درس کو بھلا دینا وغیرہ،یہ سب کچھ یُوں اور کچھ یُوں کا مصداق ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ معاملات پیش نہ آئیں تو ہمیں زندگی کی تمام تر رعنائیوں کو بھولا کر ہمارا اسلام جس طرح ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے سیکھاتا ہے ان پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا ۔ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہو گی،غریبوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا،مظلوموں کی مدد کرنی ہوگی،صلح رحمی اور اخوت کو اپنانا ہوگا،لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہوگا ،انسانیت کے محسن حضرت محمدﷺ نے جو انسانیت پر درس دیا ہے اسکو یاد کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا،لوگوں کے ساتھ بھلائی والے کام کرنے ہونگے،جب ہم ان باتوں پر عمل پیرا ہونگے اور پھر معاشرے سے کچھ یُوں اور کچھ یُوں کا تصور ختم ہوتا ہوا نظر آئے گا۔اور بہت جلد ہی ہم ترقی کی بلندیوں پر گامزن ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں جو کہ ہماری خامیوں کی وجہ سے ناکامیوں کی طرف چھلانگ لگائے ہوئے ہیں،وہ تمام مسائل جلد از جلد کامرانیوں کی طرف گامزن ہونگے۔ہمیں ضرورت ہے تو سب سے پہلے خود کو بدلنے کی نہ کہ خواب غفلت میں خراٹے بھرنے کی ۔آئیں اور عہد کریں کہ ہم حتی المقدور خود کو بدلنے کی کوشش کریں گئے۔پھر دیکھیں ہمارا معاشرہ کس طرح خوش حال ہوتا ہے اور کیسے ہمارے گرد و نواح ترقی پذیر ہوتے ہیں،کس طرح لوگوں میں احساس کی روشنی پیدا ہوتی ہے وہ روشنی جس کو ظلمت کدوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔اور کس طرح ہمارے معاشرے سے کچھ یُوں اور کچھ یُوں کا تصور ختم ہوتا ہے ہر کوئی اپنا فرض شناس ہوگا اور خود کو چھوڑ کر دوسروں کے بارے میں سوچے گا۔
آئیں عہد کریں ہمیں خود کو بدلنا ہے
پاکستان کو بدلنا ہے
احقر
محمد ذیشان المجتبٰی فانی چشتی

Muhammad Zeeshan Fani Chishti
About the Author: Muhammad Zeeshan Fani Chishti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.