مذہب انسانیت ، مذہب یا فتنہ

تحریر: ام محمد عبداﷲ، جہانگیرہ
حضرت اْسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ مدینہ منورہ کے محلات میں سے ایک محل پر چڑھے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے پوچھا، ’’جو میں دیکھتا ہوں کیا تم دیکھتے ہو‘‘؟ صحابہ کرام نے عرض کیا، ’’نہیں‘‘۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’میں فتنوں کو تمھارے گھروں میں بارش کی طرح گرتا دیکھ رہا ہوں‘‘۔ (کتاب الفتن،بخاری)۔ عصر حاضر اس حدیث پر گواہ ہے۔

تمام بنی نوع انسان اور بالخصوص مسلم امہ کو جہاں اور بہت سے فتنوں کا سامنا ہے۔ وہیں مذہب انسانیت بھی اسی سلسلہ فتن کی ایک کڑی ہے۔ یہ نظامِ انسانیت فکر و عمل کا وہ مسلک ہے جس میں انسانی اور دنیاوی مفادات حاوی ہوتے ہیں۔ یہ مذہب بیزار نظام انسانیت کو بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے آزاد کروانے کے نعرے لگاتا ہے۔ اپنے تئیں واقعیت اور زمینی حقائق پر نگاہ جمائے اس کا محور و مرکز مادی وجود ہے۔ ترقی پسند اور سائنسی رجحانات کا فروغ اس کا منتہا و مقصود ہے۔ اس کے نزدیک روحانیت اور زندگی بعد از موت قابل توجہ موضوع نہیں۔

بظاہر انسانیت کا یہ نعرہ بہت پرکشش اور دلفریب معلوم ہوتا ہے لیکن اس نظام کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انسان کا وضع کردہ یہ فلسفہ سیکولر نظامِ زندگی کا تحفہ ہے۔ یہ اقوام عالم میں اس عقیدہ کی ترویج کے لیے سرگرم ہے کہ مذہبی اخلاقیات اور قوانین کا تعلق نہ حکومت سے ہے اور نہ ہی اجتماعی زندگی سے۔ اسی مذہب انسانیت کے تحت مغربی جمہوریت کا نظام رواں دواں ہے۔ جہاں اکثریت عقلِ کل کا درجہ رکھتے ہوئے اسمبلیوں کے ذریعے قانون سازی کرتی ہے کیونکہ مذہب انسانیت کے مطابق اس کائنات کا کوئی خالق نہیں کہ جس کے احکامات کے مطابق نظام زندگی کو منصفانہ طور پر بسر کیا جا سکے۔ دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کے قوانین اسی نظام انسانیت کی دین ہیں۔ ایک ایک قانون کو اٹھا کر دیکھتے جائیے ہر قانون کے پسِ پردہ ایک مخصوص طبقے کا اربوں ڈالر کا مفاد وابستہ نظر آتا ہے۔ مثلا ً شراب پینا جرم نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کا شراب کا کاروبار ہے بصورت دیگر شراب کی تباہ کاریوں سے اب کون واقف نہیں۔ یہ تو محض ایک مثال ہے ایسی کئی مثالیں اس نظام کے پرکشش نعرے کے خلاف کھڑی نظر آتی ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آخرت کے تصور کے بغیر انسانیت کی فلاح کا مکمل تصور تشکیل نہیں پا سکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کو انصاف و عدل کے لیے نہیں امتحان کے لیے تخلیق کیا ہے۔ یہ دنیا انسانیت کو عیش و عشرت یا آسائشیں اکھٹی کرنے کے لیے عطا نہیں کی گئی۔ یہ تو آزمائش کا گھر ہے یہاں ابدی سکون و خوشی کی تلاش عبث اور مایوسی کو جنم دینے والی ہے۔ ہاں مگر اس دنیا کو امن و آشتی اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بنانے کے لیے اﷲ تعالی نے کچھ قوانین بتا دیے تاکہ انسانی زندگی اچھی طرح رواں دواں ہو سکے۔ جہاں اخلاق کی تعلیم دی گئی وہیں جرائم پر سخت ترین سزاؤں کو بھی قانون کا حصہ بنایا گیا تاکہ معاشرہ صالح ہو۔ مکمل انصاف کے لیے اﷲ نے یوم آخرت مقرر کر رکھا ہے۔ آخرت کا یہی خوف کسی بھی معاشرے کو پْر امن رکھتا ہے۔ مذہب کا دوسرا بڑا تصور اجر ہے۔ یہ لوگوں میں نیکی اور انسانوں سے ہمدردی کو جنم دیتا ہے۔ آج دنیا کے مخیر حضرات کی زندگیوں کے حالات پڑھیں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی سب کے سب آپ کو انسانوں کی مدد کرتے اس لیے نظر آئیں گے کہ انہیں آخرت میں مکمل اجر کی اْمید اور توقع ہوتی ہے۔ گذشتہ صدی میں آدھی دنیا پر کیمونزم رائج رہا۔ اس نظام میں آ کے تصور کو انسانی زندگی سے خارج کر دیا گیا۔ پورے کے پورے معاشرے ملحد ہو گئے اور آج جب کہ وہاں سرمایہ داری نظام لوٹ آیا ہے۔ معاشرے میں سرمایہ دار بھی آگئے ہیں لیکن روس، چین اور شمالی کوریا وغیرہ میں انسانوں پر خرچ کرنے والے امراء کا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے کہ خیرات اور انسانی بھلائی کے پیچھے سب سے بڑا جذبہ آخرت میں اﷲ کی خوشنودی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب انسانیت وجود باری تعالی اور آخرت کا منکر ہو کر بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی قدم اٹھانے کے قابل نہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک کامل و اکمل دین کے وارث ہیں۔ ہمارا دین صرف مظلوم ہی کی نہیں ظالم کی مدد کرنے پربھی یقین رکھتا ہے۔ یہ بنی نوع انسان ہی کی نہیں پودوں اور جانوروں کے حقوق پر بھی آواز اٹھاتا ہے۔ یہ بے جان اشیاء پربھی ظلم کرنے والے کو فاسق قرار دیتا ہے۔ ایسے پیارے دین کا مضبوط سائبان چھوڑ کر ہم کیونکر ایک کھوکھلے اور مانند عنکبوت کمزور نظام سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے دجل و فریب میں پھنس کر اپنے ایمان جیسے قیمتی سرمائے کو داؤ پر لگا سکتے ہیں؟

اﷲ تعالی ہمیں اسلام کا صحیح فہم، اس پر مکمل عمل کی توفیق اور اس کی تبلیغ کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ اﷲ تعالی ہمیں اور قیامت تک آنے والی ہماری آئندہ نسلوں کو دور حاضر کے ہر فتنے بشمول فتنہ مذہب انسانیت سے اپنی امان میں رکھے۔ آمین

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.