اب کی بار غیر محفوظ عزت مرد کی ہے‎

تربیت گہرا اثر رکھتی ہے،میرے والد مرحوم نہایت دیندار آدمی تھے، میں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر ان کی وفات تک انہیں صوم و صلوٰۃ کا پابند پایا، ہمیشہ قرآن پاک کی تلاوت اور تہجد، چاشت و اشراک میں محو دیکھا۔ مریدین کی آمد و رفت ہمارے گھر میں روزمرہ کا معمول تھا۔ لوگ آتے ، دعا لیتے اور چلے جاتے۔
اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود میرے والد کا زیادہ لاڈ پیار میری بہنوں کے لیے تھا، البتہ میری والدہ میرے نخرے اٹھاتے نہیں تھکتی تھیں۔

بچپن سے ہی ذہن میں ایک بات بٹھا دی گئی تھی کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا کمزوری ہے، عورت مظلوم ہے، عورت کا استحصال کیا جاتا ہے، عورت کو اس کا حق نہیں ملتا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب باتوں پر ایمان لاتے ہوئے میں بچپن سے جوانی کی طرف آیا۔ حقوق نسواں کا استحصال اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ذہن میں یہ بات پکی ہو گئی کہ واقعی یہ معاشرہ مرد کا ہے۔پھر اس کے بعد آنکھیں مزید کھولنے پرزندگی نے جہاں بہت کچھ سکھایا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مظلوم مرد بھی ہو سکتا ہے، استحصال عورت کی طرف سےمرد کا بھی ہوتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ بات مرد عورت کی نہیں ہے، اچھا اور برا یا صحیح اور غلط دونوں میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

عورت کہیں کمزور ہے تو کہیں اتنی طاقتور ہے کہ ملک کی وزیراعظم بن جاتی ہے۔ کہیں عورت کی عزت اجاڑی جاتی ہے تو کہیں یہ عورت کتنی ہی عزتوں کا جنازہ نکال دیتی ہے۔

دوسری شادی کا سنتے ہی ایک برا آدمی ذہن میں ابھرتا ہے، جس نے پہلی بیوی پر ظلم کیا، لیکن یہ کبھی نہیں سوچا جاتا کہ دراصل دوسری عورت نے پہلی عورت پر ظلم کیا۔

میرا آنکھوں دیکھا احوال ہے کہ ایک خاتون نے اپنے شوھر سے زبردستی طلاق لینے کے لیے سڑک پر اس کی عزت اچھالنا شروع کی، اس کو ڈرایا دھمکایا اور اس مرد نے نا چاہتے ہوئے بھی ڈر کے مارے طلاق دے دی، بعد ازاں فتوے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا رہا کہ ان حالات میں یہ طلاق نہیں ہوئی۔

ایک اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک خاتون نے خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے لڑکے کی بہنوں اور رشتہ داروں سے رابطے کیے اور اپنی مظلومیت کا یقین دلانے کی کوشش میں اس لڑکے کو اس کی بہنوں اور رشتے داروں کے سامنے اتنا گندا کردیا کہ سچا ثابت ہو کر بھی اب وہ کسی سے آنکھیں نہیں ملا سکتا۔ پھر جب اسی لڑکے نے اپنے سچ کو لڑکی کے گھر والوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کی تو لڑکی سمیت کئی لوگوں نے اس کو ظلم کہا اور لڑکے سے کہا کہ وہ لڑکی کے گھر والوں سے ایسی کوئی بات نا کرے کیونکہ لڑکی کی عزت کا معاملہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عزت صرف عورت ہی کی ہوتی ہے، مرد کو یہ عزت کیا بلکل نہیں چاہئیے؟

میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری تحریر کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے گی، میرے بیان کیے واقعات کے سیاق و سباق کہانی اور فسانہ تصور کیےجائیں گے، تو عرض یہ ہے کہ سیاق و سباق سمیت لمبی بحث ممکن ہے لیکن یہاں مختصراً مجھے اپنا نکتہ نظر دینا ہے اس لیے سوال اٹھنے پر جواب ممکن ہیں۔

میں خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ روا رکھی گئی نا انصافیوں پر بھی مختلف فورمز پر بولتا رہا ہوں، لیکن اب معاملہ صنف نازک کی عزت کا نہیں رہا، اب کی بار غیر محفوظ عزت مرد کی ہے۔
سید عارف علی شاہ

Arifeen Syed
About the Author: Arifeen Syed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.