تحریر: عظمیٰ ظفر
میرے سامنے ایک خوبصورت تصویر تھی جس میں پانچ مختلف رنگوں کے سیب ایک
جھیل کنارے رکھے تھے۔ وہ کشمیری سیب تھے ان سیبوں کو دیکھ کر میں اپنے
ماضی میں چلا گیا۔ جب نا موافق حالات سے لڑنے کی ٹھانی اور خود کو
منوانا چاہا، جب معمولی سی انا کو ضرب لگی تو گھر والوں کو بنا بتائے
نکل پڑا اور ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ ٹرین میں سوار ہوا اور نکل پڑا
انجان منزلوں کی جانب۔ ٹرین کرنال، پانی پت، جالندھر اور لدھیانہ سے
ہوتی ہوئی اپنے آخری اسٹیشن پٹھان کوٹ پر رک گئی۔ یہ پنجاب کی سرزمین
تھی۔ میری بے چینی مجھے اور دور لے جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں نے
سری نگر جانے کا فیصلہ کیا ہاتھ میں تو ایک دھیلہ بھی نہیں تھا، لکڑیوں
کے کارخانہ میں مزدوری کی جب کچھ رقم ہاتھ آئی تو ان ٹرک ڈرائیور سے
بات کی جو اپنا مال لے کر سری نگر جاتے تھے اور پھلوں کی پیٹیوں کشمیر
سے پنجاب لاتے تھے۔ ٹرک جب لوڈ ہوا تو سامان پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ پٹھان
کوٹ سے روانہ ہوئے اور سفر طے کرتے ہوئے ’’جموں‘‘ پہنچ گئے۔
جموں تک کا راستہ پنجاب کی طرح ہے ہر طرف کھیت سبزہ ہریالی تھی چھوٹی
چھوٹی آبادیاں جو دریاے ’’توی‘‘ کے کنارے آباد ہیں۔ یہاں ہندو اور سکھ
کافی زیادہ تعداد میں آباد ہیں لیکن غالب آبادی مسلمانوں کی ہے اور
تقریباً وہی ثقافت نظر آتی ہے جو پاکستان میں سیالکوٹ کی ہے۔ آگے جاکر
پہاڑی سلسلے شروع ہوگئے ’’بانہال‘‘ کے مقام پر ایک بہت اونچے پہاڑ میں
ایک سرنگ بنائی گئی ہے جو تقریباً 2 سے3 کلومیٹر لمبی ہے۔ اس کا نام
’’جواہر ٹنل‘‘ ہے۔ اس سرنگ سے گزر کر ہم اصل کشمیر کی وادی میں داخل ہو
گئے ’’رام بن، رام سر، پونچھ، اننت ناگ‘‘ (اب اس جگہ کو اسلام آباد کے
نام سے بھی جانا جاتا ہے) سے گزر کر ہم دوسرے دن سری نگر میں داخل
ہوگئے اور جیسے اچانک ہر چیز بدل گئی لباس، آب و ہوا، زبان، نظارے سب
ہی نئے تھے اور بہت دلفریب تھے۔ ٹرک والے نے مجھے ایک ٹیکسی اسٹینڈ کے
پاس اتار دیا۔ پہلے سر چھپانے کا بندوبست کیا پھر یہاں ایک ٹیکسی
ڈرائیور سے دوستی ہوگئی کچھ دن وہیں وقت گزارا محنت مزدوری کی اور وہیں
کی بود باش اختیار کی۔ ہم ’’فرغل‘‘ پہنے ’’کانگڑی‘‘ ہاتھوں میں دبائے
سردی کی راتوں میں راستے ناپتے تو کبھی رات کو الاو کے گرد بیٹھ کر آگ
تاپتے اور باتیں کرتے۔ وہ اکثر ڈاکٹر معصوم راہی کی غزل اپنی سوز بھری
آواز میں سناتا،
اجنبی شہر کے اجنبی راستے
میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا
تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
اور آج بھی جب یہ غزل مجھے یاد آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ میں کشمیر کی
انہی وادیوں میں پہنچ گیا ہوں جہاں زعفران کے پھول کھلتے ہیں۔ ان کی
خوبصورتی تمام پھولوں سے جدا ہوتی ہے یا کبھی مجھے لگتا ہے جیسے چناروں
میں آگ لگ گئی ہو۔ جب چنار کے پتے خزاں میں ایک ایک کرکے سرخ ہو جاتے
ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے چناروں میں آگ لگ گئی ہو اور میرا وجود بھی
آتش چنار بن جاتا ہے۔ جس میں پرانی یادیں آہستہ آہستہ سلگتی ہیں چٹختی
ہیں اور جل جاتی ہیں۔
یہاں رہ کر کشمیریوں کے طور طریقے بہت قریب سے دیکھنے کو ملے، یہاں
چاول بہت شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ غریب لوگ ’’کڑم‘‘ کا ساگ پنیر کے ساتھ
ابلے ہوئے چاولوں میں ملا کر کھاتے ہیں۔ یہاں عام زبان میں بھی کھانا
کھانے کو ’’بھات‘‘ کھانا کہتے ہیں۔ جیسے پنجاب میں روٹی کھانا کہتے ہیں۔
کنول کے پھول کی ڈنڈیوں کا سالن بھی بنایا جاتا ہے ’’کاٹیج چیز‘‘ اور
’’کڑم کا ساگ‘‘ جو پہاڑوں پر اگتا ہے مقامی لوگ وہ بھی شوق سے کھاتے
ہیں۔ یہاں آکر میں نے بہت سارے مقامات دیکھے میرے قدموں نے ’’لیہ‘‘ شہر
کو بھی چھوا جو دنیا کا سب سے اونچا شہر کہلاتا ہے۔ اس اونچائی والے
شہر میں آبادی بہت کم ہے اونچائی پر پہچنے کا مزا الگ ہی ہوتا ہے۔
کشمیر واقعی جنت نظیر ہے پہاڑوں سے گھری سرسبز وادی لوگوں کو خود بخود
اہنی طرف کھینچ لیتی ہے اس وادی کو ’’دریائے جہلم‘‘ سیراب کرتا ہے جو
کشمیر کی سب سے بڑی جھیل ’’ولر جھیل‘‘ سے نکلتا ہے۔ راستوں کو کاٹتا
جھومتا بل کھاتا کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔ یہ سن1966،1967 کی بات ہے
جن دنوں میں غلام محمد ڈگ صاحب کے ہوٹل میں ایک چھوٹے مینیجر کی حیثیت
اختیار کر چکا تھا اور اپنے قدم زمین پر جما چکا تھا ان دنوں کشمیر میں
برف باری اپنے عروج پر تھی۔ پورے کشمیر کو برف نے اپنی آغوش میں لے
رکھا تھا۔ سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ رکا ہوا تھا مگر جب موسم عروج پر
ہوتا اور ٹولے کے ٹولے سیاحت کے لیے آتے تو اکثر مجھے ان کا گائیڈ بنا
کر روانہ کردیا جاتا اور میں ان لوگوں معلومات بہم پہنچاتا۔ سیاح شکارا
بک کرواتے اور ’’ڈل جھیل‘‘ کی سیر کو نکل جاتے۔ ڈل جھیل دور سے دیکھنے
پر قدرت کا ایک حسین شاہکار معلوم ہوتی ھے ایسا لگتا تھا جیسے کسی
حسینہ کے ہاتھوں کے پیالے میں پانی کو قید کردیا گیا ہو اور جب پھولوں
سے ڈھکی اور مہکتی ہوئی چھوٹی سی کشتی جسے مقامی زبان میں ’’شکارا‘‘
کہتے ہیں اس کی سطح پر ہولے ہولے تیرنے لگتی تو وہ منظر بے حد حسین ہو
جاتا تھا۔ سری نگر کو ’’سات پلوں‘‘ والا شہر بھی کہا جاتا ہے، مغلوں کی
بنائی گئی شاہکار عمارتوں نے بھی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے
ہیں۔ اکبر بادشاہ نے اپنی بیگم کے نام سے ’’نسیم باغ‘‘ بھی بنوایا، شاہ
جہاں بادشاہ نے ’’شالیمار باغ‘‘ اور ’’لالہ زار باغ‘‘ بنوائے۔
میں نے بڑوں سے اکثر یہ محاورہ سنا تھا کہ ’’اتنا ہنس رہے ہو کیا
زعفران کا کھیت دیکھ لیا ہے‘‘؟ اور جس دن میں نے ’’پامپور‘‘ میں موجود
تاحد نگاہ پھیلے ہوئے زعفران کے کھیت دیکھے جو سچ مچ اپنی بہار دکھا
رہے تھے تو میرے لب خودبخود مسکرانے لگے۔ زعفران کے پھول رات میں کھلتے
ہیں رات کی پھیلی چاندنی میں ان پھولوں کی خوشبو ایسی ہوتی ہے کہ انسان
سب کچھ بھول جاتا ہے اور مسکرانے لگتا ہے۔ میں بھی ’’چھندوڑا‘‘ کا مشکل
وقت بھول گیا اور مسکرانے لگا۔
اس جنت نظیر وادی کو دیکھ کر مغل بادشاہ جہاں گیر نے جو شعر کہا وہ
زبان زد عام ہوا اور امر ہوگیا،
گر فردوس بروئے زمین است
ہمی است، ہمی است، ہمی است |