دنیا بھر میں کھیلنے جانے والے مختلف کھیلوں میں سے ایک
پرانا کھیل والی بال بھی ہے. والی بال دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ
کھیلا جانے والا کھیل ہے.
1895 کی سردیوں میں امریکی ریاست "میساچسٹس" میں واقع عیسائی نوجوانوں کی
مشینری ایسوسی ایشن Young Men's Christian Association (YMCA) کے ڈائریکٹر
ایجوکیشن ولیم جی مورگن نے ادارے کے نسبتاً بڑی عمر کی اسٹوڈنٹس کے لیے
منٹونیٹس (Mintonette) نامی ایک کھیل تخلیق کیا. ابتدائی طور پر یہ ان ڈور
گیم تھا بعد ازاں یہ آؤٹ ڈور گیم کی شکل اختیار کر گیا.
والی بال کا پہلا نمائشی میچ 7؍جولائی
1896میںاسپرنگفیلڈکالجامریکامیںکھیلاگیا۔اسیمیچکےدورانایکمبصر Alfred
Halstead نے کھیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کھلاڑی نیٹ کے اوپر سے ایک
دوسرے کے پیچھے اور سامنے پھینکنے کے لیے’’والی انگ‘‘ کر رہے ہیں۔ ولیم
مورگن کو یہ لفظ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کھیل کا نام منٹونیٹ سے
تبدیل کر کے ’’والی بال‘‘ رکھ دیا۔ والی بال کی پہلی آفیشل گیند 1896 میں
اسپالڈنگ نامی کمپنی نے بنائی. 1900 میں امریکا کے بعد کینیڈا پہلا ملک تھا
جس میں والی بال کھیلا گیا تاہم پھر بھی اس کھیل کو کوئی خاص قابلِ ذکر
پذیرائی نہیں ملی.
پھر 1919 میں امریکی مہم جو فورسز نے دنیا بھر میں تعینات اپنے سپاہیوں میں
تقریباً 16000 والی بالز تقسیم کیے جس سے مختلف ممالک میں والی بال کے کھیل
کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی. 1924میں پیرس اولمپکس کے موقع پر پہلی مرتبہ
والی بال کے کھیل کو بھی ایک ’’غیر سرکاری‘‘ کھیل کے طور پر شامل کیا گیا۔
1928میں امریکا میں والی بال کی پہلی ٹیم بنائی گئی اور اسی سال امریکا میں
پہلی قومی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا۔
1947میں فیڈریشن آف انٹرنیشنل والی بال (FIVB) قائم کی گئی. اسی فیڈریشن
نے مردوں کی والی بال ٹیم کیلئے قواعدوضوابط طے کئے جس کے بعد اس کھیل کے
عالمی چیمپئن شپ مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔ 1949 میں پہلی مرتبہ مردوں کے
عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا بعد ازاں 1952 میں خواتین کے ورلڈ
چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا.
1964میں والی بال کی ٹیموں نے اولمپک مقابلوں میں سرکاری طور پر شرکت کی۔
والی بال اولمپک کا واحد کھیل ہے جس کے کھلاڑیوں کو زیادہ پیراہن پہننے کی
ممانعت ہے. یوں اب 124 سالہ پرانا یہ کھیل امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، فرانس
اٹلی، چین، بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خاصا مقبول کھیل بن چکا ہے.
پاکستان میں والی بال کے کھیل کا آغاز 1954سے ہوا۔ 1955میں پاکستان والی
بال فیڈریشن قائم کی گئی جس کے بعد اس کے قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد
ہونے لگا، اسی سال پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور عالمی والی بال فیڈریشن
نے پاکستان والی بال فیڈریشن کی تنظیم کی سرکاری طور سےمنظوری دی۔ پچاس
اورساٹھ کی دہائی کے دوران پاکستان کی والی بال ٹیم کو ایشیائی ممالک میں
بلند مقام حاصل تھا۔ 1955سے 1958تک پاکستان میں والی بال کے مقامی سطح کے
ہی ٹورنامنٹ کرائے گئے جن میں نئے کھلاڑیوں نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ
حصّہ لیا۔ 1958میں پاکستان کی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا جہاں اس نے حریف
ٹیم کو پانچ میچوں کی سیریز میں شکست فاش سے دوچار کرکے ایشین چیمپئن شپ کا
اعزاز حاصل کیا. ان مختصر کامیابیوں کے بعد قومی والی بال ٹیم سرکاری
سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے روبۂ زوال ہونا شروع ہوئی اور تمغوں کی دوڑ میں
کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی.
پاکستان میں اب اس کھیل کو ملک بھر کے مختلف علاقائی سپورٹس کمیٹیوں نے
فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا ہے.
انہی فعال کمیٹیوں میں سے ایک "سپورٹس کمیٹی کلی سرخانزئ" بھی ہے جو ہر سال
والی بال کے مختلف ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتی ہیں جس سے نہ صرف اس کھیل کو
فروغ کو ملتا ہے بلکہ بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی
بھی ایک دوسرے سے متعارف ہوجاتے ہیں. گزشتہ اتوار 25 نومبر کو حاجی ناصر
خان ترین اور ان کے برادران کی سرپرستی میں "آل بلوچستان سی ڈی 70 والی بال
ٹورنامنٹ" کا انعقاد کیا. جس میں صوبہ بھر کی مختلف ٹیموں نے حصہ لیا.
"ملکیار" اور "شرنہ" (مسلم باغ) والی بال ٹیم نے فائنل تک رسائی حاصل کی،
فائنل کے سنسنی خیز مقابلے میں "شرنہ" کی ٹیم نے میچ میں فتح حاصل کر کے نہ
صرف 70 موٹر سائیکل حاصل بلکہ صوبہ بلوچستان کے چیمپئن بننے کا اعزاز بھی
حاصل کرلیا.
ٹورنامنٹ کے مہمان خصوصی حاجی شراف الدین خان ترین (زونل چیف ZTBL برائے
ڈیرہ مراد جمالی) اور معروف سیاسی و سماجی شخصیت عبد الباری ترین تھے،
جنہوں نے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے اور شرکاء سے خطاب بھی کیا |