اب خزاں کو نہ دے کوٸی الزام
جل رہا ہے بہار میں میں گلشن
لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر
علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ
کریں گے۔
(صحیح بخاری ، ۱۰۰)
حضرت علی رضی اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن
ظلم کا نظام نہیں چل سکتا.
قتل گاہوں میں رعایت نہیں برتی جاتی
کوئی اکبر ہے کہ اصغر ، نہیں دیکها جاتا
انسان کی زندگی کا بہترین حصہ اس کی محبت اور رحمدلی سے کئے گئے معمولی اور
گمنام اعمال ہیں۔ جو وہ ان لوگوں کے لئے کرتا ہے جن سے اس کا کوئی رشتہ
نہیں ہوتا۔اہل علم ؤ وطن اب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب, وزیر
اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار صاحب یا آئ جی جناب امجد سلیمی صاحب پہ غصہ
نکال رہے ہیں انکے غصہ نکالنے سے کیا حاصل؟
مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ اللہ کا واسطہ اب پولیس میں تمام تقرر میرٹ پہ
کریں,انکی تمام تر تربیت فوجی سطح کی ھو اور سیاسی مداخلت کو رد کرو کیونکہ
اسی مداخلت نے پولیس کو برباد کیا ہے اس مداخلت سے کس طرح باہر آنا ھے یہ
قدم اٹھاو.یہ آواز بلند کرنے کا وقت ھے.
تو رہے گا نہ تیرے ظلم رہیں گے
دن تو آنا ہے کسی روز حسابوں والا
ساہیوال کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم
ھے لیکن سوال یہ ھے کہ کیا پنجاب پولیس قاتلوں اور ڈکیتوں کا گینگ ہے ایسی
کہانیاں کب تک سنتے رہے گۓ ؟
عمران خان صاحب کی حکومت کو 5ماہ کا عرصہ گزر گیا ھے اور اس کے باوجود
پنجاب پولیس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی انکی حکومت جو کہ پہلی ترجیح ہونا
چاھیے تھی؟
غضب تھا آج گلستان میں یہ حسرت خیز نظارہ
ادھر بُلبُل کا دم ٹوٹا ، اُدھر فصل بہار آئی
ہم اور ہمارا معاشرہ بے شرم لوگوں پر مشتمل ھوتا جا رہا ھے لہذا آج اس پے
لکھیں گے,غصہ اتار لیں گۓ اور کل بھول جائیں گے ان بچوں کی زندگی برباد اور
نا جانے ہزاروں بچوں کی زندگی برباد ہو رہی انکو اگر سزا بھی مل۔ گئی تو
موت سے واپسی ممکن نہیں ہوتی لیکن ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺷﺐ ﺍﻟﻢ ﮐﯽ ﺳﺤﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ
کیونکہ اللّه پاک فرماتا ﮨﮯ
ﻓَﺈِﻥَّ ﻣَﻊَ ﺍﻟْﻌُﺴْﺮِ ﻳُﺴْﺮًﺍ
ﺑﮯ ﺷﮏ ﮨﺮ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺣﯿﻮﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﯿﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﻧﮕﮩﺒﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﮈﻧﮑﮯ ﮐﯽ ﭼﻮﭦ ﭘﮧ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺑﺮﺍ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻮﻟﯽ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺯﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﻥ ﺭﯾﺰﯼ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ،ﺧﺪﺍ ﺧﯿﺮ ﮐﺮﮮ
ﺍﺏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
اس کے چہرے پہ داڑھی تھی ؟ وہ شریف النفس اور نمازی آدمی تھا ؟ یا پھر وہ
"مولوی" تھا اور اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے اسکے دہشت گرد ہونے کا؟
اگر مان بھی لیا جائے کہ کار میں دہشتگرد بھی سوار تھے تب بھی پولیس کا
کار پر فائرنگ کرنا بنتا نہیں تھا، کیا پولیس والے اتنے اندھے تھے کہ کار
میں بچوں کو بھی نہیں دیکھ سکے؟
ڈرون حملوں پر بھی تو آپ کا یہی اعتراض تھا کہ اس میں سویلین بھی مارے جاتے
ہیں.حکومت بدل گئ،ویژن بدل گیا مگر عوام کے نصیب میں ذلالت ہی لکھی ہے
قانون اور نظام پر دسترس نہ ہو اور نہ نظام عوامی بہبود کیلیئے بنا ہو وہاں
دن دیہاڈے نہتے لوگوں پر گولیاں برستی ہیں.زینب کے قاتل سے لیکر نقیب اللہ
محسود، شاہ زیب کسی کو بھی تو انصاف نہیں ملا.
مجھے یہاں بات یہ سمجھ آتی ھے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں بے ضمیر , بغیر
اعلی تربیت کے یہ فورسز جب بھی کسی بے گناہ کو قتل کرنا چاہتی ہیں اسے دہشت
گرد ڈکلئیر کر کے مار دیتی ہیں؟
مجھے یہاں صرف ایک حل نظر آتا ہے کہ ساہیوال واقع کے ملزموں کو سزاۓ موت دی
جاۓ تاکہ پورے پاکستان کو یقین آجاۓ کہ مدینے کی ریاست بن رہی ہے کیونکہ
جس ریاست مدینہ کا تذکرہ حکمران روز کرتے ہیں اس ریاست کے سردار آقا صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے تو جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں پر رحم کا اصول دیا
تھا۔ یہ کونسی منظر کشی ہو رہی ہے۔
میں ”ریاستِ مدینہ“ پر طنز نہیں کرتا تاکہ اگر کوٸی نیت کر ہی بیٹھا ہے
تو میں حوصلہ افزائی کا باعث بنوں ناکہ طنز کا.
یہ بھی درست ھے کہ ریاستِ مدینہ پانچ ماہ میں نہیں بنی تھی؟تاریخ پڑھیں تو
معلوم ھوتا اس قوم کو تربیت دینے میں کتنے سال لگے تھے۔لیکن ہر قدم, ہر
فیصلہ, ہر اقدام بہتری کی نوید تھا.
دیکھو ظُلمت اِنتہاہ کو آہ پُنہچی
محمد بِن قاسِم اب تُم بھی آہ جاو
بڑا ظلم کیا پنجاب پولیس نے خان صاحب ان کو نشان عبرت بنا کر پیش کر ے اور
امید لگی عوام کو کہ تبدیلی کا وعدہ ٘پورا کریں گے
تاکہ پولیس جسے ناکے پر دیکھ کر تحفظ سے زیادہ لٹنے کا خوف ہوتا ہے وہ ختم
ہو جاۓ اور ریاستی دہشت گردوں نے محافظوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جس کو
چاہیں جب چاہیں موت کے گھاٹ اتار دیں ان کرداروں کو بے نقاب کریں.
بات یہ ہے کہ لوگ بدل گئے ہیں
ظلم یہ ہے کہ وہ مانتے بھی نہیں
|