ساٹھ دن میں قرآن حفظ؟

فوج کو شکست دی جاسکتی ہے ، عوام کو نہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو چار سال سے قید رکھ کر بھی اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔ غزہ ، دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل ، کے کسی بھی قیدی نے اپنا قافلہ نہیں بدلا؟ اسرائیل مطمئن ہے کہ غزہ کا دنیا سے رابطہ کاٹ دیا گیا۔ اب یہاں کی دن دبدن بنجر ہوتی زمین سے کوئی جہادی نہیں اٹھے گا، کوئی دن جاتا ہے کہ اس کے باسی حماس کی قیادت کو پابہ زنجیر کر کے پیش کردیں گے، لیکن چا ر سال بعد بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

کیا کبھی ایسا دیکھا یا سنا کہ ماں ، باپ ، دوبیٹے اور ایک بیٹی پر مشتمل خاندان ہو ۔ سب کے سب گرمیوں کی چھٹیوں کو قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے وقف کردیں۔ پھر یہی نہیں صر ف ساٹھ دن میں سارا خاندان قرآن حفظ بھی کر لے۔ ایک دنیا سمجھتی ہے کہ غزہ آرزﺅں اور امیدوں کی قتل گاہ ہے لیکن اس مقبوضہ سرزمین کے باشندوں نے آزاد فضاﺅں میں سانس لیتے ڈیڑھ ارب انسانوں کو شرما دیا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی غزہ پر نئی پابندیوں کا اعلان ہوتا ہے،جوں ہی اسکولوں یا حکومتی اداروں میں چھٹیاں ہوتی ہیں ، سینکڑوں فلسطینی گھروں سے نکلتے ہیں اور ”جمعیة دارالقرآن“ میں داخلہ لیتے ہیں۔ اسرائیلی ٹینک کے مقابلے میں کنکر لے کر میدان میں اترنے والوں پر اللہ کی رحمت دیکھیے کہ انہیں قرآن پاک یاد کرنے میں دو مہینے سے زیادہ عرصہ نہیں لگتا۔

قرآن یاد کرنے کی اس تحریک کا آغاز چار سال پہلے سے ہوا۔ ابتدا میں لوگ انفرادی طور پر مساجد میں جاکر قرآن یاد کیا کرتے تھے۔ 60دن میں قرآن یاد کرنا معمول بن گیا۔ 2007میں غزہ کا محاصر ہ ہوا اور اسی سال سے 60دن میں قرآن پاک یاد کرنے کی تحریک شروع ہوا۔ پہلے سال صرف 400افراد قرآن یاد کرسکے۔ اگلے سال موسم گرما کی چھٹیوں میں دوبارہ تحریک شروع ہوئی اور اس سال قرآن پاک یاد کرنے والوں کی تعداد 3000تک پہنچ گئی۔ اس سے اگلے سال تو چھٹیاں ہوتے ہی قرآن پاک یاد کرنے کے مراکز پر ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ اس سال حماس نے حفظ قرآن کی تقریب منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا۔اندازہ کیجیے کہ 2009میں پہلی تقریب حفظ قرآن کے مو قع پر 16ہزار نئے حفاظ کو اسنا د دی گئیں۔انہوں نے صر ف دو ماہ میں قرآن حفظ کیا تھا۔ اگلے سال 2010میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ”جمعیة دارالقرآن“ کے تمام مکاتب بھر گئے۔ اس سال چھ ماہ میں قرآن حفظ کرنے والوں کی تعداد 24ہزار تک جاپہنچی۔طلبہ میں سے اکثر کی عمریں 14سے 17سال کے درمیان تھیں۔ تقسیم اسناد کی تقریب میں حماس کی ساری اعلیٰ قیادت پہنچی۔ حماس نے اس تقریب کا نام ”تاج الوقار....للاقصیٰ انتصار“ رکھا۔

ادھر سعودی عرب میں حدیث کے عاشقوں نے نئی طرح ڈالی ہے۔ شیخ یحییٰ بن عبدالعزیز پچھلے بیس سالوں سے احادیث یاد کرا رہے ہیں۔ صرف چالیس دنوں میں بخاری و مسلم کی تمام حدیثیں یاد کروا رہے ہیں۔

کوئی ہے جو دنیا بھر میں اس کی مثال دکھا سکے۔ ہمارے ہاں تو کوئی ایک آدمی بھی 60دنوں میں قرآن حفظ کرلیتا تو آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا۔ اگلے ساٹھ دن تک اسی کے حافظے کے گن گاتے نہ تھکتے۔ جس خاندان کا چشم و چراغ ہوتا اس کے دیگر رشتہ دار اپنی بخشش سے بے غم ہوجاتے۔ لیکن غزہ میں عجب منظر ہے ، اس سال بیٹے نے اعزاز حاصل کیا تو اگلے سال والد مدرسہ میں داخلہ لیتا ہے۔ ایسے گھرانے اب گلی گلی میں ہیں جہاں سارا خاندان ہی قرآن حفظ کیے ہوئے ہے۔

غزہ کے لوگوں کی محرومیوں کا اندازہ لگائیے اور پھر اہل پاکستان کی تعیّشات پر نظر کیجیے۔ یہاں کے لوگ قرآن ، کتاب اور مطالعے سے کوسوں دور۔ محلوں کے محلے پھر جائیے صبح کو اٹھ کر تلاوت کرنے والے ناپید ہیں۔ اس شہر خرابات کی بربادی میں کسی اور کا نہیں اس کے اپنے باشندوں کا ہاتھ ہے۔ اسماعیل ہانیہ نے کہا تھا کہ قرآن سے ہمارا ملک آباد اور ہمارے دل شاد رہیں گے۔ اہلیان پاکستان کا وطن دن بدن برباد اور دل ناشاد ہیں۔

کیا اس کے لیے بھی کسی تنظیم کی ضرورت ہے۔ کیا حکومتی سرپرستی اور مالی امداد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں کچھ تو کیجیے۔ دن رات امت کی بربادی کا رونا رونے والے کہاں ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو درد و الم سے کلپتے ہیں مگر تسکین کا کوئی سامان نہیں پاتے۔ افراد نہیں بدلے تو معاشرے میں کیا خاک تبدیلی آئے گی۔ ایک بار آغاز تو کر دیکھیے ۔ عالم اسلام میں کوئی ماں کند ذہن بچہ نہیں جنتی۔ وہ بچے جن کو گھر والے ”کند ذہن ، بددماغ“ کا سرٹیفکیٹ دے چکے ہوں، ان نوجوانوں کو کرکٹروں کے نسب نامے تک حفظ ہوتے ہیں۔ فلموں اور ڈراموں کی بات چھیڑ دیجیے اور گھنٹوں حافظے کے کرشمے دیکھیے۔ فرق ہے ہر بچے کا دماغ اور رجحان سمجھنے کی۔ اور قرآن و حدیث تو دماغ کے بند دریچوں کو کھول دیتے ہیں۔ یاد رکھیے اماں اسی کو ملے گی جو قرآن و حدیث کو دل میں بسائے گا۔

ہاں! آخر میں مغربی کنارے سے قرآن یاد کرنے کے لیے آنے والی 13بچیوں کا ذکر۔ ان میں سے سب سے چھوٹی، ننھی منی آٹھ سالہ بچی جب حفظ قرآن کی سند لینے کے لیے اسٹیج پر آئی تو پنڈال میں موجود ہر شخص نے اشکوں سے اسے سلامی دی۔

” 60دن میں قرآن کیسے حفظ ہوگا؟؟؟ یہاں تو دن بھر رٹا لگا کر سبق یاد نہیں کر پاتے کہ نسیان کے جھکڑ بگولے لمحوں میں حافظے کی سرزمین تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔ غزہ کے باسیوں کے حافظے ہم ایسے نہیں یا 60دن کی بات ........“۔ میرے بہت سے دوست اس طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں تو میں انہیں جواب میں مصر کے گیارہ سالہ شریف مصطفیٰ کی کہانی سناتا ہوں۔ اس کے والد قاہرہ میں ایک عام سے پرچون فروش ہیں۔ اس بچے نے اکیسویں صدی کی مادہ پرست دنیا کے ایک تباہ حال شہر میں اپنی دماغی صلاحیتوں سے ایک جہان کو حیران کیا ہوا ہے۔ شریف مصطفیٰ نے تین ماہ میں قرآن مجید یاد کرلیا۔ اس کے اگلے 6ماہ میں اس نے قرات عشر حفظ کرلیں۔ قرآن یاد کرلینے کے بعد حدیث کا شوق پیدا ہوا تو صرف چالیس دنوں میں بخاری ومسلم شریف کی صحیح احادیث یاد کرلیں۔ اس وقت اس کی عمر صرف 11سال ہے اور اسے قرآن ، قرات عشر ، 11ہزار احادیث اور کئی متون حفظ ہیں۔

قارئین شاید سوچیں کہ عربوں کی بات اور ہے ان کی مادری زبان عربی ہے، وہ ایک ایک لفظ کا معنی سمجھتے ہیں ، اسی لیے وہ دل کا پیالہ صاف شفاف کر کے رب کائنات کے سامنے رکھتے ہیں اور چھم چھم برستی رحمت سے دل و دماغ کو سیراب کرلیتے ہیں۔

اس پر میں آپ کو بنگلہ دیش کی کہانی سناتا ہوں۔ آج سے پانچ سال قبل مولانا شہید الاسلام پاکستان آئے۔ وہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاﺅن کے فارغ التحصیل اور بنگلہ دیش کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ شاید بہت سے قارئین کے لیے حیرت کی بات ہو کہ انہیں ”بنگلہ دیش کا ایدھی “ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پورے ملک میں اعلان کر رکھا ہے کہ جو شخص بھی سند اور مخرج سمیت ایک ہزار احادیث یاد کر لے گا ہم اسے فوری طور پر عمرہ کا ٹکٹ دیں گے۔ اس اعلان کے بعد پہلے سال ہی تین افراد عمرہ پر جانے کے لیے تیار تھے۔ احادیث پڑھنے پڑھانے والے جانتے ہیں کہ متن حدیث یاد کر لینا تو بہت آسان ہے مگر راویوں کے نام یاد کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہمت و جذبہ سے سرشار نوجوانوں کے لیے یہ کوہ گراں سر کرنا بھی کوئی مشکل نہیں۔ گویا حوصلہ افزائی ہوتو کوئی کام بھی ناممکن نہیں۔

اب آپ کو ایک کہانی پاکستان کی سناتا ہوں۔ یہ واقعہ معروف شاعر ”احسان دانش “ نے اپنی خود نوشت سوانح کی دوسری جلد ”جہان دگر“ میں لکھا ہے۔ آئیے ناقدری عالم کی اس کہانی کو انہی کے قلم سے پڑھتے ہیں:”میں اپنے مکان دانش آباد میں بیٹھا کچھ احباب سے گفتگو کر رہا تھا ایک لڑکا آیا اور سلام کر کے بیٹھ گیا ، جب میں سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے بات چیت کر چکا تو اس نے کہا میں راولپنڈی سے آیا ہوں میر انام ”قمر الحسن“ ہے میں یتیم ہوں میرے ماموں نے میری پرورش کی اور میری تعلیم وغیرہ کے تمام مصارف وہی اٹھاتے رہے۔ اب میں نے میٹرک کا متحان دیا تھا اور خیال تھا کہ میٹرک کے بعد کہیں نوکر ہو کر ماموں صاحب کے سر سے اپنا بار کم کردوں گا لیکن میرا نتیجہ روک لیا گیا ہے ۔ مجھے آپ کے ایک جاننے والے نے آپ کے پاس بھیجا آپ میری اس معاملے میں مدد فرمائیں ۔ میں تو کسی قابل نہیں اللہ آپ کو اجر دے گا۔ میں نے پوچھا نتیجہ روک لینے کا سبب کیا ہے؟

قمر:” میری کاپی کورس کی کتاب سے لفظ بہ لفظ مل گئی ہے۔“
میں:” یوں کیسے مل گئی ہے تم نے نقل کی ہوگی؟“
قمر الحسن نے بصد عجز جواب دیا:” میں حلفا عرض کرتا ہوں کہ میں نے نقل نہیں کی البتہ میں جس عبارت کو ایک بار پڑھ لوں مجھے یاد ہوجاتی ہے اسے ویسی کی ویسی لکھ سکتا ہوں ۔“
میں:” اگر تمہیں کوئی کتاب دی جائے تو اسے ایک بار پڑھ کر لکھ دو گے؟“
قمر: ”انشاءاللہ۔ ممکن ہے ایک دو صفحات میں کہیں ایک آدھ غلطی ہوجائے ورنہ وہی کی وہی لکھ دوں گا۔
میرے پا س ایک رسالہ ریاض رکھا تھا جو رئیس جعفری مرحوم نکالتے تھے۔ قمر الحسن کی طرف سرکا دیا اور کہا:”اس کے دو یا تین صفحے پڑھ لو
اس نے رسالہ اٹھا کر پڑھنا شروع کردیا اور تھوڑی دیر میں نظر اٹھا کر بولا:”کیا میں لکھ دوں؟“
میں نے کاغذ اور پنسل اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہا:”اندر بیٹھ کر لکھ لاﺅ“۔
رسالہ لے کر اپنی میز کے دراز میں رکھ لیا اور قمر الحسن کا غذ پنسل لے کر اندر کمرے میں چلا گیا ۔ میں نے ابھی تین چار خطوں کے جواب لکھے تھے کہ قمر الحسن آگیا۔ اس نے لفظ بہ لفظ پورا ایڈیٹوریل لکھ دیا ۔میں نے ملا کر دیکھا تو ایک لفظ بھی کم و بیش نہ تھا۔
میں نے قمرا لحسن کو کہا:بیٹا تم گھر چلے جاﺅ میں دیکھ بھال کرلوں گا اور تمہارے پاس نتیجہ آجائے گا۔ جس شخص کے پاس اس کے کاغذات تھے ۔ وہ شام کو ایک ہوٹل میں مستقل بیٹھتا تھا میں شام ہی سے ایک شخص کو ساتھ لے کر اس ہوٹل میں جا بیٹھا تقریبا آٹھ بجے دو شخص آئے ان میں ایک شخص مجھے بھی جانتے تھے۔ وہ میری وجہ سے اسی میز پر آبیٹھے اور میں نے چائے کا آرڈر دے دیا۔ مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے ایک لڑکے کا ذکر کیا جو پہلے جنم کی باتیں بتاتا تھا اور اس حافظے کے کرشمے کو برہمی بوٹی کا اثر بتاتا۔ میں نے عرض کیا کہ ویدک میں برہمی بوٹی کی تعریف تو بہت آتی ہے اور کسی حد تک درست بھی ہے لیکن جو لوگ ”آواگون“ کو تسلیم نہیں کرتے ان کو کیسے یقین دلایا جائے گفتگو کے اسی موڑ پر میں نے قمر الحسن کا ذکر کر دیا اور وہ واقعہ بھی بیان کردیا۔ وہ شخص سن کر حیران رہ گیا۔
اس نے کہا ایک قضیہ میرے پاس بھی اسی قسم کا ہے لیکن حقیقت کھلنے پر نتیجہ مناسب دے دیا۔ پھر قمرالحسن کا خط آگیا اور اس نے شکریہ ادا کیا۔ غالباً دو سال کے بعد ایک شام کو میں انارکلی سے گزر رہا تھا کہ قمر الحسن نے لپک کر مجھ سے یہ کہتے ہوئے ہاتھ ملایا:”میں قمر الحسن ہوں میں فوج کے ایک دفتر میں جونئیر کلرک ہوں آپ کو دعائیں دیتا ہوں۔ میں نے سنا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے کلیجے میں گھونسا مار دیا ہو اور میری سانس رک گئی۔ مجھے رہ رہ کے خیال آرہا تھا کہ افلاس کا عفریت کیسے کیسے جوہر قابل نگل جاتا ہے۔“

میں یہاں اپنے بزرگوں کے واقعا ت نہیں ذکر کرنا چاہتا ، ماضی قریب کے دسیوں بزرگوں کے بیسیوں واقعات نوک قلم پہ آنے کو بیتاب ہیں، لیکن اخبار کے ان گنے چنے صفحات کی یہ محدود سطریں مزید لکھنے کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

ہمارے اداروں میں پروان چڑھتی نئی نسل میں ایسے ذہین دماغ موجود ہیں جن کی حفاظت ، حوصلہ افزائی اور درست رہنمائی کر کے حیران کن نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ادارہ معارف القرآن اور دارالعلوم الصفہ میں ”قرآنی کمپیوٹر“ موجود ہیں۔ کمپیوٹر کو شرمانے والے ان ننھے منے بچوں کی حوصلہ افزائی اور درست رہنمائی کر کے عقل انسانی کا ایسا شاہکار تیار کیا گیا ہے کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دو اداروں میں ہی ایسے طالب علم تھے ؟؟ کیا پاکستان بھر میں قاریوں کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کرتے بچے ان سے صلاحیت میں کم ہیں؟ نہیں ، ہرگز نہیں! میری مدارس کے مہتممین سے استدعا ہے کہ اپنے معاصر مدارس کے تجربات سے استفادہ کریں اور پتہ چلائیں کہ آخر غزہ کے ان نوجوانوں کو قرآن یاد کرانے اور کراچی کے بچوں کو ”قرآنی کمپیوٹر“ بنانے میں کیا طریقہ اختیار کیا گیا۔
Abdul Muneem Faiz
About the Author: Abdul Muneem Faiz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.