زندگی ہر لمحہ اپنے ماحول سے
نبرد آزما رہتی ہے۔اپنے اطراف پھیلے ہوئے کشاکشِ ہستی کے دائروں میں سانس
لیتا ہوا انسان نہ جانے کتنے منفی یا مثبت حالات کا مقابلہ کرتا ہوا اپنی
منزل کی طرف گامزن ہے۔ شکست و ریخت کی کئی منزلیں اُس کی راہ میں اُبھرتی
ہیں اور جذب وانجذاب کی جب دعوت دیتی ہیں تو ایسے میں یا تو وہ اپنی راہ
لیتا ہے یا اِن میں اُلجھ کر اپنی راہ کھوٹی کر لیتا ہے۔زندگی کی اِن کٹھن
راہوں میں ربّ جلیل کا سہارا نہ ہوتا تو نہ جانے کتنی بھاری تعداد میں
موجود انسانی نفوس پر مشتمل یہ جمِّ غفیر خود اپنے کرتوتوں کے سبب کبھی کا
نیست و نابود ہو گیا ہوتا۔یہ فضل ربی ہی ہے کہ اُس نے اپنے فرستادانِ با
تمکنت کے ذریعہ اِس اِنسانی قافلے کو اپنی ہدایت کا سہارا دیا۔اِنسانوں کی
رہبری کے لیے صحیفوں ، کتابوں اور اِن کامل نفوسِ قدسیہ کے اُسوہ ہائے حسنہ
کے سلسلے جاری فرما دیے۔ رسل علیھم السلام نے اپنے اپنے زمانوں میں ہدایت
ربانی کی روشنی میں اِن کی خود ہی قیادت فرمائی ، تزکیہ کیا، اِن کے سامنے
آیاتِ اِلٰہی کی تلاوت فرمائی، الکتاب کی تعلیم د ی اور اِنہیں الحکمہ کا
درس دے کر اُن کے اندھیرے راستوں کو روشن کردیا۔یہ اُجالا آج بھی اِن راہوں
کو منور کیے ہوئے ہے اور تا قیامت اِسی اُجالے کی بدولت زندگی کی راہیں
روشن رہیں گی۔لیکن اِن اُجالوں کا منبع حقیقتاً کہاں ہے؟ نور کی یہ ربانی
کرنیں دراصل اُسی القرآن سے نور افشاں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم
کے قلبِ اطہر پر عرشِ اعظم سے نازل ہوا، جسے آپ کی زبانِ مبارک سے اس دنیا
نے سب سے پہلی بار سنا اور اِسی قرآن ِ حکیم میں جتنے پیغمبروں کے جس قدر
تذکرے پائے جاتے ہیں وہ تاقیامت ہدایت کی ضرورت کو پورا کرتے رہیں
گے۔اِنہیں بڑے اہتمام کے ساتھ قرآن میں محفوظ کر دیا گیا ہے اور وہ بالکل
تر و تازہ حالت میں آج بھی انسانوں کو دعوت و ہدایت کی روشنی کا مینار بنے
ہوئے ہیں۔آج ہم اِسی سرچشمہ ہدایت قرآنِ الحکیم سے حصولِ ہدایت کے ایک اور
موقع سے متمتع ہونے کی سعی مبروک کر رہے ہیں۔ مذکورہ نقطہ نگاہ سے
اٹھائیسویں سورة القصص کی پچپنویں آیت آج ہمارے غور و فکر کا موضوع ہے اور
آخری رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوئہ حسنہ ، کردارِ
عالی مرتبت اور اخلاقِ پاکیزہ ہمارے اِس مضمون کی تقویت کا باعث بنیں گے۔
اپنی خانگی، ازدواجی، سماجی اور کاروباری زندگی کے شب وروز کو بدلنے کی
کوششوں میں ہمارا یہ مطالعہ سنگ میل ثابت ہو ،یہی دعا ہے۔
آیت کی ترجمانی ہے:” اور حقیقی ایمان والے تو وہ لوگ ہوتے ہیں، کہ جب وہ
سنتے ہیں کوئی لغو، بیہودہ اور فضول بات، تواس سے اعراض کرتے ہیں یا کنارہ
کشی اختیار کرتے ہیں اور ان کا ردّ عمل یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ہمارے
اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ سلامتی ہو تم پر، ہم نادانو ں سے کبھی
نہیں الجھتے ۔ “
حکمت و ہدایت سے بھرپور الکتاب کا کمال یہ ہے کہ ایک مخلص جویائے ہدایت کی
شخصیت کی تعمیر یہ کچھ اِس انداز سے انجام دیتی ہے کہ اِنتہائی سخت گیر
حالات میں بھی یہ کبھی منفی سوچ کے زیر اثر نہیں آتا بلکہ وہ بحران میں ایک
مثبت سوچ کی علامت بن جاتا ہے۔اِنسانی پیکر سرتاپا مثبت ردّ عمل کا مظہر بن
جائے تو وہ دیگر انسانوں کے لیے مرکزِ اُمید بن جاتا ہے اور وہ کسی کے لیے
باعثِ زحمت کسی صورت نہیں بن سکتا۔ ہر طرح کے منفی سماجی ماحول کے درمیان
اُس کا مثبت ردّ عمل اُسے انسانوں کے لیے اِس قدر کارآمد اور نافع بنا دیتا
ہے کہ پھر اُس کے بارے میں لوگوں کی رائے مستقلاً بدل جاتی ہے۔کسی منفی
منظر سے آنکھ پھیر تے ہوئے ، یا آنکھ بند کر لیتے ہوئے کسی حد تک اِس منظر
کے نظارے سے بچنا ممکن ہے، لیکن ہمارے کانوں کا معاملہ الگ ہے۔ ہم آنکھوں
کی طرح اپنے کانوں کو بند کر لینے پر قادر نہیں۔کئی ناگوار باتیں ایسی ہوتی
ہیں جو کانوں کے پردے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ہماری تمام ترPositivityکے علی
الرغم کچھ الفاظ اپنے ردّ عمل میں ناقابلِ برداشت تلخیاں گھول دیتے ہیں اور
یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں ایک مثبت فکر کے حامل شخصیت کا امتحان شروع
ہوجاتا ہے۔اِس آیت سے واقف افراد اِس طرح کی صورتحال سے کبھی دوچار ہوجاتے
ہیں تو اُنہیں کسی تلخی سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اِس لیے کہ وہ اِس
پس منظر سے خود کو ہٹا لینے کا ہنر ربانی نور کے ذریعے خوب جان چکے ہوتے
ہیں۔
ایک طرف ہمارا نفس ہمیں اکساتا رہتا ہے تو غصّہ کی کیفیت کے طاری ہونے کے
امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر ہم بھی حالات سے بے خبر ہوکر جواباً کسی تلخ
بات کو زبان سے ادا کرنے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا حریف یا
مد مقابل بھی شعوری یا غیر شعوری حکمتِ عملی کے تحت ہمیں اپنی سطح پر لے
آنے کوشش کرتا ہے۔تیسری طرف ہمارا ازلی دشمن شیطان الرجیم بھی اپنی کراہت
انگیز حکمت عملی کوزیر عمل لانے کو بے تاب رہتا ہے، تا آنکہ دونوں ہی طرف
تلخی بڑھے اور اولادِ آدمؑ اپنے فریق سمیت ایک منفی راستہ لے لیں اور اِس
طرح آخری نتیجہ شیطانی منصوبہ کی کامیابی کی شکل میں نکلے۔ ہمارا رب نہیں
چاہتا کہ اُس کے مخلص بندے اِس طرح کی کسی صورتحال میں اپنے وقار کو مجروح
کر بیٹھیں۔پھر یہ کسی باشعور و با کردار انسان کے شایانِ شان بھی نہیں کہ
بعض نہایت ہی معمولی قسم کی کوئی بات اُن کے وقار کو دھکا پہنچانے کا باعث
بن جائے۔ایسے اشتعال انگیز حالات کے درمیان خود کو سنبھالنے کے لئے ہمیں
اُن اصولوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ خاص طور سے اُن اُصولوں کے جن کے تحت رب
تعالیٰ نے اس دنیا کی تخلیق فرمائی ہے۔وہ برحق اُصول جو اٹل ہیں، ہر قوم کے
ہر انسان کے لیے ہوا کرتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ اِس دنیا میں کوئی منفی شے
کسی منفی مسئلے کا حل مطلق نہیں، اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ اندھیرے ،
اندھیاروں سے دور نہیں کیے جا سکتے ۔ لاکھ اندھیرے ہوں،اندھیروں کے سینے
چیرنے کی صلاحیت صرف ایک شمع ہی میں ہو سکتی ہے۔اسی اصول کو نہایت واضح طور
پر ہمارے رب نے چودھویں سورة کی چوتیسویں آیت میں بیان فرمایا ہے :” ہر گز
برابر نہیں ہوسکتی اچھائی اور برائی۔ منفی اور مثبت کبھی برابر نہیں
ہوسکتے۔تو تم دفع کرتے رہو، دور کرتے رہو برائی کو ، اس طریقے سے جو اس سے
احسن ہو۔اگر تم نے اس طرح رسپانس دیا تو جس کسی کے ساتھ تمھارا تنازعہ ہوگا،
وہ کبھی ایسا ہوجائے گا ، جیسے تمہارا گرم جوش دوست۔ “
ہمارے رب کے بتائے ہوئے اس سنہری اصول کو اگر ہم دریافت کرلیں، تو ایک
پرسکون دنیا کو ہم دریافت کر سکتے ہیں۔ایک پرسکون دنیا کی جستجو کے لیے یہ
سنہری اُصول انسانوں کے لیے نعمتِ غیرمترقبہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی
تنازعہ کیوں نہ ہو،شخصی ہو کہ خاندانی، ملکی ہو کہ بین الاقوامی،بیا ن در
بیان کی خو متحارب گروپوں کو گہری رقابت تک لے جاتی ہے اور بھاری جنگوں کا
پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ تیتیسویں سورة کی سترویں آیت میں رب نے ہمیں یہ حکم
دیا ہے:” اے لوگوں جو ایمان لائے! اللہ سے ڈر ڈر کر تقوے کی زندگی گزارو،
اور بات کہنی ہو ، تو ہمیشہ سیدھی، صاف، سچی اور نرم لہجے میں کرو۔ اللہ
تمہارے کام سنوار دیگا، اور تمہاری خطائیں معاف کردیگا، اور جس کسی نے اللہ
اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مانی ، تو وہ ضرور کامیابی حاصل
کرے گا بڑی کامیابی۔“ہم اگر منفی بات کا جواب منفی بات سے دیتے ہیں تو، بس
یہیں سے بات بگڑنی شروع ہوجاتی ہے۔ جس سے ماحول تلخ اور رویہ میں تناؤ پیدا
ہونے لگتا ہے ۔ یعنی ہم خود اشتعال کے محرک بننے لگتے ہیں۔ آپسی دوریا ں
بڑھ جاتی ہیں۔ دل کدورت اور حسد جیسی برائیاں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں۔ رب
نے ماحول کی سازگاری کا کامیاب نسخہ نرم گوئی بتایا ہے اور نبی صلی اللہ
علیہ و سلم نے بھی نرم گفتگو کو اِس کا علاج قرار دیا ہے۔ظاہر ہے اِس کے
لیے سب سے ضروری امر یہی ہے اور ہماری شخصیت کا وقار اور سنجیدگی بھی یہ
تقاضہ کرتی ہے کہ ہم ہمارے فریقِ مقابل کی اخلاقی سطح کے مقابلے میں اپنی
سطح کو بہرحال ارفع رکھیں۔اگر ہم اسی سطح پر آجائیں جس سطح سے ہمارا فریق
ہم سے بھڑ گیا ہے ، توہمارا غصہ یہ کام کر دے گا اور بالآخر ہم اپنی ناکامی
کا ثبوت پیش کردیں گے۔ عجیب بات ہے کہ ہر دور میں اس طرزِ عمل کو بزدلی سے
تعبیر کیا گیا ۔خود اہل کتاب قوموں نے بھی اس ربانی اصول کو چھوڑ دیا۔ ہم
بھی اپنی لاعلمی اور ربانی احکام سے دوری کی وجہ سے اسے بزدلی قرار دے کر
ہمارے اپنے من کی پسندیدہ تاویل کرنے لگتے ہیں۔ مگرہمیں یاد رہنا چاہئے کہ
دور،زمانہ، معاشرہ، علاقہ کوئی بھی کیوں نہ ہو، ہمارے رب کی بات اور حضور
صلی اللہ علیہ و سلم کی بات ہی برحق اور وجہ نجات ثابت ہو کر رہے گی۔صحیح
مسلم شریف کی ایک حدیث کا حوالہ یہاں فائدے سے خالی نہیں ہوگا جس میں شخصیت
کے نکھار کے لیے ایک نہایت ہی اچھوتا اور سنہری اُصول دیاگیا ہے:”....عَن
اَبِی ھُرَیرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ لَیسَ الشَّدِیدُ
بِالصُّرعَةِ ۔ اِنَّمَا الشَّدِیدُ مَن یَّملِکُ نَفسَہ عِندَ الغَضَبِ....“”
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا!
کہ پہلوان وہ نہیں جو اپنے حریف کو پچھاڑ دے ۔ پہلوان وہ ہے، جو غصہ کے وقت
اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔ “
کتاب اللہ کا منشا یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر ماحول پر امن رہے۔فریق گستاخی
کرے یا بد تمیزی ، جہالت سے کام لے یابد تہذیبی سے، رد عمل میں کامیابی کا
وہی فارمولہ کام آئے گاجسے ہم’صبر‘ کہتے ہیں۔یہی کتاب اللہ کا میعار ہے جس
پر بہر صورت خود کو قائم رکھنا ہے۔چنانچہ لغویات کا کس طرح مقابلہ کیا جائے،
اس کا درس ہمیں پچیسویں سورة کی بہتر ویں آیت میں ملتا ہے، جہاں ہمارے رب
نے اپنے اصلی بندوں کی پہچان ہم سے کروائی ہے۔ ” .... اور الرحمٰن کے حقیقی
بندے تو وہ ہوتے ہیں کہ جب انہیں لغو اور فضولیات سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ
وہاں سے انتہائی سنجیدگی، وقار اور اکرام کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ “ہماری
آزمائش کے لیے نہ جانے ہمارے مالک نے کتنی ساری چیزیں اِس دُنیا میں تیار
رکھی ہیں، جن سے آئے دن سابقہ پڑتا ہی رہتا ہے۔جہالت کے مارے انسانوں کیلئے،
چاہے وہ خود کو کتنے ہی مہذب کیوں نہ سمجھتے ہوں، معاملات کو درست کرنے کے
لیے رب تعالیٰ نے ہدایت سے بھرپور اپنی نورانی الکتاب کی پچیسویں سورة کی
ترسٹھویں آیت میں بھی ایک فارمولہ ہمیں عنایت کیا ہے:” اور الرحمٰن کے
حقیقی بندے تو وہ ہوتے ہیں کہ زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب انکا پالا
پڑ جائے جاہلوں سے تو سلام کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ “نادانوں کا شیوہ ہی یہ
ہوتا ہے کہ بات سے بات بڑھے۔ پھر دشمن شیطان کی حکمت عملی بھی یہی ہوتی ہے
کہ ایسا ہی کچھ ہوتا رہے۔ پھر ہمارا نفس بھی کچھ کم شریر نہیں ہوتا۔غصہ سے
اسے بڑا پیار ہوتا ہے۔ مگر رب تعالیٰ کا دلنشین اور بیش قیمت فارمولہ ہی
ہمارا حقیقی حل ہے۔ہمارے ملوث ہونے سے بات بڑھنے کا اندیشہ ہو توکیا یہ
بہتر نہیں کہ ہم اپنی راہ لیں اور تناﺅ کے اس ماحول سے خود کو الگ کر لیں؟
خلقِ عالی کا درس جہاں ہمیں قرآن سے ملتا ہے وہیں احادیث نبوی میں بھی ہمیں
درس اخلاقِ عالیہ کے کئی نمونے ملتے ہیں۔اِن واقعات میں یہ درس پوشیدہ ہے
کہ دورِ نبوی میں کس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ ؓ کی تربیت
فرمائی تھی۔ اِن واقعات میں یہ درس بھی ہمارے لیے پنہاں ہے کہ اخلاق کی سطح
سے کوئی کس حد تک نیچے گر جاتا ہے۔آئیے ہم ایک بار پھر اپنے ذہنوں میں اُن
واقعات کو تازہ کریں۔
ہم جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محفل میں یہودی بھی شریک
ہوا کرتے تھے۔یہ لوگ وہاں بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے تھے۔کتاب اللہ
کی آیتوں میں اِن کی شرارت پسندانہ حرکتوں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں،جن کے
ذریعہ نہ صرف صحابہؓ کو، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام اہلِ ایمان کو ایک
کارآمد فارمولہ بتایاگیا ہے۔سورہ البقرہ کی ایک سو چوتھی آیت ہے، جس میں
ارشاد فرمایا گیا:” مومنوں! تم” رَاعِنَا “نہ کہا کرو، بلکہ اس کے بجائے
”اُنظُرنَا“کے الفاظ ادا کرو اور بات کو غور سے سنو اور یاد رکھو کہ
نافرمانوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ “عرب معاشرے میں مستعمل اس نوع کے
الفاظ کے پس منظر کی تفصیل ہمیں احادیثِ شریفہ میں ملتی ہیں ، جیسے ،
”راعنا “ کے بارے میں یہ تفصیل ملے گی کہ کسی نے کوئی بات ٹھیک طرح سے نہیں
سنی ہو تو وہ کہتا کہ مکر ر عرض کرنے کے سلسلے میں ہماری رعایت کی جائے،
تاکہ ہم ٹھیک طرح سن سکیں۔الغرض راعنا کہہ کر وہ اپنی مقصد حاصل کرسکتا
تھا۔مگر اس لفظ کی قباحت یہ تھی کہ اگر اِسے کچھ کھینچ کر ادا کیا جاتا، تو
اِس کی شکل ”راعینا “بنتی ، جس میں سب وشتم کا پہلو شامل ہو جاتا اوریہ
مضموم لفظ یہودیوں کی شرارتوں کا مددگار بنتا۔اِس کا مطلب یوں بدل جاتا :”
اے ہمارے چرواہے ۔ “ جو بہت ہی نازیبا محسوس ہوتا اور یوں یہ لفظ اس شکل
میں یہودیوں کے بغض اور کینہ کی علامت بن جاتا۔ اس کے استعمال سے وہ چاہتے
کہ وہ اِس طرح مجلس کے امن میں خلل اندازی پیدا کریں،مومنین کو اشتعال
دلائیں۔ اگر مومنین مشتعل ہوکر کوئی رد عمل دکھائیں تو اُنکے شیطانی منصوبے
کامیاب ہوجائیں۔قربان جائیے تربیت ِ الٰہی پر کہ ایسی اشتعال انگیز حرکت پر
بھی رب تعالیٰ کی جانب سے انتہائی مثبت طریقہ اپنانے کا حکم دیا گیا اور
اِس لفظ کا ایک شریفانہ متباد ل بھی عطا کیا گیا۔ یعنی ایک لفظ کو صرف کچھ
کھینچ کر ادا کیا جا نا ایک توہین آمیز بات بن سکتی ہے تو ایسی صورت میں
شرافت کا تقاضہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال ہی ہم ترک کر دیںاور اس کی جگہ کسی
دوسرے متبادل لفظ کا استعمال جاری کریں تاکہ کسی شر یر کوالفاظ سے کھیلنے
کا موقع نہ ملے اور اُس کی اشتعال انگیزی کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔
چنانچہ خود رب تعالیٰ نے حکم دیا کہ لفظ” رَاعِنَا“کے بجائے لفظ” اُنظُرنَا
“ استعمال کیا جائے جس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ” ہمیں مہلت دیجئے کہ ہم بات
کو پوری طرح سمجھ لیں یا ایک بار اور ہماری طرف نظر کریں۔“ اس میں ہمارے
لیے یہ درس ہے کہ جس بات کو تنازعہ کی بنیاد بنایا جائے اُسی کو ترک کرتے
ہوئے اِس کے اثرات کو ختم کیا جائے۔یہ ایسے فارمولے ہیں جو بہترین سماج کی
تعمیر، مثبت ذہن کی تشکیل اور پرامن دعوت کی بنیاد بنتے ہیں۔ یہ اگر ہمارے
رب کا حکم ہے اور یہی حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے، تو ظاہر
ہے،یہ دُنیا و آخرت میںاجر و ثواب اور کامیابی کی ضمانت بن جائے گا۔
ہم میں سے ہرشخص اس دنیا میں کامیاب انسان بننا چاہتا ہے، اور اسکے لئے
کوششیں بھی کرتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی ان ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے
رب کی ناراضگی سے بھی دریغ نہیں کرتااوراپنی زندگی کے ان قیمتی لمحات کو
فضول اور بے فائدہ چیزوں پر صرف کردیتا ہے۔ ایسا شخص اپنے ٹارگیٹ کو نہ صرف
یہ کہ نہیں پہنچتا ، بلکہ اپنی آخرت کا بھی ضرور نقصان کر بیٹھتاہے۔لیکن
ایک ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اس کے ساتھ ایماندار ہو، اسے یہ
پتہ ہو کہ یہ دنیا اس کے لئے ایک امتحان گاہ ہے، اس کی منزل مقصود آخرت ہے۔
اسے یہ بھی پتہ ہو کہ اسے یہ محدود زندگی، ایک مقررہ وقت تک کے لئے دی گئی
ہے۔اسی محدود زندگی میں اسے اپنی آنے والی لامحدود زندگی کی کامیابی کے لئے
جدوجہد کرنی ہے، تو ظاہر ہے وہ اپنی اس بیش قیمت زندگی کے ایک ایک لمحہ کو،
اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے ضرور مثبت طور پر استعمال کرنا چا
ہے گا۔وہ ایک ایک لمحہ کو کیش کرنا چاہے گا۔اس طرح کا شخص اپنی زندگی کو
فضول اور بیہودہ باتوں سے دور رکھے گا۔ اور اگرکبھی اس کا سامنا اس طرح کے
لوگوں سے ہوہی جائے، جو اس دنیا کو محض دل بہلانے اور تعیش کی جگہ سمجھتے
ہوئے منفی سوچ کے حامل ہیں اور اسے پروموٹ کر رہے ہیں، تو وہ کبھی ان کا ہم
مجلس نہیں بنے گا۔ بلکہ انتہائی خوبصورت اور احسن طریقے سے وہاں سے خود کو
الگ کرلے گا۔ اسے اپنے رب کے سامنے کھڑے رہ کر اپنے ہر عمل اور ہر جذبے کا
حساب دینے کا ہرپل خوف لاحق رہے گا۔ اسی رب کے سامنے جو اسے دیکھ رہا ہے۔
اس کے ذہن میں رب کی کتاب کی وہ آیت بھی مستحضر ہوگی، جس میں جہنم میں جانے
والوں کے ایک عمل کا تذکرہ بڑے واضح انداز میں کیا گیا ہے۔چوہتر سورة کی
پینتالیسویں اور چھیالیسویں آیت میں فرمایا:”(اور قیامت کے دن جب حساب کتاب
مکمل ہوجائے گا، تو جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے، کہ کن جرائم کی بنا
پر تمہیں جہنم کی سزا ملی؟ تو جہنمی لوگوں کے جواب میں ایک نکتہ یہ بھی
ہوگا کہ ) فضول اور بیکار کے مشغلے اور بکواس کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی اس
قسم کی چیزوں میں وقت ضائع کرتے رہے اوراس طرح ہم انصاف کے دن کی تکذیب کے
مجرم ثابت ہوئے۔ “
ہم سب اس دنیا میں کہیں سے آئے ہوئے ہیں اور ایک مقررہ مدت تک کے لئے ہمیں
اِس دنیامیں ٹھہرنا ہے اور یہاں سے ایک دوسری ہی دنیا میں جو ابدالآباد
دنیا ہے ، لازمی طور سے جانا ہے۔وہاں کی کامیابی کا دارومدار ، ہماری اس
دنیا کی زندگی کے طرزِ عمل پر ہی منحصر ہے۔اگر ہم اس دنیا کی زندگی کو فضول
اور بے مقصد کاموں میں گزاریں گے، تو آخرت کے ہمیشہ ہمیشہ کے خسا رے کے
مستحق بنیں گے۔فانی دنیا کی زندگی کے حصول کے لئے اپنی لافانی زندگی کو داؤ
پر لگانا کوئی دانش مندانہ عمل نہیں ہے۔کسی دوسرے کے بارے میں کبھی ہم سے
سوال نہیں ہو گا ۔ہر ایک اس دنیائے امتحان میں اپنا پرچہ حل کررہا ہے ۔ کسی
کا رزلٹ آؤٹ نہیں ہوا ہے ۔رزلٹ تو آؤٹ ہو گا اس دن ، جو یَومُ التَّغَابُن
یاہار اور جیت کا دن ہوگا۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ہم اس دنیا کے
امتحان میں کامیاب بھی ہونگے یا نہیں۔ ہمیں تو صرف اپنے آپ کو اس دنیا کی
زندگی میں مسلسل رب کو راضی کرنے والے اعمال کرتے رہنا ہے۔ ہمارا کوئی لمحہ
بھی ہمارے رب کی ناراضی والے کام میںصرف نہیں ہو، اس لئے کہ موت کا فرشتہ
ہم پر مقرر ہے گا۔ پتہ نہیں کہ ہم اگلے لمحہ زندہ بھی رہیں گے یا نہیں۔ اگر
ہم اعمالِ فسق میں ملوث ہوں گے اور اسی وقت موت کا فرشتہ آجائے گا تو ہم
رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں گے۔ ایک مومن کا طرزِ عمل تو یہی ہوگا کہ وہ سب سے
زیادہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کر ے گا۔کیونکہ اگر وہ اپنی
زندگی کے امتحان میںفیل ہو جاتا ہے، تو اس کا ردعمل خود اسی کو بھگتنا
پڑےگا۔وہ اپنے گناہوں کا الزام دوسرے پر ڈال کر بری الذمہّ نہیں ہو سکے گا
اور نہ ہی کوئی اس کے گناہوں کے بوجھ میں سے کچھ اٹھا سکے گا۔ترپنویں سورة
کی اڑتیس تا اکتالیسویں آیات میں فرمایا:” (بیشک قیامت کے دن) کوئی کسی
دوسرے کے گناہوں کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والا ہوگا۔اور سن لوکہ
انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کے لئے اس نے سعی اور محنت کی ہوگی۔ اور بے شک
اسکی سعی اور کوششوں کو بھی جانچا پرکھا جائے گا۔پھر اسے پورا پورا بدلہ دے
دیا جائے گا۔ “
کتاب اللہ سے ہم اپنی ذاتی تلاوت کے ذریعے اپنی سوچ کو مثبت بناتے رہنا
چاہیے۔ اشتعال انگیزی کے باوجود ہم اپنے وقار اور سنجیدگی کو نہ کھوئیں
بلکہ اِسے برقرار رکھنے کی عادت ڈالیںتاکہ ہمارا کردار نکھرے۔ اِس طرح کتاب
اللہ والے معیارپر اپنے آپ کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہم کامیاب ہوسکیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق اور اُن کی تربیت کی روشنی میں
ہماری تعمیر ہو، ہماری ذات ماحول کے تناﺅ کا باعث نہ بنے۔ہمارا وجود معاشرے
کے لئے رحمت کا پیغام ثابت ہواور اِن تمام اعمال کے دوران ہمارا مقصد صرف
اور صرف یہی ہو کہ اپنے رب کی رضا حاصل کی جائے۔
اے ہمارے رب ہماری ان کوششوں کو جو ہم منفی کو مثبت کے ذریعہ دور کرنے کے
سلسلے میں کرناچاہتے ہیں، قبولیت کے ساتھ ہماری مغفرت فرما۔ جہنم سے آزادی
اور جنت میں داخلہ عطا فرما۔ آمین۔
کوئی ہے جو اِس دعا پر فی الواقع دل وجاں سے آمین کہنے والا....؟ |