30 جنوری 2019 کو سیکرٹری ہیلتھ کے دفتر گیا جسے پولیس کی
طرف سے ایک لیٹر دینا تھا جس میں سیکرٹری محکمہ صحت سے درخواست کی گئی تھی
کہ محمد فرحان کے قتل کیس میں جن دس ڈاکٹروں کے حلاف FIR درج ہوئی ہے ان
ڈاکٹروں کو ہدایت کرے کہ وہ خود کو پولیس کے حوالہ کرے۔ اس دوران وزیر صحت
ڈاکٹر حشام انعام اﷲ بھی سیکرٹری ہیلتھ کے آفس آیا اور دفتر میں میٹنگ
ہورہی تھی ۔ وزیر صحت کا گن مین جو سفید کپڑوں میں تھا اور ہاتھ میں
کلاشنکوف پکڑ کر سیکرٹری ہیلتھ کے دفتر میں چپڑاسی کے کرسی پر بیٹھ گیا۔
اس دوران ایک سفید داڑھی والا بابا ہاتھ میں درخواست پکڑ کر آیا اس نے کہا
کہ مجھے فلاں صاحب نے بھیجا ہے اور کامران صاحب یا کسی کا نام لیا اس سے
ملنا چاہتا ہوں۔ وزیر صحت کے گن مین نے اسے کہا کہ تم اندر نہیں جاسکتے ہو
۔ با با نے کہا کہ ٹھیک ہے میں باہر انتظار کرتا ہوں جب وہ صاحب باہر نکلے
گا تو میں اسے درخواست دوں گا مگر اس گن مین نے نہایت بد تمیزی کرتے ہوئے
اسے گریبان سے پکڑا اور باہر نکال دیا ۔ بابا نے شور مچایا تو گن مین نے
اسے منہ پر مکا بھی مارا جس سے اس با با کی ہونٹ سے خون نکلنے لگا۔ با با
نے نہایت مایوسی میں روتے ہوئے کہا کہ تم نے میرے سفید داڑھی کا بھی لحاظ
نہیں رکھا۔
لوگوں نے بچ بچاؤ تو کی مگر مجھے بہت افسوس ہوا کہ ہم کس ملک میں رہتے ہیں
ایک وزیر کا ذاتی گن مین ایک سرکاری دفتر میں درخواست کرنے والے لوگوں نے
اتنی بدتمیزی کرکے باہر نکالتے ہیں۔ عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ تم نے
اپنے ان چہیتوں کا جس انداز میں تربیت کی ہے اور انہوں نے اپنے ذاتی بندوق
برداروں کو جس بدتمیزی کا درس دیا ہے خدا را اسے حتم کرے۔ کسی بزرگ شحص کا
کچھ تو لحاظ کیا کرے۔ ورنہ خدہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اﷲ کی قہر اور
عذاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس بد تمیز گن مین کو فوری نوکری سے نکالنا
چاہئے۔
میں نے اس بندوق والے کو کہا کہ تم نے بہت غلط کیا کیونکہ یہ سرکاری دفتر
ہے کسی کے باپ کا کا جاگیر نہیں ہے اور عوام کے ساتھ اس قسم کا بد تمیزی
نہیں ہونا چاہئے۔ سرکاری دفاتر سے عوام کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
سیکرٹری ہیلتھ کا پی اے کسی کے ساتھ موبائل فون پر سرکاری فون سے بہت لمبی
بات کررہا تھا اور ساتھ ہی یہ ڈرامہ چل رہا تھا مگر اسے سرکاری فون سے فرصت
نہیں ملی۔
|