ایک لاہور بھی ہے

تحریر:خرم شہزاد
ساہیوال واقعہ ابھی تک میڈیا پر چھایا ہوا ہے، اگرچہ اب بریکنگ نیوز میں اتنی جگہ نہیں مل رہی لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اب بھی اپنی چھاتیاں پیٹ پیٹ کر پویس اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف محاذ گرم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کہانی کو آگے چلانے کے لیے کبھی لواحقین اسلام آباد میں نظر آتے ہیں تو کبھی کسی اپوزیشن والے کے بیان میں ، لیکن جسے ہمدردی کہتے ہیں جس کے مستحق یتیم ہونے والے بچے ہیں، وہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ وقت سے پہلے میں الزام نہیں لگانا چاہوں گا کہ ایک واقعہ تھا جو ہو چکا لیکن اب اسے کیش کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لواحقین بھی اس کوشش میں ہیں کہ کچھ مل ہی جائے اور ان کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگ بھی اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن معذرت کہ یہاں ہر ایک جو بڑا درد دل لیے ہوئے نظر آتا تھا، ہر شخص دھوکے باز ، ڈرامے باز اور بے حس ہے۔ شاعری، تصویریں، وڈیوز اور پوسٹوں میں دھواں دھار بیانات دینے والے اگر سب سچے اور واقعی انسانیت کی بات کرنے والے ہوتے تو ساہیوال سے لاہور اتنا بھی دور نہیں کہ وہاں ہونے والا واقعہ کسی کی نظر میں نہ آتا۔
گذشتہ دنوں لاہور کے ایک بینک کی آفیسر ماہ رخ صاحبہ کو ان کی بیٹی اور نند کے ہمراہ گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان کے گھر ایک ملازمہ عظمی نامی لڑکی تھی جسے اپنے لیے پکے کھانے کو چکھنے کی پاداش میں تینوں خواتین نے بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ماہ رخ بی بی نے اس لڑکی کے سر پر کوئی بھاری چیز مار دی جس کی وجہ سے عظمی کی حالت غیر ہو گئی۔ بجائے کسی قدر انسانیت ان خواتین میں جاگتی، تینوں خواتین نے اپنے ہاتھ روکنا مناسب نہ سمجھا اور آخر عظمی اپنی جان کی بازی ہار گئی۔ اس موقع پر تینوں خواتین نے کمال چالاکی سے اس کی لاش کو گاڑی میں منتقل کیا اور ایک گندے نالے میں پھینک آئے۔ عظمی کے گھر والوں نے جب اس کی گمشدگی کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ وہ گھر کا زیور لے کر بھاگ گئی ہے۔ اس بات پر انہیں یقین نہ آیا اور وہ عظمی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے تھانے پہنچ گئے۔ پولیس نے سیف سٹی کیمروں کی مدد سے خواتین کی مشکوک حرکات کو دیکھتے ہوئے انہیں گرفتار کیا تو ماہ رخ بی بی نے تھانے پہنچتے ہی اقرار جرم کر لیا۔

کم ظرفوں کے پاس دولت آنے کی وجہ سے آئے روز ایسی داستانیں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن اس واقعے کا افسوس ناک پہلو ہمارے فیس بکی مجاہدین کی طرف سے روا رکھی گئی بے حسی ہے۔ ساہیوال واقعے پر چھاتیاں پیٹنے والوں کے خیال میں وہاں بچوں پر بڑا ظلم ہواکہ ان کے سامنے ان کے والدین کو گولی ماردی گئی۔ یہاں ایک گھریلو ملازمہ کو کھانے چکھنے کی پاداشت میں جان سے مار دیا گیا تو کسی کو زحمت نہ ہوئی کہ ایک مذاحمتی پوسٹ ہی لکھ دیتا۔ یہاں بھی شہر میں پھرتے درندوں کا ذکر کرتا، یہاں بھی شہروں میں جنگل کے قانون والی شاعری پوسٹ کی جاتی۔ جان سے مار دینے کے بعد لاش کو گندے نالے میں پھینک دینا۔ کوئی اس بے حسی پر ایک آنسو تو بہاتا کہ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں تھی۔ واقعہ ساہیوال پر رونے والو اور انسانیت کے واسطے دینے والو، ہمیں بتاو کہ کیا عظمی انسان نہیں تھی؟ کیا وہ اس لائق نہیں تھی کہ اس کی اس طرح موت پر دو آنسو بہائے جاتے؟

یہ دو واقعات ہمارے معاشرے کے مستقبل کی راہ متعین کرتے ہیں کہ اگر میڈیا کسی ایک واقعے کے پیچھے کھڑا ہو جائے تو وہ ظلم شمار ہوگا لیکن اگر میڈیا کسی واقعے کو ریٹنگ نہ دے تو ہمارے لیے بھی اس میں کوئی دکھ کا پہلو نہیں بھلے وہ کسی کی موت ہی کیوں نہ ہو۔ عظمی بے چاری کسی کی پوسٹ سے، شاعری سے یا تصویریں لگانے سے واپس نہیں آ جائے گی لیکن واویلہ کرنے والے اپنے بات میں کتنے سچے ہیں، انسانیت کے کتنے خیر خواہ ہیں، وہ بے نقاب کر گئی ہے۔ یقینا اب غریب کی موت اور کار والوں کی موت میں فرق روا رکھا گیا ہے اور یہ فرق معاشرے کے ان دانشوروں نے روا رکھا ہے جو اسلام سے آگے بڑھ کر انسانیت کو بڑا مہذب منوانے کے لیے پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ آج عظمی کے گھروالے سوشل میڈیا کے ذریعے ریٹنگ لینے کا گر نہیں جانتے تو انسانیت کے ہمدردوں نے بھی ہمارے مظلوموں اور اپنے شہیدوں میں فرق روا رکھ لیا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر جاو تم اپنی قبروں پر ماتم کرو ہم اپنی دنیا کے لٹ جانے پر آنسو بہاتے ہیں۔ دل لوگوں کی بے حسی پر کٹ رہا ہے اور پوچھنا چاہ رہا ہے کہ قیامتیں صرف ساہیوال میں نہیں گزری تھیں، ایک لاہور بھی ہے، تمہیں پتا بھی ہے؟
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.