تحریر: شافعہ افضل
معاشرہ اور خاندان افراد سے بنتے ہیں۔ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے
لوگ جن کا آپس میں خون کا رشتہ ہوتا ہے مثلاً ماں، باپ، بہن، بھائی، چچا،
پھوپھی، دادا، دادی، ماموں، خالہ، نانا، نانی مل کر ایک خاندان تشکیل کرتے
ہیں۔ پھر ان سے وابستہ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے جاتے ہیں اور خاندان
کے افراد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔مشترکہ خاندانی نظام مشرقی روایات کا ایک
ثبوت ہے۔ اس کی مضبوطی کو روایات کی مضبوطی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں خاندان سے الگ رہنا ایک طرح سے گناہ سمجھا جاتا تھا اور
الگ رہنے والے یا علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے کو ایک طرح سے مجرم۔ اس بات
کا کوئی تصوّر نہیں تھا کہ الگ رہ کر بھی انسان اپنے رشتے داروں سے اچھے
تعلقات رکھ سکتا ہے۔ علیحدگی کا مطلب تعلقات ختم کرنا تھا۔ جیسے جیسے
معاشرے نے ترقی کی لوگوں کے خیالات اور سوچ تبدیل ہوئی لوگوں نے علیحدہ
رہنے کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کر لیا۔ اب یہ تصوّر ختم ہو
گیا ہے کہ چاہے جیئیں یا مریں رہیں گے ساتھ ہی۔
جب والدین اپنی اولاد کو دن رات ایک کر کے پالتے ہیں تو ان کے جوان اور
والدین کے بوڑھے ہونے کے بعد ان کی اپنی اولاد سے بہت سی امیدیں وابستہ ہو
جاتی ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جیسے انھوں نے اپنے بچّوں کو محبت سے پالا ہے
اسی طرح بڑھاپے میں وہ بھی ان کو محبت اور توجّہ دیں گے۔ اگر ان کی اولاد
خاص طور پر بیٹے ان کے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ بیٹیاں تو بیاہ کر اپنے گھر
چلی جاتی ہیں۔ تو ان کی زندگی آسودہ رہتی ہے اور بڑھاپا سہل ہو جاتا ہے۔
بعض دفعہ بڑھاپے میں والدین چڑچڑے اور غصیلے ہو جاتے ہیں اور ان کا رویہ
بالکل بچوں جیسا ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے متعلق ہمارے مذہب میں تاکید کی گئی
ہے کہ انھیں اْف تک نہ کہا جائے۔ ان کے ساتھ محبت اور برداشت کا مظاہرہ کیا
جائے۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ صبر اور برداشت کی ہر شخص میں کمی ہو
گئی ہے۔
اب نہ ہی والدین اپنی اولاد کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں جیسے پہلے کے
والدین پیش آتے تھے اور نہ ہی اولاد اپنے والدین کی باتوں کو اس طرح برداشت
کرتی ہے جیسے پہلے زمانے میں کیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں بچّے بہت ہی
چھوٹی عمر سے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ذاتی
زندگی میں اپنے والدین تک کی مداخلت برداشت نہیں کرتے نا کہ خاندان کے کسی
اور فرد کی۔ اس صورتحال میں مشترکہ خاندانی نظام ناکامی کا شکار نظر آتا
ہے۔بے شمار والدین بڑھاپے میں اپنی اولاد کی دوری برداشت کرتے ہوئے نوکروں
کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب کچھ گھرانوں کے علاوہ یہ
تصوّر ختم ہو کر رہ گیا ہے کہ گھر میں بزرگ موجود ہوں اور ان کے بچّے ان کی
خدمت کریں۔
یہ طے ہے کہ جو بچّے مشترکہ خاندانی نظام میں پل کر جوان ہوتے ہیں ان کی
طبیعت میں ٹہراؤ، صبر، برداشت اور ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کی
صلاحیت علیحدہ رہنے والے بچّوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا بچپن اس قسم
کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے یا مشاہدہ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ خا ص طور پر
لڑکیاں۔ آگے چل کر جب ان کی شادی ہوتی ہے تو انھیں سسرال میں رہنے والے
مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ گزارا کرنے میں اتنی مشکل نہیں پیش آتی جتنی
علیحدہ رہ کر جوان ہونے والی بچّیوں کو ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کی عادی نہیں
ہوتیں۔ بہر حال اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں
رہنے اور پلنے والی لڑکیاں ہی اچھی بہو ئیں ثابت ہوتی ہیں۔ اچھا یا برا
انسان اپنے اور دوسروں کے رویّوں اور اعمال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ شخصیت
سازی میں بچپن کا دور، حالات اور واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے کہ کون سا نظام بہتر ہے؟ میری ذاتی رائے کے مطابق ہر چیز کی
طرح ان دونوں کے بھی منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام اس
لحاظ سے اچھا ہے کہ اس میں کسی ایک فرد پر ہر طرح کا بوجھ نہیں پڑتا۔ کاموں
کا بٹوارہ ہو جاتا ہے اور مالی مسائل بھی کم ہوتے ہیں۔ بچّوں کو بزرگوں کی
صحبت ملتی ہے جس کی بدولت وہ ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہیں اور بزرگوں
کو بھی اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں سے دوری برداشت نہیں کرنی پڑتی۔ ان کی
دیکھ بھال بھی بہتر طور پر ہو جاتی ہے۔ دکھ سکھ میں تمام لوگ آپ کا ساتھ
دیتے ہیں آپ کو اکیلے تمام مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
نقصان یہ ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی محدود ہو جاتی ہے۔ آپ کا ہر معاملہ سب کا
معاملہ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کچھ لوگ بے جا مداخلت بھی کرتے ہیں جس سے
اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ درمیان میں فاصلے اور دلوں میں کدورتیں پیدا ہو
جاتی ہیں۔ آپ اپنی اولاد کے بارے میں کوئی فیصلہ اکیلے نہیں کر سکتے سارے
لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اپنی اچھی یا بری رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہتی۔ ہر بات ہر کسی کو پتا ہوتی ہے چاہے وہ اچھی
ہو یا بری۔ پردہ دار خواتین کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ ایک گھر میں رہتے
ہوئے پردے کا اہتمام کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اسی طرح علیحدہ رہنے کے بھی منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔ علیحدہ رہنے سے
آپ کو خاندان کے ہر فرد کی ہر اچھی بری بات کا اندازہ نہیں ہو پاتا اسطرح
بعض باتیں چھپی رہتی ہیں جس میں کبھی کبھی بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔ آپ اپنے
بچّوں کی تربیت اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ بچّوں کو اپنی مرضی کے مطابق
منظم کر سکتے ہیں۔ غلط بات پر ٹوکنے پر دوسرا کوئی ان کی طرف داری نہیں
کرتا جس سے ان کے اندر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھنے کا شعور پیدا
ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ آپ اور آپ کے بچّے اپنی مرضی کے مطابق بغیر کسی کی
مداخلت کے زندگی گزار سکتے ہیں۔
اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں جن میں سے کچھ میں پہلے بھی بیان کر چکی ہوں۔
ہمیں اور ہمارے بچّوں کو لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے، کیسا روّیہ
رکھنا ہے، مل جل کر کیسے رہنا ہے، اپنی چیزیں دوسروں کے ساتھ کیسے بانٹنی
ہیں یہ سب علیحدہ رہتے ہوئے مشکل سے سمجھ آتا ہے۔کوئی بھی نظام چاہے وہ
مشترکہ ہو یا علیحدہ اس وقت تک کامیاب یا ہمارے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا جب
تک ہمارے اندر صبر، ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت، میانہ
روی، اچھے برے کا فرق کرنے کی سمجھ اور دوسروں کے بارے میں بھی اپنی ہی طرح
سوچنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی۔ اگر ہمارے اندر یہ تمام باتیں نہیں ہوں
گی تو ہم کسی بھی نظام میں رہتے ہوئے بھی خوش اور مطمئن نہیں رہ پائیں گے
اور نہ ہی لوگ ہم سے خوش ہوں گے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ چاہے آپ مشترکہ
خاندانی نظام میں رہیں یا علیحدہ اپنے دلوں کو اپنے خاندان کے افراد کی طرف
سے صاف رکھیں۔ اچھی باتوں کو ہمیشہ یاد رکھیں اور بری باتوں کو کچھ بھی کر
کے جلد از جلد بھول جائیں۔ خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے
کی کوشش کریں۔ |