من کی تڑپ جب تن پہ رنگ جماتی ہے تو زندگی میں پھیلی ہوئی
وحشتیں بے معنی دیکھائی دیتی ہیں۔ہم وقار دولت میں ڈھونڈتے ہیں اِس کے مسکن
تو اعلیٰ اخلاق میں پنہاں ہے۔موت کا زندگی کے تعاقب میں سرگرداں رہنا موت
کی سچائی اور زندگی کی بے وفائی کا ثبوت ہے۔ جھوٹ بول کر اپنا بھرم رکھنے
سے بہتر ہے سچائی کے ساتھ جینا سیکھ لیا جائے۔کیونکہ سچائی کا دیرپاء ہونا
حقیقت ہے جھوٹ تو عیاں ہو کر ہی رہتا ہے۔جس انداز میں تعلیم کو کمرشلائز
کیا گیا جس طرح تعلیمی میدان میں پروفیشنلز کی بجائے سوداگر وارد ہوئے۔
تعلیم اداروں کو درسگاہ کی بجائے شور روم کے طور لیا جانے لگا۔ تعلیم کا
میعار صرف بلڈنگ، لش پش ماحول مخلوط تعلیم ، لڑکے اور لڑکیوں کے مشترکہ ٹور،
تعلیمی ادروں میں پاکستانیت، اسلامیت کی بجائے بھاری و انگریزی تہذیب و
ثقافت پر فخر، اخلاقیات کا مضمون صرف ا قلیتوں کے لیے اور اکثریت کے لیے
ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں۔جب معیار ہی یہ ہو کہ کہ کتنی فیس والے تعلیمی ادارے میں
تعلیم حاصل کی جارہی ہے تو پھر اخلاقیات پر صرف آنسو ہی بہائے جاسکتے
ہیں۔اِس کالم کو لکھے جانے کا محرک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے وہ یہ کہ
سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل تھی جس میں ایک طالبہ کہی رہی تھی کہ وہ
یونیورسٹی آف سرگودہا کے بھکر کیمپس کی ایم ایس سی ریاضی کی طالبہ ہے اور
اُن کے اُستاد اور شعبہ کے سربراہ اُسے اور بہت سی لڑکیوں کو جنسی طور پر
ہراساں کر رہے ہیں اور بہت سی لڑکیاں اُن کی ہوس کا نشانہ بھی بن چکی ہیں۔
پروفیسر موصوف جو اُستاد جیسے مقدس پیشے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جن
کانام ڈاکٹر ساجد ہے نے لڑکیوں کو ڈگری کا لالچ دے کر اپنی ناجائز خواہشات
کا نشانہ بنا یا ہے۔ اِس وڈیو کی بابت میرے محترم دوست غلام عباس جو کہ
سرگودہا میں مقیم ہیں زمانہ طالبعلمی میں ہمارے ساتھ انجمن طلبہء اسلام میں
رہے ہیں نے میری توجہ دلوائی۔ میں نے بطور علمبردار انسانی حقوق لاہور ہائی
کورٹ بار میں اپنے وکلاء دوستوں جانب علی احمد کیانی، صاحبزادہ حسن علی
سچلی، رضوان احمد خان ایڈووکیٹس و دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ اگلے روز
ہی بھکر میں اِس راسکلز ڈاکٹر ساجد کے خلاف متزکرہ بالاطالبہء کے والد کی
مدعیت میں ایف آر درج ہوگئی ہے اور اِس واقعے کا نوٹس وزیر تعلیم پنجاب نے
بھی لے لیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ بار میں راقم کی جانب سے کی جانے ولای پریس
کانفرنس کی تفصیلات یہ ہیں۔ڈاکٹر ساجد سربراہ شعبہ ریاضی یونیورسٹی آف
سرگودہا بھکر کیمپس کی جانب سے طالبات کو جنسی ہوس کا نشانہ بنائے جانے کے
واقعہ کی تحقیقات کی جائیں۔ انتہائی مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے ساجد کو
قرار واقعی سزا دی جائے۔حوا کی بیٹی کہیں بھی محفوظ نہیں۔ اِ ن خیالات کا
اظہار انسانی حقوق کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار کے چیئرمین صاحبزادہ میاں
محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ بار میں پریس کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے کیا ہے۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا پر
موجود یونیورسٹی آف سرگودہا بھکر کیمپس کی طالبہ کا وڈیو کلپ بھی صحافیوں
کے سامنے پیش کیا۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے وزیر اعلیٰ
پنجاب، گورنر پنجاب سے اِس حوالے سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ پریس
کانفرنس میں، غلام مرتضیٰ ایڈووکیٹ، علی احمد کیانی ایڈووکیٹ، چودری
محمدحسین شاہین ایڈووکیٹ، صاحبزادہ حسن علی سچلی، گل بیگ ایڈووکیٹ، رانا
عامر فاروق ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔ یونیورسٹی آف سرگودھا کے سب کیمپس بھکر
میں کلور کوٹ طالبہ کی ڈیپارٹمنٹ ایچ او ڈی پروفیسر پر حراساں کرنے اور
دھمکیاں دینے کے الزامات پر درج مقدمہ کی ابتدائی تفتیش میں ملزم کو شخصی
ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ذرائع کے مطابق یونیو سٹی آف سرگو دھا سب کیمپس بھکر
میں میتھہ کی طالبہ شانز ہ کومل کے والد محمد یعقوب اسحاق نے ڈیپارٹمنٹ کے
ایچ او ڈی پروفیسر ڈاکٹر ساجد اقبال پر بیٹی کو جنسی حراساں کرنے،دھمکیاں
دینے،اور غیر اخلاقی میسج کرنے کے الزامات میں تھانہ سٹی زیر دفعہ
376/512/292/506 اور 29 ٹیلی گرام ایکٹ مقدمہ درج کروایا تو سب کیمپس کے
اساتذہ نے احتجاج کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مقدمہ خارج
کرنے کا مطالبہ کیا تا ہم پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر طالبہ اور
پروفیسر ڈاکٹر ساجد اقبال سے تفتیش کی تو ابتدا ئی تفتیش میں طالبہ پروفیسر
پر لگائے گے الزاما ت ثا بت نہ سکی تو پولیس تفیش کا رخ تبدیل کرتے ہوئے
طالبہ کے دو ساتھی طالب علموں کو شامل تفتیش کر لیا۔تفتیشی ٹیم شخصی ضمانت
پر پروفیسر ساجد کو چھوڑ دیا جسے مقدمہ کے اند راج کے بعد یونیورسٹی کیمپس
سب کیمپس سے حراست میں کیا گیا تھا۔پروفیسر ڈاکٹر ساجد اقبال کی گرفتاری
پریونیو رسٹی سب کیمپس کے اسا تذہ نے کلاسز کا با ئیکا ٹکر کے ڈی پی او کے
دفتر کے سا منے احتجا جی مظا ہر ہ کیا تو ڈی پی او نے اسا تذہ کے وفد کے
ساتھ مذاکرات میں اساتذ ہ کو یقین دہا نی کروائی تھی کہ واقعہ کہ تفتیش خود
میرٹ پر کریں گئیں۔ پروفیسر کی رہا ئی پر یو نیورسٹی اساتذ ہ نے ڈی پی او
کا شکریہ ادا کیا اور مطالبہ کیا کہ طالبہ اور بلیک میل کر نے والے گروپ کے
خلاف کا روائی عمل میں لا ئی جا ئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ساجد کی وڈیوز وائر ہوئی ہے اُس کا
حدوددربعہ کیا ہے۔ اور جغرافیائی طور پر ڈاکٹر ساجد اخلاقیات کے کس خطے کے
باسی ہیں ۔ ہمارے ہیں یہ دھڑا بازی کا رواج ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ سچائی
کیا ہے بس دھڑا بازی کے چکر میں حق سچ کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ میری
آئی جی پنجاب پولیس کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب سے
یہ درخواست ہے کہ اِس واقعہ کی میرٹ پر تحقیقات کی جا ئیں۔ |