سلفیت اور سلفی کا تعارف قرآن وحدیث کے آئینے میں

دین اسلام ایک صاف ستھرا فطری نظام حیات ہے ، اس میں زندگی گزارنے کے تمامتر پاکیزہ اصول موجود ہیں ۔ دراصل اسی دین میں انسانیت نوازی، صلح وآشتی،اتحاد واتفاق، عدل ومساوات، حقوق ومراعات، اخوت ومحبت ، صدق وصفا، امن وراحت اوراطمینان وسکون موجود ہے ، دنیا کے باقی تمام ادیان ومذاہب میں فطرت سے بغاوت اور زندگی کی پاکیزہ اصول وتعلیمات سے بیزاری ہے ۔ دین اسلام کو دوسرے لفظوں میں سلفیت سے بھی موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ یہی اسلام کی مکمل تعبیر ہے۔
سلفیت کوئی نیا فرقہ اور خودساختہ نظام زندگی کا نام نہیں بلکہ قرون مفضلہ کے سلف صالحین کے منہج پر چلنے کا نام ہے ۔سلف صالحین سے مراد صحابہ ، تابعین اور ان کے اتباع یعنی رسول اﷲ ﷺ نے جن تین زمانوں کی خیروبھلائی کا ذکر فرمایا ہے ان زمانوں کے نیک وصالح افراد جنہوں نے رسول اﷲ ? کے دین کو صحیح سے سمجھا اور اس پر اسی طرح عمل کیا جس طرح آپ نے حکم دیا ۔جو لوگ ان اسلاف کرام کے منہج پر چلے انہیں سلفی کہا جاتا ہے اور جو اس سے بچھڑ جائے خلف میں اس کا شمار ہوگا۔
جس طرح اﷲ تعالی نے قرآن کی حفاظت فرمائی، رسول اﷲ ﷺ کے فرمودات کی حفاظت کیاسباب پیدا فرمائے اسی طرح عہد رسول سے لیکر ابتک ایک جماعت کی حفاظت کرتا رہا اور قیامت تک کرتا رہے جس جماعت کا مشن ،نبوی مشن یعنی حق(کتاب اﷲ اور سنت رسول ) کا دامن تھامتے ہوئے اسی کی نشر واشاعت کرنا اور باطل کی ترید میں کسی قسم کی مصالحت نہ کرناہے ۔
چونکہ سلفیت اصل اسلام کا نام ہے اور سلفی دنیا والوں پر اصل اسلام کو پیش کرتے ہیں اس وجہ سے منہج سلف پر چلنے والوں کو نہ صرف باطل ادیان کی طرف سے خطرات ومشکلات اور مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ اسلام کا لبادہ اوڑھے مختلف مسالک میں بٹے مسلمانوں سے بھی ہے ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
علامہ اقبال نے نبوی مشن سے متصادم ہردور کے بولہبی جماعت کی طرف اشارہ کرکے حق بیانی سے کام لیا ہے اوراس حقیقت پر ہردور کی تجرباتی ومشاہداتی تاریخ بین ثبوت ہے جسے اس تاریخی سچائی سے انکار سے وہ تعصب کی عینک اتارکراپنے ہی دور کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرلے ۔
جو اسلام کے دشمن ہیں ، وہ تو اسلام دشمنی نبھائیں گے مگر حیرت اسلامی لبادہ اوڑھے اپنے بھائیوں پر ہے جنہوں نے سلفیوں کو بدنام کرنے،انہیں مالی و جسمانی گزند پہنچانے اور کفار کے لئے ان مسلمانوں کے خلاف راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔سلفیوں کو انگریز کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے ، ان کو انتہا پسنداور دہشت گردجماعت کے طور پر غیرمسلموں میں متعارف کیا جاتا ہے۔ نبی کے گستاخ، فضائل صحابہ کے منکر، اولیاء کی شان گھٹانے والا اور ائمہ کرام کا احترام نہ کرنیوالا کہہ کر عام مسلمانوں میں نفرت پیدا کی جاتی ہے ۔قرآن وحدیث کے معانی ومفاہیم بدل بدل کر سلفیوں کو دین میں نیا فرقہ بتلایا جاتا ہے اور ان سلفیوں کی کتابیں پڑھنے ، ان سے تعلقات استوار کرنے حتی کہ معاملات کرنے سے بھی منع کیا جاتا ہے ، وہابی اورغیرمقلد کا طعنہ گالی کے طور پر دیا جاتا ہے ۔ خیر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
سلفیت کیا ہے اوپر واضح کردیا گیا اور اب اس سلفیت کے پیروکار کون ہیں ، ان کی صفات کیا ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ عوام پر حق واضح ہوجائے ،ٹولیوں میں بٹے خواص کو حقیقت کا پتہ ہے مگروہ اپنی عوام پر نہ حق پیش کرتے ہیں اور نہ ہی حق ظاہر ہونے دیتے ۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ سلفیت ہی حق کی دعوت ہے اور اسے صرف اﷲ اور اس کے رسول کی اتباع کا ہی حکم ہوا ہے تو پھر وہ تقلیدی اور فقہی مذاہب سے آزاد ہوکراس سلفی منہج کواختیار کرلیتا ہے ۔
پہلے قرآن سے سلفیوں کے چند اوصاف بیان کرتا ہوں ۔
پہلی صفت :وہ اﷲ اور اس کے رسول کی اتباع کرنے والے ہیں :
اﷲ نے اپنی کتاب میں بیشتر مقامات پہ اپنی اور اپنے رسول کی اتباع کا حکم دیا ہے،اﷲ کا فرمان ہے:
وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ(آل عمران:132)
ترجمہ:اور اﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرادری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اﷲ کا فرمان ہے : فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ(النور:63)
ترجمہ: سنو! جو لوگ حکم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دُکھ کی مار نہ پڑے۔
اﷲ کا فرمان ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ (الانفال:20)
ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کاکہنا مانو اور اس سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔
اﷲ کا فرمان ہے:وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا (الحشر:7)
ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے ،لے لو اور جس سے روکے رُک جاؤ۔
ان آیات کی روشنی میں وہی مسلمان حق پر ہیں جو اﷲ اور اس کی رسول کی اتباع کرتے ہیں ، ان کی اتباع کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اﷲ اور اس کے رسول کی اتباع میں سچے اورپکے سلفی ہیں ۔
دوسری صفت : محمد ﷺکو ہی اپناامام اور پیشوا مانتے ہیں ۔ اﷲ کا فرمان ہے :
لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:21)
ترجمہ:بے شک تمہارے لئے رسول اﷲ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔
کائنات میں سب سے افضل ہستی محمد ﷺکی ہے ، سلفی نہ صرف اس کا اعتقاد رکھتے ہیں بلکہ اﷲ کے مذکورہ فرمان کے مطابق اپنا امام اعظم بھی محمد ﷺکو ہی مانتے ہیں اور آپ کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ سلفی کے علاوہ مسلمانوں کے تمام گروہ محمد ﷺکو چھوڑکر کسی اور کو اپنا اپنا امام مانتے ہیں اور اپنے من مانے امام کی تقلید کو راہ نجات قرار دیتے ہیں۔
تیسری صفت : رسول اﷲ ﷺکی اتباع کرنے میں سلف کے منہج پر چلنے والے ہیں ، اﷲ کا فرمان ہے :
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ (التوبہ:100)
ترجمہ:جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اﷲ ان سے راضی ہے اور وہ اﷲ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے۔
یہ امتیازی صفت صرف سلفیوں کی ہے کہ وہ اتباع نبی میں صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔
چوتھی صفت: دین حق کی کامل طورپر دعوت دینے والی جماعت ہے۔
اﷲ کا فرمان ہے : وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّۃٌ یَہْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ (الاعراف:181)
ترجمہ: ہماری مخلوق میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو دین حق کی رہنمائی کرتی ہے اور اسی کے ذریعہ انصاف کرتی ہے۔
اﷲ تعالی نے اس آیت کے ذریعہ بتلادیا کہ دین محمدی کی کماحقہ تبلیغ کرنے والی ایک جماعت ہمیشہ قائم رہے گی اور وہ سلفیوں کی جماعت ہے۔مختلف گروہ میں بٹے مسلمانوں کے پاس بھی تبلیغ ہے مگر اپنیاپنے بزرگوں اور اماموں کی ۔دنیا اس بات پر شاہد کہ ممبرومحراب سے لیکر اجتماعا ت وکانفرنس تک سلفی حضرات صرف قال اﷲ اور قال الرسول کی دعوت پیش کرتے ہیں ۔
پانچویں صفت : حق پرستوں کی تعداد کم ہوتی ہے ۔ اﷲ کا فرمان ہے :
وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِی الْأَرْضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیلِ اللَّہِ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ (الانعام:116)
ترجمہ: اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اﷲ کی راہ سے بے راہ کردیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ۔
اس معانی کی کئی آیات ہیں مگر ایک ہی آیت سے ہمیں بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدھے راستے پر چلنے والوں کی کثرت نہیں ہوتی بلکہ قلت ہوتی ہے اسی لئے ہم سلفیوں کی تعداددنیا میں تھوڑی ہے اور رائے وقیاس پر چلنے والوں کی کثرت ہے۔
چھٹی صفت : اختلاف کے وقت کتاب اﷲ اور سنت رسول کی طرف رجوع کرنے والے ہیں ، اﷲ کا فرمان ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا (النساء :59)
ترجمہ:اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اﷲ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اﷲ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اﷲ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔
اﷲ نے مومنوں کو اختلاف کے وقت اپنی طرف اور اپنے رسول کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے ، جب ہم اس صفت کو مسلمانوں میں تلاش کرتے ہیں تو نہ حنفی میں ملتی ہے ، نہ شافعی میں ، نہ مالکی میں اور نہ ہی حنبلی میں ، اگر کہیں یہ صفت ملتی ہے تو سلفیوں میں ملتی ہے۔
ساتویں صفت : اتفاق واتحاد کی دعوت دینے والے ہیں ، اﷲ کا فرمان ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران:103)
ترجمہ: اور تم سب لوگ مل کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور ٹکڑے ٹکڑے مت ہوجاؤ۔
سلفیوں نے ہمیشہ اﷲ اور اس کے رسول کی باتوں کی طرف لوگوں کو بلایا ہے اور یہی اتحاد ہے ، جو کتاب وسنت کے علاوہ اقوال رجال اور ملفوظات اکابرین کی دعوت دے وہ سراپا اختلاف اور دین سے دوری ہے بلکہ دین میں فرقہ بندی کرنا ہے اور اﷲ نے اس آیت میں فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے ۔
قرآن میں اور بھی بہت سے صفات ہیں جن کا ذکر طوالت کی وجہ سے نہیں کرپارہاہوں ، سمجھنے والوں کے لئے اتنے دلائل کافی ہیں ۔اب احادیث کی روشنی میں چندصفات پہ غور کرتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے تین زمانوں میں خیروبھلائی کی شہادت دی ہے ،اسی سبب ان زمانوں کے نیک لوگوں کو سلف صالحین کہا جاتا ہے ۔فرمان نبوی ہے :خیرُ أمتی القرنُ الذین یلونی . ثم الذین یلونہم . ثم الذین یلونہم . (صحیح مسلم:2532)
ترجمہ: سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہونگے۔
جو لوگ نبی ﷺ کی اتباع سلف صالحین کے منہج کے مطابق کرتے ہیں انہیں سلفی کہا جاتا ہے اور منہج سلف اختیار کرنے کا حکم قرآن سے بھی ہے جیساکہ اوپرقرآنی آیت گزری اورحدیث میں بھی ہے ۔ امت مسلمہ کے تہتر فرقوں میں بٹنے والی حدیث میں نجات پانے والی جماعت کی پہچان رسول اﷲ ﷺ نے بتلائی ہے : ما أَنا علَیہِ وأَصحابی(صحیح الترمذی:2641)
یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔
منہج سلف پر چلنے والی جماعت کی ایک عظیم پہچان کا ذکر کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا:
لا تزال طائفۃٌ من أمتی قائمۃً بأمرِ اﷲِ ، لا یضرُّہم من خذلہم أو خالفہم ، حتی یأتی أمرُ اﷲِ وہم ظاہرون علی الناسِ(صحیح مسلم:1037)
ترجمہ: میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ حق پر قائم رہے گا جو کوئی انہیں نقصان پہنچانا چاہے گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اﷲ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی طرح قائم رہے گا ۔
جب بھی سلفیوں پر ستم ڈھائے جاتے ہیں ،ان کی مخالفت کی جاتی ہے، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے ، برے القاب سے پکارا جاتا ہے تو یہی قیمتی فرمان محمدی موحدین کو تسلی دلاتی ہے کہ گھبراؤ نہیں یہ تمہارے ہی شایان شان ہے جس کی بشارت بزبان رسالت دی گئی ہے۔
یہ جماعت اختلاف کے وقت میں سنت کو تھامنے والے اور دین میں ہرقسم کی بدعت وخرافات سے اپنا دامن بچانے والی ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أوصیکم بتقوی اﷲِ والسمعِ والطاعۃِ وإن عبدًا حبشیًّا، فإنہ من یعِشْ منکم بعدی فسیری اختلافًا کثیرًا، فعلیکم بسنتی وسنۃِ الخلفاء ِ المہدیّین الراشدین تمسّکوا بہا، وعَضّوا علیہا بالنواجذِ، وإیاکم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ کلَّ محدثۃٍ بدعۃٌ، وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ(صحیح أبی داود:4607)
ترجمہ: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اور اپنے حکام کے احکام سننا اور ماننا ، خواہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ۔ بلاشبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا ، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں ، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا ، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا ، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا ، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
چراغ لے کر تلاش کریں اور مسلمانوں کا حال دیکھیں تو اکثر فرقوں میں بدعت کے انواع واقسام پائے جاتے ہیں اور سلفیت ہی ایک ایساخالص محمدی طریقہ ہے جس میں بدعت کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ غرباء کی نشانی بھی سلفیوں میں ہی پائی جاتی ہے ، فرمان نبوی ہے :
بدأَ الإسلامُ غریبًا، وسیعودُ کما بدأَ غریبًا، فطوبی للغرباء ِ(صحیح مسلم:145)
ترجمہ: اسلام غربت اور اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب اسی اجنبیت اور غربت کی طرف لوٹ آئے گا ۔ تو غربا ء کے لئے خوشخبری ہے۔
ایک دوسری روایت میں غرباء کی وضاحت بایں الفاظ آئی ہے ،نبی ﷺ فرماتے ہیں :
طوبی للغرباء ِ أناسٌ صالِحونَ فی أناسٍ سوء ٍ کثیرٍ ، مَنْ یَعصیہم أکثرُ ممَّنْ یُطِیعُہُمْ( صحیح الجامع:3921)
ترجمہ: اجنبیوں کے لئے خوشخبری ہو ، یہ کچھ نیک لوگ ہوں گے جن کے اطراف برے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوگی ،ان کی بات کو ٹھکرانے دینے والے قبول کرنے والوں سے بہت زیادہ ہوں گے ۔
اکثریت حق پر ہونے کا دعوی کرنے والوں کے لئے اس میں عبرت ہے ، اکثریت بالکل معیار نہیں ہے بلکہ بہت سارے نصوص سے معلوم ہوگیا کہ حق پرست کم ہوتے ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں ۔ ایک آخری صفت ذکر کرکے اسی پہ اکتفا کروں گا ۔
وَعَن مَالک بن أنس مُرْسَلًا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا: کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّۃَ رَسُولِہِ رَوَاہُ مالک فِی الْمُوَطَّأ
ترجمہ: مالک بن انس ؒ مرسل روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ? نے فرمایا :میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، پس جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، (یعنی) اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن کہا ہے ۔ (تخریج مشکاۃ المصابیح للالبانی:184)
رسول اﷲ ﷺ نے نجات پانے والی اور ہردور میں موجود رہنیوالی جماعت کی نشانی یہ بتلائی کہ وہ کتاب وسنت کو تھامنے والی ہوگی اور جو جماعت انہیں چھوڑ دے بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔کامل طور پر کتاب وسنت کو تھامنے کی صفت بھی سوائے سلف اور سلفی کے اور کہیں موجود نہیں ۔
مذکورہ بالا نصوص کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم ہوتا کہ یہ اوصاف سلف صالحین کے ہیں اور سلف کی پیروی کرنے والیبالفاظ دیگر سلف کے یہ اوصاف کامل طورپر محض سلفیوں میں موجود ہیں ، ان کا ایک دوسرامشہور نام اہل الحدیث بھی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر میرا یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی جماعت دین اسلام کے لئے مخلص ہے ، وہ قرآن وحدیث پر چلنے کا دعوی کرتی ہے اور وہ اپنے دعوی میں سچی اور پکی ہے تو اس جماعت کو بھی سلفی ، اہل الحدیث اورمحمدی کہہ سکتے ہیں مگرکیا آپ کو معلوم ہے کہ اہل تقلیداورخاص مسلک کی تقلیدکرنے والے خود کومحمد ? کی طرف ، صحابہ کی طرف اور محدثین کی طرف نسبت کرکے محمدی، سلفی اور اہل الحدیث کیوں نہیں کہلواتے ؟ کیونکہ وہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے دور ہیں، بفرض محال وہ دعوی بھی کریں کہ ہم قرآن وحدیث کے ماننے والے ہیں تو وہ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں ۔ سبھی جانتے ہیں کہ دعوی بغیر دلیل کے باطل ہے۔
آخری بات پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہمارے لئے سلفی یا اہل الحدیث کی نسبت ضروری نہیں تھی،اﷲ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے یہی نام ہمارے لئے کافی ہے مگر امت مسلمہ میں فرقہ بندی کے سبب تعارف کے طور پر خود کوخوارج، روافض ، قدریہ، مرجیہ ، جبریہ ، جہمیہ اورمعتزلہ وغیرہ سے الگ کرنے کے لئے اس کی اشد ضرورت پڑگئی ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ سلف صالحین کی اقتدا کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی اتباع کرنے میں کتاب وسنت کے نصوص (عقیدہ وسلوک ، عبادات ومعاملات)کو جس طرح سلف نے سمجھا ہے اسی طرح سمجھیں گے یعنی دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے سلف ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔


 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 315 Articles with 311498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.