رویے ہمارے پیغمبر ﷺ کے

وہ ذات جو دو جہانوں کی بادشاہ ہے اس کا اپنے اردگرد لوگوں کے ساتھ رویہ کیسا تھا اور آج ہمارا رویہ اﷲ کی مخلوق کے لئے کیسا ہے

بلاشبہ کائنات انسانی میں نبی کریم ؐ سے زیادہ معتبر ، مصلح انسانیت کے لئے فکر مند اورکمزوروں ،لاچاروں کی ہمدرد ہستی کوئی نہیں ہے ،پتھر کھاکر دعائیں دینا ،کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت کرنا ، قتل کی کوششیں کرنے والوں کو بلاجھجھک معاف کردینا،پیٹ پر پتھر باندھ کر دوسروں کو کھانا کھلانا وغیرہ آپؐ کی ذات بابرکات ہی کا خاصہ تھا ،آپؐ کی باتیں تھیں کہ پھول جڑھتے تھے ،سسکتی انسانیت کوسانسیں ملتی تھیں ،ٹوٹے دلوں پر جیسے مرہم رکھا جاتا تھا ،زمانوں کے الجھے مسئلے چٹکیوں میں یوں حل ہوتے کہ جیسے کوئی مسئلہ ہی نا ہو ، لوگ جو ق در جوق اپنا روحانی وجسمانی اور اخلاقی علاج کروانے آتے اور شفا یاب ہوکر پلٹتے بلکہ ایسے پارس بنتے کہ پھر ساری زندگی دوسروں کو سیراب کرتے ، جو آپ ؐ کے پاس آتا آپؐ کے اخلاق کا گرویدہ ہوجاتا ایک موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا……
’’میں فقط اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقِ حسنہ کو تکمیل کی منزل تک پہنچا دوں۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
’’میں تو حسنِ اخلاق مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
رسول اﷲؐ کے اخلاق کی بہترین تصویرحضرت عائشہؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: ’’آپؐ کاخلق، قرآن تھا۔‘‘
نبی کریم ؐ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا……
’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اسی کاہے جس کااخلاق سب سے اچھاہے۔‘‘
رسول اﷲؐ خودپیکر اخلاق حسنہ تھے زندگی کاہرپہلو اخلاق کے سانچے میں ایسے ڈھلا ہوا تھا جیسے حضرت عائشہؓ نے فرمایا،’’آپؐکاخلق قرآن ہے۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲؐ کسی کومعطون نہ ٹھہراتے کوئی غلط سلوک کرتا تو بدلہ نہ لیتے،بلکہ برائی کاجواب نیکی سے دیتے،زیادتی کرنے والے سے درگزر فرماتے کسی مسلمان پرکبھی لعنت نہ کی ، کسی سے ذاتی معاملے پرانتقام نہ لیا،کسی کی جائز درخواست رد نہ فرمائی،مجلس میں پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے،نہایت آرام سے ٹھہر ٹھہر کر بات فرماتے،ہمیشہ خوش رہتے اورچہرے پر مسکراہٹ رہتی،مخالف دوست،امیر غریب،چھوٹے بڑے،سب سے حسنِ سلوک کامظاہرہ فرماتے ،صلح ہو یاجنگ رویہ مشفقانہ ہوتا تھا۔طبعاََ فیاض،سخی،خوش مزاج اور نرم دل تھے،سامنے کسی قسم کاکھاناآتاتناول فرمالیتے اور نقص نہ نکالتے ،نیک کام گویاآپؐکی جبلت میں شامل تھے ،غیر ضروری باتیں فرماتے نہ کسی کے عیب ظاہر فرماتے،زور سے بولتے نہ اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے بلکہ زیر لب تبسم فرماتے ۔
جو بات خلاف مزاج ہوتی اس سے تامل فرماتے صرف وہ کام کرتے جس سے ثواب کی امید ہوتی ،مسافر کاہر طرح خیال کرتے بلکہ دوسروں کوفرماتے کہ جب تم کسی حاجت مند کو پاؤ تواس کی مدد کرو،مدح وخوشامد کوپسند نہ کرتے بلکہ حد اعتدال میں ہی تعریف قبول کرتے،کسی کی گفتگو کے درمیان کلام نہ کرتے اگر کوئی حد سے تجاوز کرتاتو منع کر دیتے یامجلس سے تشریف لے جاتے تاکہ بات قطع ہو جائے،کسی کی عیب جوئی کرنے والے کو پسند نہ کرتے ،تکلف پسند نہیں تھے جانور پر سواری کرتے تودوسرے کو پیچھے بٹھا لیتے جب مجلس میں تشریف لاتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ لوگ ان کے لئے کھڑے ہوں بلکہ فرماتے میرے لئے کھڑانہ ہوا کریں جس طرح عجمی کرتے ہیں میں اﷲ کابندہ ہوں جس طرح بندے کھاتے ہیں میں کھاتا ہوں جس طرح بندے بیٹھتے ہیں میں بیٹھتا ہوں،اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو تشریف لے جاتے اوربے تکلفی سے کھانا تناول فرماتے،مجلس میں اس طرح تشریف رکھتے کہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ رسول اﷲؐ کون ہیں ،گفتگو اس قدر بامعنی ہوتی کہ الفاظ تک گنے جاتے، نفاست کاخیال کرتے،میلے کچیلے برتن میں کھانا نہ کھاتے۔شہد آپؐ کوپسند تھا سبزیوں میں کدّو سے رغبت تھی، لباس بھی انتہائی سادہ تھاالبتہ صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے پیوند سے عار نہ کرتے،ریشمی کپڑا مردوں کے لیے ناپسند فرماتے،رہائش بھی انتہائی سادہ تھی معمولی سا سامان رکھتے ایسا بھی ہواکہ کئی کئی دن گھر میں آگ نہ جلی اور صرف کھجوروپانی پر گزارہ کیا۔
دنیاوی آسائشوں سے قطعاََ رغبت نہ تھی ،جسم،منہ اورلباس کے معاملے میں ہر جگہ صفائی کاخیال فرماتے۔حضرت عائشہؓفرماتی ہیں آپؐہر وقت مسکراتے رہتے اور لوگوں میں سب سے زیادہ کریم وحلیم تھے حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں میں نے آپؐ سے زیادہ شفیق نہیں دیکھا،اپنے عزیزوں اور قرابت داروں کاخیال فرماتے۔
عفو ودرگزر،تحمل وبردباری،کشادہ قلب اور قوت برداشت میں آپؐ کا اعلیٰ مقام تھا ،رفقاء سے شفقت کمال درجہ کی تھی ،جب کوئی شخص آپؐسے مصافحہ کرتا تواس کاہاتھ چھوڑنے میں پہل نہ کرتے،ہرایک سے خندہ پیشانی سے ملتے ،اپنے صحابہ ؓ سے مزاح بھی فرما لیتے تھے اور بے تکلف ہو کر گفتگوبھی فرماتے، صحابہؓ کے بچوں کو پیار سے گود میں لے لیتے،کبھی اپنی بڑائی کااظہار نہ فرماتے،نام ہمیشہ مکمل اور عزت سے لیتے ،ایسے الفاظ ادا نہ فرماتے جس سے کسی کو تکلیف ہو، دوستوں کی خطا اورلغزشوں سے صرف نظرکرتے ،دوسروں کو نصیحت اس پیرائے میں کرتے کہ ناگوار محسوس نہ ہو جھوٹے شخص سے شدید نفرت فرماتے،دشمنوں کے ساتھ بھی فیاضی سے ملتے۔
رسول اﷲ ؐحقوق العباد کا بہت زیادہ خیال فرماتے،عام معاملات میں اپنے آپ کو دوسروں سے افضل نہ گردانتے رسول اﷲؐ ایک دفعہ اپنے رفقاء کے ہمراہ جنگل میں قیام پذیر تھے تو سب کو ایک ایک کام پر مقرر فرمایا اور اپنے لئے یہ کام پسند فرمایا کہ میں جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتا ہوں اپنے ماتحتوں سے بھی آپؐ کاسلوک مثالی تھا،حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں دس سال تک رسول اﷲؐ ؐکی خدمت میں رہا،مگر آپ ؐ نے کبھی مجھ سے سخت بات نہ کی،نہ جھڑکا،غلطی پر ملامت کی بجائے نرمی سے سمجھاتے ساری عمر کسی غلام یاعورت کو نہیں مارا۔
آپ ؐ ایک ایسے شفیق استاد،رحمدل ومہربان،مصلح ومرّبی تھے جس کانمونہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں اس طرح نظر آتا ہے کہ ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیالوگ اس پر پل پڑے۔رسول اﷲ ؐ نے فرمایا اسے چھوڑ دوجہاں اس نے پیشاب کیا ہے پانی سے دھو دوپھر فرمایا تم آسانی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لیے۔
رسول اﷲ ؐتیز رفتار تھے یہاں تک کہ ساتھ والوں کو دوڑ لگاناپرتی مگر حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ اگر کمزور ہمراہ ہوتا تو رفتار سست فرمالیتے تھے حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے فرمایاکہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔
یہ نبی کریم ؐ کے مبارک و مطہر اخلاق کی ادنیٰ سی جھلک تھی اب ہم اپنا محاسبہ کریں اور سوچیں کہ ہم جو نبی کریم ؐ سے عشق و محبت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کیا ہماری زندگی میں کہیں نبی کریم ؐ والے اخلاق کی کوئی جھلک ہے ،ہمارا رویہ اپنے گھروالوں ،عزیز رشتہ داروں ،محلے داروں اور دوستوں کے ساتھ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ آپؐ کا تھا اگر نہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے صرف دعوئے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عملی طور پر نبوی اخلاق اپنانے سے ہی ہمارے مسائل حل ہونگے اﷲ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
٭٭٭٭٭

سفیان علی فاروقی
ریگزار قلم

Arqam Farooqi
About the Author: Arqam Farooqi Read More Articles by Arqam Farooqi: 28 Articles with 31344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.