"خطاب کی دعوت سے زیادہ مؤثر کردار کی دعوت ہوتی ہے"۔
اس فکرے کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں بعد نماز فجر ایک ایسے شخص سے
ملاقات ہوئی جن کے اسلام کوکچھ سال ہوئے ہوں گے۔گویا وہ اسلام میں نووراد
ہیں۔اور ظاہری
وضع قطع میں ابھی تبدیلی نہیں آئی ہے اور نہہی انہوں نے اپنے اسلام کو مکمل
طور
پر ظاہر کیا ہے،ان کا نام اسلامی نام "محمد" ہے۔اللہ تعالی ان کے لیے
آسانیاں پیدا فرمائے!
انہوں نے اپنے اسلام لانے کی جو وجہ بیان کی اور اس سے جو کچھ سیکھنے کو
ملا وہ بہت
اہم اور مؤثر ہے۔قبل اس کے کہ اس کے قبول اسلام کی وجہ کو بیان کیا جائے
ذیل میں چند ممکنہ اسباب ذکر کیے جاتے ہیں:
• اسلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کوئی شخص اس کی تعلیمات سے قریب ہوتا
ہے،اور اس میں کمیوں اورکوتاہیوں کو تلاش کرتا ہے،اب ہوتا یہ ہے کہ وہ اس
کا نقصان تو نہیں کر پاتا ہے اور نہ ہی کمیاں اسے ہاتھ آتیہیں،بالآخر قبول
اسلام
کے ذریعے وہ اپنا فائدہ کرلے جاتا ہے اور اسلام کی اچھائیاں اسے اپنا اسیر
بنا لییں ہیں۔
• یہ قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے سبب اس
کی تعلیمات سے قریب ہوتےہیں،اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں
ان منفی رجحانات کی وجہ کیا ہے،اور پھیلائی جارہی خبروںکی سچائی کیا ہے۔
• اس طرح وہ اسلام کی اس آفاقی حقانیت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ پاتے کہ
دنیا وآخرت کی فوزوفلاح کا مدار دیناسلام پر ہی ہے۔
مذکورہ دونوں قسم کے اسلام لانے کا سبب اسلام کا ذاتی مطالعہ ہے،گرچہ
اسلامی تعلیمات سے قریب ہونے وجہدونوں کے نزدیک الگ ہے۔
• اسلام قبول کرنے والوں میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں کہ ان کا دل کسی مسلم
لڑکا/لڑکی پر آگیا اور وہ اسلام میںداخل ہوگئے/گئیں۔
• کچھ افراد کے ایمان لانے کا سبب دعاة الی اللہ کی ذاتی کوششیں ہوتی ہیں۔
• بعض نومسلم ایسے ہیں جنہیں ایک صحیح العقیدہ مومن کے کردار اور اس سے بے
لوث تعلقات نے اس میںایمان کی روح ڈال دی۔
• کچھ لوگ قدرتی نیچر اور نظام کائنات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسلام میں
داخل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اس طور پر دیکھیں تو ایمان لانے کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں۔البتہ ہمارا
موضوع سخن جن باتوں سے متاثر ہوکر اسلام لایا وہ ہے کردار کا جادو۔وہ اپنے
اسلام لانے کی وجہ بیان کرتےہوئے کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ میں اہل اسلام
سے فورا مرعوب ہوگیا،یا اسلام کی باتیں مجھے اچھی لگیں اور میں نے کلمہ پڑھ
لیا۔بلکہ قبول اسلام سے قبل کی بات ہے کہ میرے پرانے اور قریبی تعلقاتیوں
میں ایک مسلم بھائی[عبدالحمید]ہیں۔ دن ورات کے تقریبا دس گھنٹے ان ہی کے
ساتھ گزرا کرتے تھے۔ اس دورانیے میں ان کا گفتار وکردار،عادات واطوار میری
نگاہوں کے سامنے ہوتا تھا۔ ان کی زندگی میں میرے لیے سب سے زیادہ جو بات
باعث دلچسپ تھی وہ یہ کہ ان کو میں نے کبھی پریشان حال نہیں دیکھا۔ایسا
نہیں کہ وہ بہت مالدار تھے،ان کی آمدنی دیگر کی نسبت زیادہ تھی،ایسا کچھ
بھی نہیں تھا۔بلکہ مادیت کے موجودہ دور میں ان کے اندر دولت کی زیادہ حرص
وہوس کا نہ ہونا میرے لیےحیرت انگیز بات تھی۔ان کو حصول رزق کے لیے کبھی
سرگرداں اور پریشان حال نہیں پایا۔جب کہ اسی جگہ تجارت کی منڈی میں بہت سے
سرمایہ دار کساد بازاری کا رونا روتے تھے۔ان کے اندر کا یہی وہ
سکون،اطمینان،قناعت اور صبر تھا کہ جس نے مجھے اسلام سے قریب کردیا اور میں
اس بات کی تلاش کےلیے بےچین سا ہوگیا کہ آخر وہ کون سی بات ہے جس نے
عبدالوحید بھائی اس قدر پرسکون اوراطمینان بخش زندگی عنایت کی ہے؟؟؟
اسی طرح تقریبا پانچ سال میں اہل اسلام کے کردار کا مطالعہ کرتا رہا۔بالآخر
اللہ تعالی کی توفیق سے میں مشرف بہ اسلام ہوگیا۔یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی
ہےکہ اس لمبے عرصے میں جب میں ان کےساتھ یومیہ دس سے بارہ گھنٹے گزارتا
تھا،انہوں نے کبھی اسلام کی دعوت پیش نہیں کی،البتہ ان کی پرسکون زندگی نے
مجھ میں یہ جستجو پیدا کردی کہ میں اس کے سربستہ راز کو معلوم کروں ،جو
انہیں اسلا م کی بدولت حاصل تھی اور میں بھی اسی زندگی کا متلاشی تھا۔
مزید وہ کہتے ہیں کہ مجھے اب کسی بات کا ڈر خوف نہِیں۔میں اپنی زندگی سے
بہت مطمئن ہوں۔میں جب اپنے گھر سے نکلتا ہوں تومجھے اس بات کا بالکل اندیشہ
نہیں ہوتا کہ میں گھر پہنچ پاوں گا بھی یا نہیں۔
ان کا یہ ایمانی جذبہ اللہ تعالی کے اس قول کی یاد دلاتا ہے، جس میں اعمال
صالحہ پر جس پرسکون اور سعادت مند انہ زندگی کا ذکر ہے اور بدلوں کا وعدہ
ہے،وہ وعدہ صرف اہل ایمان کےلیےہے۔ ارشاد باری تعالی
ہے:ﭐﱡﭐﱷﱸﱹﱺﱻﱼﱽﱾﱿﲀﲁﲂﲃﲄﲅﲆﲇﲈﲉﲊﱠ النحل: ٩٧
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت،لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقینا نہایت
بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں
ضرور ضرور دیں گے۔
گویاکوئی غیر ایمان والا نیکیاں کرتا ہے تو وہ اسے کچھ فائدہ نہ دیں گی۔اس
طور پر دیکھیں تو ایمان کی نعمت انسان کی زندگی میں سب سے بڑی نعمت ہے،اور
اس نعمت کے بعد کسی کی زندگی میں صبروشکر اور قناعت آجائے پھر اس کی دنیوی
زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے۔اور آخرت اس کی منتطر ہوتی ہے کہ نیکیوں کا بدلہ
اہل ایمان کوہی ملنا ہے اور وہ رب ذوالجال کی بنائی ہوئی جنت ہے۔اللہ تعالی
ہم سب کا نصیبہ بلندکرے اور خیر کی توفیق کے ساتھ خاتمہ بھی اچھا کرے۔
|