سر زمین پاک و ہنداور اسلام

 اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے لوگوں کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ اہل ہند کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے بھی بیان ہوا۔ آپ ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ’’یہ کون لوگ ہیں جو ہند کے مرد معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ (سیرت ابن ہشام، ج:2/ ص:593) ہند کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اﷲ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا، اس میں ادرک تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنے اصحاب رضی اﷲ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے حصہ دیا‘‘۔نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمدحمید اﷲ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ ﷺ کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ’’ ظفار‘‘ میں اس کا انتقال ہوا۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے۔’’ زین الدین المعبری‘‘ کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ ‘میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔اٹھارویں صدی کے سلسلہ چشتیہ کے بزرگ اور عظیم مورخ ’’غلام علی حسین آزاد بلگرامی ‘‘نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندستان‘‘ اور ’’شمامۃ العنبر في ما ورد من الھند من سید البشرﷺ‘‘ تحریر فرمائی ہیں۔انہوں نے’’ سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ میں کئی صفحات پر مشتمل سر زمین پاک و ہند کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ’’ حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے ہندوستان میں اترے ۔ان پر وحی کا آغاز بھی یہاں سے ہی ہوا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی ۔ نور محمدی (ﷺ)حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا۔اس طرح محمد رسول اﷲ ﷺ کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے‘‘۔ صحیح احادیث میں حضور ﷺ نے غزوۃ الہند کی بشارت بھی ارشاد فرمائی ہے۔اسلامی اصطلاح میں غزواتِ ثابتہ یا واقعہ سے مراد وہ جنگیں ہوتی ہیں جو رسول اکرمﷺکی زندگی میں وقوع پذیر ہوئیں۔ بلحاظِ زمانہ ان کی دوسری قسم غزواتِ موعودہ ہے۔یہ ان غزوات کو کہا جاتا ہے جو رسول اﷲﷺکی زندگی مبارک میں وقوع تو نہیں ہوئے لیکن آپﷺنے ان کی پیشن گوئی فرمائی ہے۔عہد نبوی کے دوران صحابہ کرام سرکارِ دو عالمﷺ کی قیادت میں غزوات میں شرکت کا بے پناہ شوق اور جذبہ رکھتے تھے۔ ایسا شوق، سچے ایمان کا تقاضا اور حقیقی حب رسول ﷺ کی علامت تھی۔ لیکن نبی اکرمﷺکے مبار ک زمانے کے بعد، جب آپﷺکی قیادت میں غزوات کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی نہ رہا تو سلف صالحین ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کم از کم آپﷺکی پیشین گوئی والے کسی معرکہ میں شرکت کی سعادت ضرور حاصل کر سکیں ۔ہند کے

بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا’’زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے‘‘۔ (المستدرک للحاکم: رقم الحدیث :3954)‘‘ احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوہ الہند کا تذکرہ ہمیشہ ہوتا رہا ۔‘‘ ’’غزوہ ہند‘‘ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیش گوئِیوں میں ان غزوات موعودہ کی ذیل میں آتا ہے جن کی فضیلت کے متعلق نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے متعدد احادیث مروی ہیں۔حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند کے بارے میں اپنی اسناد سے تین احادیث نقل کی ہیں، جن میں سے دو حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ اور ایک حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے ہم سے غزوہ الہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے۔ اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو سب سے بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو آگ سے آزاد کیا ہوا ابو ہریرہ ہوں گا۔ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث :6831) میری امت میں سے ایک لشکر کو سندھ اور ہند کی طرف بھیجا جائے گا۔ پس اگر میں نے اس کو پایا اور اس میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ہے اور اگر میں لوٹ آیا تو میں وہ ابوہریرہ ہوں جس کو اﷲ آگ سے آزاد فرمادے گا۔ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:7648) نبی کریم ﷺکے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ وہ ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ آور ہوگا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا(مسند امام احمد بن حنبل)۔امام بخاری نے التاریخ الکبیر، امام بیہقی نے اپنی دو کتابوں سنن کبریٰ اور دلائل النبوۃ، امام حاکم نے المستدرک، امام طبرانی نے المعجم الاوسط، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، امام جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع، امام مناوی نے فیض القدیر، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام، امام خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد، اور امام ابن کثیر نے البدایۃ میں غزوۃ الہند کا خصوصی ذکر کیا ہے۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218183 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More