ایک کمپنی کا وطیرہ تھا وہ کسی بھی بڑے مینجر کو نوکری کی
تعیناتی کا خط اپنے مالک کے ہاتھوں دلوایا کرتی ایک نئے ایچ آر ہیڈ کو چنا
گیا نیچے کے عملے اس مینجر کی سفارش کی اور مالک کے ساتھ ایک لنچ رکھوا دیا
سی ای او نے نئے مینجر کو اپوآئینٹمنٹ لیٹر دینا تھا اس خط میں لکھا تھا کہ
آپ ہمارے ایچ آر ڈیپاٹمنٹ کے ہیڈ بننے والے ہیں۔کھانے سے پہلے سوپ منگوایا
مالک اور نیا مینجر جسے خط ملنے والا تھا اس کے لئے سوپ منگوایا گیا مینجر
نے شروع کرنے سے پہلے اپنے سوپ میں نمک اور مرچ کا چھڑکاؤ کیا مالک نے اسے
کھانا مکمل ہونے کے بعد کہا آپ تشریف لے جائے میرا ڈیپارٹمنٹ آپ سے رابطہ
کرے گا۔کمپنی کے مالک نے دفتر آمد کے بعد اپنے جی ایم کو بلایا جس نے خوشی
سے کہا کہ ہم ایک اچھا افسر لائے ہیں اس پر جی ایم نے مالک کو مبارک باد دی
اور کہا ہم بڑے خوش ہیں کہ ہم نے آپ کو ایک اچھا مینجر دیا ہے۔مالک نے کہا
نہیں اتفاق سے میں نے اسے خط نہیں دیا اور وجہ بیان کی کہ وہ کیسا ایچ آر
مینجر ہے جس نے سوپ کا ذائقہ چکھے بغیر اس میں نمک اور مرچ ڈالنا شروع کیا
میں نے اس وجہ سے اسے نوکری آفر نہیں کی۔جی ایم نے کہا کہ اتنی چھوٹی سی
بات پر آپ نے نکال دیا سی او ای نے کہا اگر آپ بھی اسے چھوٹی بات سمجھتے
ہیں تو پھر آپ بھی فارغ وہ کیسا فرد ہے جو کسی چیز کو جانے بغیر فیصلہ کرتا
ہے۔
قارئین یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بہت سے فیصلے بغیر سوچے سمجھے کرتے ہیں ایک
کمپنی کے شوؤن الموئظفین کے سربراہ کیی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اس نے
کمپنی اچھے لوگ لے کر آنا ہوتے ہیں اگر اسے انسانوں کی پرکھ کا علم نہ ہو
تو وہ کس طرح ایک کوالٹی مین پاور اکٹھی کرے گا۔
میں نے اپنی ساری زندگی ملازمت کرتے ہوئے گزاری اچھے برے لوگوں سے سامنا
کرنا پڑا ایسے لوگ بھی دیکھے جنہں قومیت کے حوالے سے نفرت ہوتی تھی ایک
کمپنی کے جی ایم کو پاکستانیوں سے نفرت تھی سعودی مالک نے ہمیں بھرتی تو کر
لیا جاب آفر بھی دے دی مگر شروع دن سے ہی اس کی طبیعت پر ہم بوجھ رہے کوئی
تین چار ماہ بعد پتہ چلا موصوف خود ایک نمبر کے چکری ہیں اور اپنے نیچے اس
بندے کو لانا چاہتے ہیں جو بلکل یس مین ہو آخر کار وہ دام میں آ گئے اور
خود ہی بڑے وہ ہو کر نکلے۔لیکن پھر بھی جاتے جاتے ہمیں گھسیٹ لے گئے۔میں نے
زندگی میں بڑی پوزیشنوں پر کام کیا ہے کسی کو نوکری سے نکالانا میرے لئے
بڑا مشکل ہوتا ہے اس کی بجائے غم و غصے کا برملا اظہار کر کے دل کو تسلی دے
لیتا میرے اپنے باس مختلف لوگ رہے جتنے چیخنے چلانے والے اچھے رہے اس کے
مقابلے میں میسنے ٹھنڈے مزاج والے بڑے خطر ناک واقع ہوئے۔
شور شرابہ کرنے والے کا غصہ ایک دو دن سے زیادہ نہیں ہوتا جب کے ایسے لوگ
جو اندر ہی اندر آپ سے دشمنی کرتے ہیں ان کا معاملہ اﷲ پر چھوڑیں ایسے لوگ
خطر ناک ہوتے ہیں۔
اس کلپ میں دکھایا جانے والا مالک صرف اس لئے ایچ آر مینجر کو نوکری نہیں
دے رہا تھا کہ یہ شخص رکھے گا بھی بغیر تحقیق کے اور نکالے گا بھی بغیر
جانچ پڑتال کے۔
میں اپنے نوجوان مینجر کو بھی یہی کہوں گا کہ نوکری دیتے وقت شخص کو پرکھیں
تین مہینے کے عارضی وقت میں اسے مشکل ٹاسک دیں اگر چھ مہینے بعد آپ اس کی
شکائت لے کر جی ایم کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کو نالائق سمجھے گا اس لئے کہ
آپ نے نوے دن میں اس بندے کو نہیں جانچا کوئی شخص ایک ہفتے سے زیادہ اپنے
آپ کو چھپا کر نہیں رکھ سکتا اگر وہ لیٹ کمر ہے تو چوتھے روز لیٹ آنا شروع
کر دے گا اگر وہ چھٹی کے ختم ہوتے ہی سیٹ چھوڑے گا تو بھی ہفتے دس دن میں
پتہ چل جائے گا۔لہذہ کسی کو نوکری دینے میں جانچ پڑتال کے معیار قائم کریں
آئیندہ نوے روز میں اسے پرکھیں۔کمپنیوں میں نئے کارکنوں کی آمد پر اپنے
ادارے کے بارے میں بتائے پالیسی پروسیجر سے آگاہ کریں۔۔کسی بھی ادارے میں
استعفی دینے والے کارکنوں کا انٹرویو کریں کسی اور سے کرائیں کہ کیا وجہ ہے
کہ آپ کا کارکن آپ کو چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے۔میں نے دیکھا ہے بعض اوقات
ملازمین کسی ایک شخص کے روئے کی وجہ سے نوکری چھوڑ دیتے ہیں ایسے میں باہمی
رضا مندی سے کسی دوسری برانچ میں ٹرانسفر کر دیں۔
میں خود بھی ایک سخت مزاج مینجر تھا لیکن یہ بات یاد رکھئے سختی خالی کچھ
بھی نہیں ہے اگر آپ کے ہاتھ ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا اختیار کچھ
انعام دینے کی قوت ہے تو سختی کے ساتھ اسے اتعمال کیا جائے۔
خالی سختی تو کوئی بھتیجا بھانجہ تو کیا بیٹا بھی برداشت نہیں کرتا۔
جس کمپنی میں نوکری چھوڑ کر آیا تھا وہ میرے جانے کے بعد دھڑام سے نیچے آئی
لوگ سیدھی سی بات مانگتے ہیں اگر کام اچھا کیا تو اس کا معاوضہ لفظوں میں
نہیں ورکر کی جیب گرم ہونے کی صورت یں ہوتا ہے۔میرا وطیرہ تھا کماؤ اور
کھاؤ اگر ٹارگٹ پورا ہے تو یہ کیش لو آپ حیران ہوں گے کہ تنخواہوں کے ساتھ
کوئی پانچ لاکھ ریال میرے بس میں ہوتا تھا کہ پرفارمنس پر عمال کو دئے
جائیں۔چائے لانے والے کی نوکری کے پروسس لکھ کر دئے تھے اور بنیادی شرائط
بھی لکھ کر دے دی گئیں تھی کہ کسٹمر کے آنے کے بعد تین منٹ میں آپ نے اسے
پوچھ لینا ہے کہ چائے کافی چاہئے یا نہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفتروں میں مہمان سامنے بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی چائے
کا پوچھنے نہیں آتا ایسے انتظامات پاکستان میں بہت کم نظر آتے ہیں۔میں نے
یہ بھی دیکھا ہے کہ مالکان کی اپنی زندگیاں تو بہت بہتر ہو جاتی ہیں لیکن
ملازمین کی حالت زار بد سے بدتر ہوئے جاتی ہے۔دوپہر کے وقت ریڑھیوں پر کھڑے
ورکر جب کھانا کھاتے نظر آتے ہیں تو کمپنی کا پتہ چل جاتا ہے۔اسی طرح
ملازمین کو لے جانے والی ٹرانسپورٹ ناپید ہے۔
ہمیں ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نظر رکھنی ہو گی
|