نیوزی لینڈ کے شہر ’’ کرائسٹ چرچ‘‘ میں جمعہ 15 مارچ کو
ایک متعصب عیسائی دہشت گرد نے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس
بد بخت نے نماز جمعہ کے وقت مسجد میں داخل ہوکر براہ راست فائرنگ کرکے 50
افرادکو شہید کردیا۔ شقی القلبی کی انتہا یہ ہے ؛ یہ خبیث انسان اس قبیح
فعل کے سر انجام دینے سے پہلے باقاعدہ طور پر اپنے فیس اکائونٹ پر اس کی
اطلاع دیتا ہے اور پھر اس حملے کی پوری کارروائی براہ راست نشر بھی کرتا ہے۔
یہ بہت خوفناک مناظر تھے ؛ بالکل کسی تھری ڈی گیم کی طرح؛انسان شکار ہورہے
تھے؛ اور انسان نما درندہ شکار کررہا تھا۔ اس معلون کی ہمت دیکھیے کہ اس نے
پہلے ایک دفعہ فائرنگ کی، باہر چلا گیا، اس کے بعد دوبارہ اندر آیا اور جو
زخمی اٹھنے کی کوشش کررہے تھے ؛ ان کو دوبارہ سروں پر گولیاں ماریں؛ ایک
خاتون کو پہلے دور سے گولی مار کر گرایا اور پھر اس کے قریب جاکر سر میں
گولیاں ماریں۔ وحشت و سفاکیت کا یہ کھیل قریباً 15 سے 16 منٹ تک جاری رہا۔
نیوزی لیند کی پولیس اور انتظامیہ بہر حال قابل تعریف ہیں، کہ انہوں نے نہ
صرف یہ کہ فوری ایکشن لے کر اس مجرم کو گرفتار کیا بلکہ نیوزی لینڈ کی
خاتون وزیر اعظم J سنداآرڈن نے فوری طور پر ، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس حملے
کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے غم زدہ خاندانوں کے
ساتھ اظہار ِ یکجہتی کیا؛ ان کے گھروں پر جاکر اظہار ِ افسوس کیا؛ اور
مسلمان کمیونٹی کو نیوزی لینڈ کے اپنے شہری قرار دے کر ان کے زخموں پر مرہم
رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اب ہم اس واقعے کا کچھ تفصیل سے جائرہ لیں گے ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ
اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے؟ جواب ہے کہ نہیں ! یہ اپنی نوعیت کا پہلا
واقعہ نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اتنا بڑا واقعہ کبھی نہیں ہوا تھا لیکن پہلا
واقعہ بہر حال نہیں ہے۔ آپ میں سے کس کس کو مروہ شیر بینی یاد ہے؟
’’مروہ شیر بینی ‘‘ مصر نژاد جرمن خاتون ، جنہیں ایک متعصب عیسائی انتہا
پسند نے بھری عدالت میں پولیس کے سامنے قتل کیا۔ بات یہ تھی کہ مروہ
شیربینی اپنے شوہر اور تین سالہ بیٹے کے ساتھ جرمنی میں رہائش پذیر تھی؛ اس
کا پڑوسی ’’الیکس‘‘ نام کا ایک متعصب اور قوم پرست شخص تھا جو کہ مروہ کو
حجاب میں دیکھ کر فقرے کستا اور اس کو گالیاں دیتا تھا۔ ایک دن مروہ اپنے
بیٹے کے ساتھ پارک میں موجود تھی کہ الیکس وہاں آیا اور حسب ِ معمول مروہ
کو گالیاں دیں، مروہ اور اس کے شوہر نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر ایلکس اپنے ساتھ چاقو لے کر گیا اور دورانِ
سماعت اچانک اس نے مروہ پر حملہ کردیا، مروہ اس تین ماہ کی حاملہ تھی، سفاک
قاتل نے اس پر چاقو کے اٹھارہ وار کیے، مروہ کا شوہر اپنی بیوی کو بچانے کے
دوران چاقو کے وار اور پولیس کی گولی لگنے سے زخمی ہوا۔ لیکن شرم ناک بات
یہ تھی کہ جس پولیس نے مروہ کے نہتے شوہر پر گولیاں برسائیں ، اس نے مسلح
درندے ایلکس پر ایک بھی گولی نہیں چلائی ۔ وجہ؟؟ وجہ صرف یہ کہ وہ گوری
چمڑی والا تھا، عیسائی تھا۔ اس لیے !
مروہ کے واقعے پر پوری دنیا میں خاموشی چھائی رہی، وہ مغربی میڈیا جو سوات
میں ایک لڑکی پر کوڑے لگنے کی جھوٹی ویڈیو کا ڈھنڈورہ پیٹتا رہا، وہ مغربی
میڈیا جسے ایران میں ایک عورت پر پھانسی پر تکلیف ہورہی تھی؛ اسے بھری
عدالت میں یہ قتل نظر نہ آیا۔ مروہ شیر بینی کا واقعہ اس وقت میڈیا پر
آیا جب اس کا جسدِ خاکی مصر پہنچا اور لاکھوں لوگوں نے اس کی شہاد ت پر
مظاہرہ کیا۔
پورے یورپ، بالخصوص فرانس اور جرمنی میں مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں
کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اکثر اوقات مساجد کو آگ لگا دی جاتی ہے، کبھی
نمازیوں پر حملہ کیا جاتا ہے، کبھی مسجد میں پیٹرول بم پھینک دیے جاتے ہیں
؛ ایک رپورٹ کے مطابق صرف جرمنی میں ، 2015 میں75 مساجد پر حملے کیے گئے ،
اور 2016 میں یہ تعداد 91 تک پہنچ گئی۔2017 میں مساجد اور مسلمانوں پر کم و
بیش 950 حملے کیے گے۔ مسلمانوں پر حملوں میں جرمنی کے ساتھ ساتھ فرانس اور
کینیڈا بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، اس کے علاوہ برطانیہ میں بھی آئے روز
ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان حملوں میں ہر قسم کے حملے شامل ہیں یعنی
مساجد پر حملہ، نمازیوں پر حملہ، مسلمانوں پر بازاروں یا سڑکوں پر حملہ
کرنا، ان کے گھروں پر حملہ کرنا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانا ۔
لیکن متعصب مغربی میڈیا ان واقعات کو چھپاتا ہے (اس کے ساتھ ہمارا مغرب
نواز میڈیا بھی ان کی روش پر چلتے ہوئے ایسے واقعات کو کوئی اہمیت نہیں
دیتا) یہ مذہبی اور نسلی انتہا پسندی کی انتہا ہے۔ وہ مغربی ممالک کی
انتظامیہ ، جو مغرب میں دہشت گردی کی کسی بھی واردات کے وقت موقع پر موجود
تمام مسلمانوں کو شک کی نگاہ سےدیکھتی ہے ، ان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑتی
ہے، ان کو دہشت گردوں کا معاون اور سہولت کار ثابت کرنے میں جت جاتی ہے، وہ
عیسائی دہشت گرد کو ،دہشت گرد کہنے سے گریزاں ہے۔ اس کو محض ایک قاتل ، ایک
شوٹر کہا جارہا ہے۔ جب کہ اگر معاملہ کسی مسلمان کا ہوتو نہ صرف وہ فرد ،
بلکہ اس کے اہل خانہ، پڑوسی، دوست احباب اور پھر اسے کے ملک تک کو دہشت گرد
کہہ دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب متعصب عیسائی اور نسل پرست انتہا پسندکھلے عام اپنے انتہا
پسندانہ عقائد کا اظہار کرتے ہیں، وہ آئے روز مسلمانوں اور کالی رنگت کے
لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ، سوشل میڈیا پر اپنے مذموم عزائم کا جارحانہ
انداز میں پرچار کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ اس کے برعکس کسی
یورپی ملک کی فلائیٹ میں دو مسلمان اگر عربی یا اردو میں بات چیت بھی کریں
تو ان اس پر ایکشن لیا جاتا ہے۔
مغربی معاشرے اور میڈیا کی اسی بے حسی اور دہرے معیار کے باعث کرائسٹ چرچ
کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ اگر مغربی معاشرہ ، میڈیا اور رہنما معتدل ہوتے، وہ
انصاف پسندی کا ثبوت دیتے، تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اگر گورے اور عیسائی
انتہا پسندوں کو بھی چھوٹے چھوٹے واقعات پر سخت سزائیں دیتے تو کرائسٹ چرچ
کا سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ کرائسٹ چرچ کے واقعے نے نہ صرفنیوزی لینڈ جیسے
پُر امن کا تشخص بھی خراب کیا ہے بلکہ وہاں کے باسی اب ایک خوف کا شکار بھی
ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے دہشت گردی کو دہشت گردی سمجھا اور کہا جائے،
خواہ وہ مسلمانوں کی جانب سے ہو، عیسائیوں کی جانب سے یا قوم پرستوں کی
جانب سے ۔
|