ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22-A/22-Bکا مختصرامفہوم یہ ہے کہ
اگر پولیس FIRدرج نہ کرئے ، یا تفتیش میں ڈنڈی مارے یا دیگر کوئی ایسا طرز
عمل اختیار کرئے جو قانون کے منافی ہو تو ایسی صورت میں متاثرہ شخص
براہراست عدالت سے رجوع کرسکتا ہے اوراگرعدالت مطمئن ہو تو قانون کے مطابق
جو حکم مناسب سمجھے جاری کر سکتی ہے ۔ لیکن نئی عدالتی پالیسی کے تحت یہ
کہا گیا ہے کہ اب ایسی کوئی درخواست براہراست عدالت میں دائر نہیں کی جا
سکے گی بلکہ متاثرہ شخص کو ضلعی شکایات سیل جو کہ ایس پی کی زیر سرپرستی
کام کرئے گا سے رجوع کرنا ہوگا جو درخواست گزار کا موقف سننے اور معاملا کی
چھان بین کے بعد ساتھ روز کے اندر اس پر فیصلہ سنائے گا۔ اگر درخواست درست
ہوگی تو مناسب کاروائی کا حکم دے گا اور اگر درخواست جھوٹی ہوگی تو درخواست
گزار کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
نیا طریقہ کار وضع کرنے کا مقصد یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اس سے عدالتوں پر
مقدمات کا بوجھ کم ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ عدالتوں کیلئے انصاف کی فراہمی اور
مظلوم کی داد رسی بوجھ کب سے ہوگی؟نئی پالیسی فوری طور پر نافذالعمل کی گئی
ہے اور اسکا اطلاق بلا تخصیص پہلے سے زیر سماعت اور آئیندہ دائر ہونے والی
درخواستوں پر کیا گیا ہے اسطرح 22-A/22-Bکی لاکھوں درخواستیں جو کہ نئی
پالیسی آنے سے پہلے کی دائر شدہ ہیں وہ بھی خارج کر دی گئی ہیں اور اس بات
کی خوشی منائی جارہی ہے کہ عدالتوں پر سے لاکھوں درخواستوں کا بوجھ کم
ہوگیا۔ حیرت ہے لاکھوں فائلوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے سے
بوجھ کم کیسے ہوگیا؟جو درخواستیں پہلے عدالتی ریکارڈ کا حصہ تھیں وہ اب
پولیس ریکارڈ کا حصہ بن گیں تو بوجھ تو وہیں کا وہیں ہے صرف اسکی جگہ بدل
گئی ہے ۔ حیرت اس بات کی بھی ہے کہ عدالتیں مقدمات کو صرف اپنے اوپر بوجھ
سمجھتی ہیں حالانکہ مقدمات کا بوجھ عدالتوں پر نہیں بلکہ پورے فوجداری نظام
عدل پر ہوتا ہے اور عدالتیں فوجداری نظام عدل کا ایک حصہ ہیں بذات خود
فوجداری نظام عدل نہیں ہیں ۔ فوجداری نظام عدل تین شعبوں پر مشتمل ہوتا ہے
جس میں تفتیش کار ادارے (پولیس) ، استغاثہ اور عدالت شامل ہے ۔ ایک فوجداری
مقدمہ کا بوجھ ان تینوں پر ہوتا ہے صرف عدالتوں پر نہیں ۔ ایک فائل کااس
نظام کے ایک شعبہ سے دوسرے شعبہ کو منتقل کیا جانابوجھ کم ہونے کے نہیں
بلکہ بوجھ منتقل ہونے کے مترادف ہے۔ عدالتیں اگر لاکھوں درخواستوں کی پولیس
کو منتقلی پر خوش ہو رہی ہیں تو انکی یہ خوش عارضی ہے کیونکہ یہ لاکھوں
درخواستیں اور انکے بعد جو اور لاکھوں درخواستیں ایس پی کے پاس دائر ہونگی
ultimatelyوآپس عدالتوں میں ہی آئیں گی اور جب یہ وآپس آئیں گی تو اپنے
ساتھ وہ پیچیدگیا ں بھی لائیں گی جو پولیس کی نالائقی اور جانبداری سے پیدا
ہونگی ۔
22-A/22-Bسے پہلے مقدمہ کے اندراج کیلئے سائلین کو ہائی کورٹ میں رٹ دائر
کرنا پڑتی تھی جس سے ہائی کورٹ پر مقدمات کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا اس وقت
بھی بوجھ کم کرنے کی پالیسی کے تحت ضابظہ فوجداری میں ترمیم کرکے دفعہ
22-A/22-Bکو شامل کیا گیا تھا اور اس قسم کی درخواستوں کو سننے کا اختیار
سیشن ججز کو دے دیا گیا تھا۔ اب سیشن ججز پر بوجھ بڑھ گیا ہے تو اسے ایس پی
کو منتقل کیا جا رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب ایس پی پربوجھ بڑھ جائے گا تو
پھریہ بوجھ کس کو منتقل کریں گے؟ ایس پی کو یہ اختیارات منتقل کرنا اسلیئے
بھی مناسب نہیں کیونکہ یہ قانون کے اس مصلمہ اصول کی خلاف ورزی ہے کہ کوئی
بھی اپنے مقدمہ میں جج نہیں ہو سکتا No One Can be a Judge in his own
cause ۔اس قسم کی99% درخواستوں میں الزام پولیس پر ہوتا ہے ۔ جب الزام
پولیس پر ہو تو پولیس خود جج بن کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا فیصلہ
نہیں کر سکتی ۔ لہذا ایسے الزامات کا فیصلہ ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم پر
ہی ہونا چاہیے بصورت دیگر انصاف ہو ہی نہیں سکتا۔
بحیثیت قانون کے ایک طالبعلم کے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پوری دنیا
میں جب بھی کوئی نئی پالیسی یا قانون بنتا ہے وہ مستقبل کیلئے ہوتا ہے اسکا
اطلاق فوری طور پر نہیں بلکہ آنے والی کسی تاریخ پر ہوتا، تو پھر پاکستان
میں نئی عدالتی پالیسی کا اطلاق فی الفور کیسے کر دیا گیا؟اور اگر باالفرض
محال فوری اطلاق کرنا مقصود بھی ہو تب بھی دنیا میں یہ اصول رائج ہے کہ جو
معاملات پہلے سے زیر سماعت یا pendingہیں انہیں اسکے اطلاق سے مستثنا قرار
دیا جاتا ہے اور انہیں پرانے قانون اور ضابطہ کے تحت ہی dealکیا جاتا ہے ۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ فیصلہ
یقینا اس خوش فہمی کے تحت کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پولیس ایک آئیڈیل پولیس
فور س ہے اور پولیس آفیسرز انتہائی نیک، ایماندار اور شریف النفس ہیں ۔ وہ
کرپٹ نہیں ہیں، رشوت نہیں لیتے ، سیاسی دباؤکو خاطر میں نہیں لاتے ، طاقتور
کا ساتھ نہیں دیتے، پیسے لیکر ضمنیوں اور رپورٹوں میں رد و بدل نہیں کرتے ،
غریب اور کمزور آدمی کو دھمکاتے نہیں، بااثر اور پیسے والوں کے ہاتھوں کا
کھلونا نہیں بنتے، بیگناہوں کو جیلوں میں نہیں ڈالتے، سڑکوں پر دن دھاڑے
معصوم بچوں ، عورتوں کو قتل نہیں کرتے ؟چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ ایک درست
قدم ہے لیکن حضور یہ بھی تو بتائیں کہ کیا اب پاکستان میں ایس پی، ڈی ایس
پی عدالتیں لگائیں گے یا جرائم کے خلاف پولیس فورس کی کمانڈ کریں گے؟
یہ نادر شاہی حکم جاری کرتے وقت جوڈیشل ریفارمز کمیٹی نے اس بات کو کیسے
نظر انداز کر دیا کہ خواتین درخواست گزار کیسے پولیس آفیسروں کے سامنے پیش
ہوکر اپنی درخواست کا دفاع کریں گی؟ وہ اپنے آپ کو پولیس والوں کی گندی
نظروں سے بچائیں گی یا پھر اپنا مدعا بیان کریں گی؟ کیا پولیس کی طرف سے
خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی تاریخ پر نظر نہیں ڈالی گئی؟ عدالتوں میں کم از
کم انہیں وکلاء حضرات کا تحفظ تو حاصل ہوتا ہے جو دلیری سے اپنے موکل کا
موقف عدالت کے سامنے بیان کرتے ہیں پولیس کے سامنے انہیں یہ تحفظ کون دیگا؟
اور پھر پاکستان میں پولیس تحفظ کی نہیں بلکہ خوف کی علامت ہے۔ انہیں دیکھ
کر عام آدمی اپنے آپ کو محفوظ نہیں بلکہ غیر محفوظ محسوس کرتا ہے ۔ یہ کہاں
کا انصاف ہے اور کیسی جوڈیشل ریفارمز ہیں کہ جن پولیس والوں کے خوف سے لوگ
عدالتوں سے رجوع کرتے تھے لوگوں کو انہیں پولیس والوں کے رحم و کرم پر
چھوڑدیا گیا ہے ؟
تمام وکلا برادری بھی جوڈیشل ریفارمز کے حق میں ہے لیکن ایسی ریفارمز جو
حقیقی معانوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں ۔ اگر عدالتوں سے مقدمات کا
بوجھ کم کرنا مقصود ہے تو پھرایسے فورمز بنائیں جہاں ملزم خود منصف نہ ہو،
جہاں پیش ہوتے ہوئے سائلین کو کوئی خوف لاحق نہ ہو، جہاں ان کو اپنا وکیل
یا نمائندہ بھیجنے کا اختیار ہو ۔ پولیس کے خلاف شکایات کا اختیار ایس پی
کو دینے کی بجائے اس مقصد کیلئے Independant Police Complaint
Commissionبنائیں اور وہاں ایسے افراد کو بٹھائیں جن کا تعلق پولیس سے نہ
۔اسکے علاوہ تنازعات کے حل کے متبادل ذرائع Alternate Means of Dispute
Settlementمتعارت کرائیں ۔عدالتوں کے علاوہ نیم عدالتی فورمز Quasi
Judicial Forumsبنائیں اور ان میں پڑھے لکھے افراد جو رضاکارانہ طور پر کام
کرنے پر راضی ہوں ان کو ذمہ داریاں سونپیں۔ ساری دنیا میں ایسے فورمز بنائے
گئے ہیں جہاں ضروری نہیں کہ کوالیفائیڈ ججز ہی ہوں بلکہ ڈاکٹرز، وکیل،
اکاؤنٹنٹ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بیٹھ کر معاملات کو حل
کرتے ہیں ۔دنیا کے تجربات سے سیکھیں ۔ ایک Robust، Pragmaticاور
Progressive جوڈیشل پالیسی بنائیں ۔محض 22-A/22-Bکی درخواستوں کو عدالتوں
سے ایس پی آفس کی طرف divertکرنے سے معاملات حل نہیں ہونگے ۔ |