ہم تہذیب یافتوں سے بد تہذیبی خوف کھانے لگی

ہم اتنے تہذیب یافتہ ہو گئے کہ بد تہذیبی کو ہم سے خوف آنے لگا کیونکہ ہم نے تہذیب سیکھی نہیں مگر سکھائی ضرور۔یہ وہ تہذیب یافتہ معاشرہ ہے جہاں مغربی تہذیب کو برا بھلا کہنا ہی ہمارے تہذیب یافتہ ہونے کا معیار ہے۔ہمیں ان کے خاندانی نظام سے لے کر معاشرتی نظام تک ہر چیز غلیظ دکھائی دیتی ہیاور اگر میں غلطی سے بھی ان کے نظام کو کسی حوالے سے بھی اچھا کہہ دوں یا میری سوسائٹی کو ذرا گمان بھی گزرے کہ میرے ذہن میں اس سسٹم کے کسی ایک بھی پہلو سے متعلق مثبت رائے موجود ہے تو میں اسی لمحے دائرۂ اسلام سے خارج ٹھہری،اور مخالفین جلد سے جلد اہل مغرب کے خلاف چند نعرے لگا کر دوسروں کی نظروں میں خود کو مومن ثابت کر لیں گے۔یوں الزامات کے اک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

مگر میری بھی تو سنو! کہو‘ضرور برا کہو!ان کو کہ جن کے قوانین سے انسانیت بھی شرمندہ ہو گئی۔۔مگر سنو اے اہل مشرق! جو تم نے کیا اس کا کیا؟کہ انسانیت جس پہ بین کر رہی ہے۔آؤ مل کر ماتم کریں کہ اے اہل مغرب! ہم تمہارے اصولوں سے خفا ہیں بھلا کیوں؟ کیونکہ تم تو اتنے آزاد ہو کر بھی کچھ کر ہی نہ سکے۔اخلاقیات کے جنازے تو ہم نے نکالے،غلاظت کے طوفان تو ادھر آئے اور اب ہم اتنے غیرت مند ہو گئے کہ غیرت ہم سے شرمانے لگی۔ کیونکہ تمہارا معاشرہ تو ہے ہی لادین۔پاکیزہ نظام نافذ کرنے والے تو ہم ہیں۔

دیکھو ہماری بہادری دیکھو! کہ تمہارا معاشرہ تو شخصی آزادی کے زمرے میں living’’لونگ‘‘ اور اس جیسے کئی سسٹمز کی شکل میں نرمی دے چکا مگر ادھر دیکھو! جب تاریخ کے صفحات ہماری تہذیب جذب کریں گے تو الفاظ ختم ہو جائیں گے غلاظت رقم کرنے کو۔کیونکہ تمھارے میں تو عزت اور غیرت اور حیا کا کوئی concept ہی نہیں مگر ہم غیرت مند،با عزت اور حیا والے ہیں professionalism دیکھنا ہو تو ہمارا دیکھو جو اپنی عزت قلعوں میں محفوظ کر کے دوسروں کی بھی وہیں کھینچ لاتے ہیں دوسروں کی عزت ان سے چھین لیتے ہیں تا کہ ’’با عزت ‘‘ کہلوائے جانے کا حق ادا ہو سکے۔

تمہارے معاشرے میں جس کام کے لیے agreements ہوتے ہیں ہم وہ without permission کرتے ہیں،سرعام کرتے ہیں کیونکہ بنت حوا کی چیخوں کو دبانا تم کیا جانو،ان کی تکلیف کو اپنا سرور بنانا ہم سے سیکھو،معصوم کلیوں کو مسلنا اور پھر بھول جانا ہم سے سیکھو ۔ارے تم تو قانون کے سائے میں پلنے والے ہو اور ہم قانون کے’’گائیڈ‘‘۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں غریب کے مال سے لے کر آبرو تک کے مالک ہم ہیں ہم نے تن سے لے کر زن تک کو اپنی ملکیت بنایا تا کہ وہ ہمارے ہاتھوں میں محفوظ رہے۔ہماری برداشت دیکھو کہ سنسان وادیوں میں گونجتی چیخوں کو صرف ہم سنتے ہیں اور ان کے مضر اثرات سے اپنے ضمیروں کو پاک رکھتے ہیں۔

character building کی بات کرنی ہے تو آؤبتاؤں کہ ہم کتنے باکردار لوگ ہیں۔اور کیوں نہ ہوں باکردار؟ ہم نے دوسروں کے کردار ان سے چھین لیے۔ ان کے کردار سمیٹ لیے اور ان کے حصے میں صرف بد کرداری رہنے دی۔عزت کی نیلامی تو خیر ادھر بھی ہوتی ہے مگر ہم ایسے مال کے خریدار ہر گز نہیں ہیں جس سے ہمارے کردار پہ حرف آئے ویسے بھی ہم اتنے نا اہل نہیں۔ ہم نے اپنی اہلیت پہ بھروسہ کیا اور معاشرے کے کونے کونے کو’’کوٹھا‘‘ بنا دیا مگر خود کے کردار پہ انگلی نہیں اٹھنے دی۔

اور ہاں؛ ہم نے ان ’’غلیظ روحوں کو بھی واپس بھجوا دیا‘‘ جو ہماری شخصیت کی پاکیزگی کو متاثر کرتیں،اور کچھ اس سے بھی تلخ حقیقتیں ہیں کہ جن کو تصور میں لاتے ہوئے ذہن شرماتا ہے دل جن کا خیال آتے ہی گھبرا جاتاہے جن کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ملتے نہیں اور اگر مل جائیں تو زبان ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتی ہے۔ اگر لکھنا چاہوں تو قلم شرم کے مارے سیاہی روک لیتا ہے۔اور اگر یہ سب میں کر بھی لوں تو تم! یہ سب جاننے کی تاب نہیں لا سکتے۔کیونکہ تم نہیں جانتے:’’ہم غیرت مند اور تہذیب یافتہ ہیں!‘‘
 

Hafsa Khalid
About the Author: Hafsa Khalid Read More Articles by Hafsa Khalid: 2 Articles with 1313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.