تنقید پر تنقید

مضمون کو شروع کرنے سے پہلے میں پڑھنے والوں کو باپ بیٹے اور گدھے کی کہانی سے اگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ کسی دور کی بات تھی ، ایک بچہ، بوڑھا اور ایک گدھا سفر سے واپسی سے ارہے تھے۔ واپسی اتے وقت بچہ گدھے کی سواری کررہا تھا جب کے بوڑھا باپ پیدل سفر طیح کررہا تھا۔ اس نظارے کو دیکھ کر چلنے والوں نے اپس میں گفتگو کردی کے کس طرح کا بیٹا ہے جو باپ کو پیدل چلوائے جب کے خود سواری بننے کے مزہ لے۔ باپ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے بیٹے کو پیدل چلنے کا حکم دیا جبکہ خود گدھے پر باقی سفر طیح کرنا شروع کردیا۔ تھوڑا سفر اور طیح کیا تو اور لوگ ملے جنہوں نے اس حالت کو الگ پہلو سے سمجھایا جس میں باپ ایک ظالم اور خود غرض آدمی ہے جو خود سواری ہونے کا فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ معصوم بیٹا ٹانگوں کے بل سفر گزار رہا ہے۔ اس بات کا علم ہوتے ہی بھوڑھا گدھے سے اتر کر بیٹے کے ساتھ سفر کرنے لگا۔ تھوڑا اور اگے پہنچے تومسافروں نے ان کو بیوقوف پایا جس میں میں جانور رکھنے کے باوجود صحیح استعمال نا کیا۔ اس بات کو سنتے ہی دونوں باپ بیٹا گدھے پر سوار ہوگئے ۔ کچھ راستے بود دو اجنبی اور دکھے جنہوں نے اس نمائش کو جانوروں کے ساتھ ظلم وزیادتی سے تشبیح دی ۔ اخر میں اس کہانی میں باپ لوگوں کی باتیں سن کر سن کرگدھے کو اپنے سر پر بٹھا لیتا ہے اور ایک قوایں میں جا پھینکتا ہے۔ کہانی سے غرض انسانی تنقیدیت کو سمجھانا ہے۔

یہ انسانوں کی ایک خاص عادت ہی کسی کام کو کرنے کے بجائے چاہے اتا ہو یا نہیں اس کو تنقید کا نشانہ ضرور بناتے ہیں۔ تنقید ایک ایسا ہتھیار بن شکا ہے جس کے باعث ہر شخص اپنا نظریہ پیش کر سکتا ہے۔ اس ہی طریقہ سے کسی بات کو تھکرا بھی سکتا ہے چاہے وہ کتنا تھیک ہی کیوں نا ہو۔ یہ ٹانگ کھینچنے کا عمل جدید دور سے نہیں بلکہ دورِ اجداد سے نظر آتا ہے۔ہمارے ملک کی لوگوں کی یہ خاص عادت ہے کہ چیز کتنی ہی اچھی کیوں نا ہوکوئی ایسا نقص ضرور نکالیں گے جس کے باعث چیز کی خوبصورتی میں اثر پڑتا ہے۔ چاہے وہ بات جنگ جیسے قومی مسئلے کی ہویا کھانا پکانے جیسی چھوٹی بات ، نقص کی چھان بین کے سلسلہ میں مستقلیت نظر آتی ہے۔

صوفیانہ کلام اس بات کا نچوڑ ہے کہ دوسروں سے نقص نکالنے کے بجائے خود میں تلاش کریں ۔ یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ تنقید کرنا ایک خراب طبیعت نہیں مگر کسی بھی چیز کا میزاں سے ہٹ جانا ارکاتی ہوجاتا ہے۔ اگر انسان واضح ثبوت کے ساتھ بات پر تنقید کرے توبات وزنی ہوجاتی ہے۔ مگر بلاوجہ تنقید کا نشانہ بننے والے ہی اثر انداز ہوتے بلکہ اس سے بولنے والے بھی جاہل نظر آتے ہیں۔

انسان کو خطا کا پتلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی زندگی میں گلتیوں کے مواقع بے شمار آئیں گے۔ مین نے تو اس سماجی رویہ پرتنقید کی امید ہے کہ آپ کو بھی اس میں سے تنقید کا مواد مل جائے
 

Daniyal uddin
About the Author: Daniyal uddin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.