راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کا شمار پاکستان کے 14ویں بین
الاقوامی طرز کے کرکٹ گراؤنڈ میں ہوتا ہے، جو جدید اور طاقت ور فلڈ لائٹس
کی وجہ سے انفرادی خصوصیت رکھتا ہے۔وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد سے تین
کلومیٹرکے فاصلے پر راولپنڈی کے نواحی علاقے میں واقع یہ گراؤنڈ راولپنڈی
کلب گراؤنڈ کے نام سے معروف تھا جس پرصرف چہاردیواری بنی ہوئی تھی جس کے
اندر تماشائیوں کے بیٹھنے کے نشستیں رکھی گئی تھی 1965میں نیوزی لینڈ کرکٹ
ٹیم نے جون ریڈ کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ قومی ٹیم نے حنیف محمد
کی قیادت میں تین ٹیسٹ میچوں کی سیریزکھیلی۔ پہلے میچ کے لیے پنڈی کلب
گراؤنڈ کا انتخاب کیا گیا اور پاکستان نے اس گراؤنڈکی تاریخ کے واحد ٹیسٹ
میچ میں فتح حاصل کی۔اس گراؤنڈ پر پہلاایک روزہ میچ دسمبر 1985میں ویسٹ
انڈیز کی ٹیم کے خلاف کھیلا گیاجو سیریز کا چوتھا میچ تھا، یہ میچ پاکستان
نے پانچ وکٹوں سے جیتا۔دسمبر1987میں انگلینڈ کی ٹیم نے مائیک گیٹنگ کی
قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا، جس میں اس نےتین ٹیسٹ اور تین محدود اوورز
کی سیریز کھیلی۔ ایک میچ پنڈی کلب گراؤنڈ پر بھی منعقد ہوا جس میں پاکستان
نے برطانوی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا۔
اس گراؤنڈ کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب اکتوبر 1987میںکرکٹ کے عالمی کپ کا
ایک میچ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان منعقد ہوا۔ اسے دیکھنے کے لیے
شائقین کرکٹ کی کثیر تعداد اسٹیڈیم میں موجود تھی، اس میچ میں پاکستان فاتح
رہا تھا ۔ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے بعد یہاں جدید سہولتوں سے مزین اسٹیڈیم کی
تعمیر شروع ہوئی جو1992میںتکمیل کو پہنچی ، جس کے بعداس کا نام راولپنڈی
کرکٹ اسٹیڈیم رکھا گیا۔ اس میں 25000سے زیادہ تماشائیوں کے بیٹھنے کی
گنجائش ہے۔دسمبر 1991کے آخری دنوں میں سری لنکا کی ٹیم اروندا ڈی سلوا کی
قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئی جس کے دوران اس نے تین ٹیسٹ اور تین ایک
روزہ میچوں کی سیریز کھیلی۔ محدود اوورز کی سیریز کا پانچواں ایک روزہ
میچ19جنوری کو نو تعمیر شدہ ، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد ہوا، جس میں
پاکستان نے فتح حاصل کی۔ اس میچ میں پاکستان کے دو بلے بازوں، انضمام الحق
اور سلیم ملک نے سنچریاں اسکور کیں، جب کہ آئی لینڈرز کی طرف سے صرف ہشان
تلکا رتنے ہی نے سب سے زیادہ 36رنز بنائے۔ 1993میں اس کا با ضابطہ طور پر
افتتاح ہوا، جس کے بعد پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ٹیسٹ اور ایک
روزہ میچ کھیلا گیا۔اس اسٹیڈیم کو کئی منفرد ریکارڈ کے حامل ہونے کا اعزاز
حاصل ہے، 29نومبر 1997میں ویسٹ انڈیز کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی
کرکٹرزعامر سہیل اور انضمام الحق نے 323رنز کی شراکت قائم کی جب کہ 2004میں
بھارتی بلے باز، راہول ڈریوڈنے سب سے زیادہ انفرادی رنز بنائے۔1996کے ورلڈ
کپ کے تین میچزکی میزبانی راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے حصے میں آئی ۔ تینوں
میچز جنوبی افریقہ کی ٹیم نے دنیا کی مختلف ٹیموں کے خلاف کھیلے اور تمام
میں فتح حاصل کی ، جو اس وینیو کا انوکھا ریکارڈ ہے۔ اس اسٹیڈیم میں
پاکستانی ٹیم کی فتوحات کا تناسب دیگر گراؤنڈز کے مقابلے میں نسبتاً کم
رہا۔
1993کے آخر میں زمبابوے کی ٹیم اینڈی فلاور کی قیادت میں تین ٹیسٹ اور تین
ہی محدود اوورز کی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئی۔ سیریزکا
دوسرا ٹیسٹ میچ یہاں کھیلا گیا جو پاکستان نے جیتا۔1994میں آسٹریلیا نے
تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی جن میں سے دوسرا ٹیسٹ میچ 5سے 9اکتوبر تک
راولپنڈی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس میں پاکستان کی جانب سے سلیم ملک نے
ڈبل سنچری، 237رنز اسکور کیے۔ آسٹریلیا کی جانب سے مائیکل سلاٹر نے سنچری
اسکور کی جب کہ اس گراؤنڈ پر ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے ڈیمن فلیمنگ نے پہلے ہی
ٹیسٹ میچ میںسات وکٹیں لے کر اسٹیڈیم کی تاریخ کا پہلا ریکارڈ قائم کیا۔وہ
ڈیبیو ٹیسٹ میں وکٹوں کی ہیٹ ٹرک کرنے والے دنیا کے تیسرے بالر بنے۔ اس میچ
کی خاص بات یہ تھی کہ عامر سہیل ریٹائرڈ ہرٹ ہوکر پویلین چلے گئے تھے۔اس سے
قبل 23ستمبر کوآسٹریلوی ٹیم نے ایک سہ روزہ میچ پریذیڈنٹ الیون کے خلاف
کھیلا جس کی پہلی اننگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی
اور آسٹریلیا کی پہلی اننگ کے جواب میں ہماری ٹیم صرف 145رنز بناسکی۔
دوسری اننگ میں اس کی کارکردگی بہتر رہی او راس نے 270رنز کا مجموعہ بنایا۔
گلین میک گرا سب سے کامیاب بالر رہے جنہوں سے دونوں اننگز میں دس وکٹیں
لینے کا کارنامہ انجام دیا،یہ میچ ڈرا ہوا۔اکتوبر 1984میں ولز سہ فریقی
چیمپئن شپ ٹرافی کے دس میچ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان
کھیلے گئے جن میں سے دو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد ہوئے اور دونوں
میچوں میں پاکستان نے فتح حاصل کی۔پہلا میچ 20اکتوبر کو جنوبی افریقہ کے
ساتھ کھیلا گیا جس میں اعجاز احمد نے سنچری اور سلیم ملک نے ناٹ آؤٹ نصف
سنچریی اسکور کی۔دوسرا میچ آسٹریلیا کے ساتھ منعقد ہوا جس میں مارک وا نے
ناٹ آؤٹ سنچری اسکور کی۔ پاکستان نے سعید انور کی سنچری اور انضمام الحق
کی نروس نائنٹیز کی بہ دولت یہ میچ 9 وکٹوں سے جیتا۔ستمبر 1995 میں سری
لنکا کی ٹیم ایک ماہ کے دورے پر پاکستان آئی جس میں اس نے تین ٹیسٹ اور
تین ایک رہزہ میچوں کی سیریز کھیلی۔ تیسرا ایک روزہ میچ 3اکتوبر کو
راولپنڈی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ آئی لینڈرز نے قومی ٹیم کو شکست تے ہم
کنار کیا ، کمار دھرما سین نے 30رنز پر تین وکٹ حاصل کیے۔ یہ اس گراؤنڈ پر
پاکستانی ٹیم کی پہلی شکست تھی۔
1996کے عالمی کپ کے تین میچ اس اسٹیڈیم میں کھیلے گئے اور تینوں میچوں میں
جنوبی افریقہ کی ٹیم کا مقابلہ مختلف ٹیموں کے ساتھ ہوا جس میں اس نے
کامیابی حاصل کی۔ گروپ بی کا دوسرا میچ16فروری کو متحدہ عرب کے خلاف کھیلا
گیا جس میں پروٹیز نے کامیایی حاصل کی۔ گروپ کا آٹھواں میچ 25فروری
کوبرطانیہ کے خلاف منعقد ہوا، اس میں جنوبی افریقہ نے انگلش ٹیم کو بھاری
مارجن سے شکست دی۔ چودھواں میچ 5مارچ کو ہالینڈ کے خلاف ہوا جس میں اینڈریو
ہڈسن نے 161رنز بنائے۔ اس میچ میں بھی جنوبی افریقہ کی ٹیم فاتح
رہی۔24نومبر 1998کو زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور راولپنڈی
میں تیسرے ایک روزہ میچ کا انعقاد ہوا۔ اس میچ میں اعجاز احمد نے شاندار
سنچری اسکور کی اور پلیئر آف دی میچ قرار پائے۔ ثقلین مشتاق سب سے کامیاب
بالر ثابت ہوئے جنہوں نے 27رنز کے عوض تین وکٹ لیے، یہ میچ پاکستان نے جیتا۔
اس گراؤنڈ پر تین پاکستانی کرکٹرز ڈبیو ٹیسٹ سنچری بنا چکے ہیں۔ نومبر
1996میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ، جس میں ایک فرسٹ کلاس،
ایک ون ڈے اور دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کا
انعقادراولپنڈی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اس میچ میں پاکستان کی جانب سے سعید انور
اور اعجاز احمد نے سنچری بنائی۔اپنے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے محمد
زاہدنے ڈبیو ٹیسٹ میں دس وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا۔ یہ میچ قومی ٹیم
نے ایک اننگز اور 13رنز سے جیتا ۔ 1996میں سید علی عروج نقوی ، 1997میں
اظہر محمود اور 1999میں یونس خان نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو سنچری
بنائی۔ اکتوبر سے دسمبر 1997تک ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے کورٹنی والش کی قیادت
میں پاکستان کا دورہ کیاجس میں سے دوسراٹیسٹ میچ راولپنڈی میں منعقدہوا۔ اس
میچ میں پاکستان کی طرف سے فاسٹ بالر شعیب اختر اور ویسٹ انڈیز کے فیلوویلس
نے اپنے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ اس میچ میں عامر سہیل اور انضمام الحق
نے سب سے لمبی شراکت قائم کی۔ انہوں نے323رنز کی پارٹنر شپ قائم کی، جب کہ
شعیب اختر نے پہلے ہی میچ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 43رنز
پر دو وکٹیں حاصل کیں، اظہر محمود نے 53رنز پر چار وکٹیں حاصل کیں۔پاکستان
نے اسٹیڈیم کی تاریخ کی سب سے بڑی فتح اننگز13رنزسے اپنی حریف ٹیم کو شکست
دے کر حاصل کی، ویسٹ انڈیز نے اس میچ میں سب سے کم اسکور بنایا۔دسمبر
1998میں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے آں جہانی ہنسی کرونئے کی قیادت میںپاکستان
کا دورہ کیا۔ پہلا ٹیسٹ میچ راولپنڈی میں کھیلا گیا، جس کا نتیجہ ڈرا کی
صورت میں نکلا۔ ۔ اس میچ میں تین پاکستانی کرکٹرز محمد رمضان، اظہر محمود،
سید علی عروج نقوی نے نہ صرف ٹیسٹ ڈبیو کیا بلکہ اظہر محمود اور علی نقوی
نے سنچریاں اسکور کیں۔ ۔ فروری 1999میں سری لنکن ٹیم نے پاکستان کا دورہ
کیا اور پہلا ٹیسٹ میچ راولپنڈی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔میچ کی پہلی اننگ
میں پاکستانی بیٹس مینوں نے انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا، سری لنکا
نے یہ میچ دووکٹوں سے جیتا۔
اکتوبر 1998میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پرآئی۔ پہلاٹیسٹ میچ یکم
اکتوبر کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں منعقدہوا۔ اس میچ میں قومی ٹیم کی کرکٹر
انتہائی خراب رہی، پہلی اننگ میں صرف سعید انور ہی سنچری بنا سکے، جب کہ
پانچ بلے باز دوہرے ہندسے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔۔اسٹیوارٹ میک گل نو
وکٹیں لے کر کامیاب بالر ثابت ہوئے۔آسٹریلیا کی جانب سے ایم جے سلاٹر
اوراسٹیووا نے سنچریاںاسکور کیں۔پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا کے ہاتھوں ایک
اننگز اور 99رنز سے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہوئی۔اس میچ
میںآسٹریلیا کے کھلاڑی کولن ریڈ ملر نے ٹیسٹ ڈبیو کیا۔ آسٹریلوی ٹیم نے
اپنے دورے کے دوران تین فرسٹ کلاس میچز کھیلے جن میں سے ایک میچ راولپنڈی
اسٹڈیم میں بھی منعقد ہوا۔ اس کا نتیجہ ڈرا کی صورت میں نکلا۔نومبر 1998میں
زمبابوے کرکٹ ٹیم نے ایلسٹر کیمبل کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا۔تیسرے
ایک روزہ میچ کا انعقاد راولپنڈی اسٹڈیم میں ہوا جس میں میزبن ٹیم نے اپنی
حریف کو بھاری مارجن سے شکست دی۔ اس میچ میں اعجاز احمد نے سنچری اسکور کی۔۔
فروری 2000میں سری لنکن ٹیم سنتھ جے سوریا کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر
آئی اور اس نے پہلا ٹیسٹ میچ راولپنڈی میں کھیلا۔ پہلی اننگز میں قومی ٹیم
182رنز پر آل آؤٹ ہوگئی، اس کے آٹھ بلے باز کیچ آؤٹ ہوئے جوقومی ٹیم
کا بدترین ریکارڈ تھا، وکرما سنگھے اور مرلی دھرن نے آٹھ وکٹیں لیں۔ اس
اننگ میں پاکستان کے تین کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہوئے۔ ٹیسٹ ڈبیو کرنے والے
یونس خان نے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں سنچری اسکور کرنے کا کارنامہ انجام
دیا،یہ میچ سری لنکا نے جیتا۔2000ء میں انگلش کرکٹ ٹیم نے اپنے دورے کے
دوران راولپنڈی میں ایک ون ڈے اور ایک ٹور میچ کھیلا۔ 30اکتوبر کو اس
گراؤنڈ پرتیسرے ایک روزہ میچ کا انعقاد ہوا جس میں ثقلین مشتاق نےا پنی
اسپن بالنگ کی ’’دوسرا تیکنک‘‘ کو بروئے کار لا کر 20رنز پرانگلینڈ کے پاتچ
بہترین بلے بازوں کو آؤٹ کیا، جن میں مارکوئس ٹریسکوتھک، گریگ وائٹ،
ایشلے جائلز، گریم ہائیک اور ڈیرن گاف شامل تھے۔ اس میچ میں پاکستان نے چھ
وکٹوں سے فتح حاصل کی، اس موقع پر صدر پرویز مشرف بھی اسٹیڈیم میں موجود
تھے جنہوں نےمیچ میں اعلیٰ کارکردگی پر ثقلین مشتاق کو کار کی چابی دی۔اس
کے دو روز بعد یکم سے 4نومبر تک پاکستان کرکٹ بورڈ پیٹرنز الیون اور انگلش
الیون کے درمیان سہ روزہ ٹور میچ کھیلا گیا۔ اس میں انگلینڈ کی تجربہ کار
کرکٹرز کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔
برطانیہ نے اس میچ میں پاکستان پیٹرنز الیون کو ایک اننگز اور 27رنز سے
شکست دی۔ اپریل 2002میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ، جس کے
دوران24اپریل کو ایک ون ڈے میچ راولپنڈی اسٹیڈیم میں کھیلا، اس میچ میں
پاکستان ٹیم نے تین وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ دسمبر 2003میں نیوزی لینڈ کے
ساتھ پانچ ایک روزہ میچز کھیلے گئے ۔ 5دسمبر کو سیریز کا چوتھا میچ منعقد
ہوا جس میں میزبان ٹیم نے سات وکٹوں سے فتح حاصل کی جب کہ اس کے دو رورز
بعد ہی 7دسمبر کو پانچویں ایک روزہ میچ میں پاکستان نے اپنی حریف ٹیم کو
ایک مرتبہ پھر شکست سے ہم کنار کیا۔ اس میچ میں پاکستان کے دو بلے بازوں،
یاسر حمید اور عمران فرحت نے سنچریاں اسکور کیں ۔مارچ 2004میں بھارتی کرکٹ
ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں 5ایک روزہ اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز
کھیلی گئی۔ دوسرا ایک روزہ میچ 16مارچ کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں منعقد ہوا
جس میں گرین شرٹس نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کرکے بھارت کو جیت کے لیے
330رنز کا ہدف دیا۔ بھارتی بیٹس مینوں کی کارکردگی میچ میں انتہائی ناقص
رہی۔ صرف سچن ٹنڈولکر ہی سنچری بناسکے، باقی دیگر کھلاڑی قابل ذکر
اسکورنہیں کرسکے۔ اس میچ میں بھارتی کھلاڑی رمیش راج رام پوار نے ڈبیو کیا۔
پاکستان نے یہ میچ باآسانی جیت لیا۔ 13سے 16اپریل 2004تک بھارت کے ساتھ
تیسرا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا جو اس گراؤنڈ کا آخری ٹیسٹ میچ بھی تھا۔ اس میں
پاکستانی کرکٹرز کی کارکردگی مایوس کن رہی ، اکتوبر 2003میں ٹیسٹ ڈبیو کرنے
والے عاصم کمال کے علاوہ کوئی پاکستانی بیٹسمین نصف سنچری کے ہندسے پر نہیں
پہنچ سکا۔ بھارت نےپہلی اننگ میں میزبان ٹیم کو 600رنز کا ہدف دیا، جس کے
جواب میں پاکستان صرف 469رنز بناسکا۔بھارت کی جانب سے راہول ڈریوڈ نے ڈبل
سنچری اسکور کی، یہ اس گراؤنڈ کی واحد ڈبل سنچری تھی۔ اس میچ میں پاکستانی
ٹیم کو بھارت کے ہاتھوں ایک اننگ اور 131رنز سے شکست ہوئی۔ ستمبر ، اکتوبر
2004میںپاکستان میں پاک ٹیل سہ فریقی کپ کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان
کے ساتھ زمبابوے اور سری لنکا کی ٹیموں نے شرکت کی۔ اس کے چوتھے اور
پانچویں میچ کا انعقاد راولپنڈی کے گراؤنڈ پر ہوا۔ 9اکتوبر کو کھیلے جانے
والے میچ میں سری لنکا نے اپنی حریف ٹیم کو صرف 19اوور میں سات وکٹوں سے
شکست دے دی جب کہ 11اکتوبر کو ہونے والا میچ شدید دھند کی وجہ سے منعقد نہ
ہوسکا۔اکتوبر سے دسمبر2005تک برطانوی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پہلا ٹور
میچ31اکتوبر سے 2نومبر تک میچ راولپنڈی اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ بورڈ
پیٹرنز الیون کے ساتھ کھیلا گیا۔ اس میچ میں انگلش ٹیم نے اپنی حریف کو
شکست دی۔انگلش ٹور کے پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں سے دو میچ اس
اسٹیڈیم میں بھی کھیلے گئے۔سیریز کا چوتھا میچ 19دسمبر کو منعقد ہوا، جسے
پاکستان نے جیتا۔اس میچ میں محمد یوسف کی جگہ ارشد خان کو کھلایا
گیا۔پانچواں میچ21دسمبر کو کھیلا گیاجس میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کی۔
محمد آصف نے ایک روزہ میچ کے لیے ڈبیو کیا، انہیں دانش کنیریا کی جگہ ایک
روزہ اسکواڈ میں شامل کیا گیاتھا، انہوں نے پہلے ہی میچ میں 14رنز کے عوض
2وکٹیں لیں ۔11فروری 2006کو بھارت نے اپنے دورے کا دوسرا ایک روزہ میچ
مذکورہ اسٹیڈیم میں کھیلا۔ اس میں مہمان ٹیم کو سات وکٹوں سے فتح حاصل
ہوئی۔دسمبر 2006میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم تین ٹیسٹ اور پانچ ایک روزہ میچوں کی
سیریز کھیلنے کے پاکستان آئی۔5دسمبر کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں پہلے ایک
روزہ میچ کا انعقاد ہوا لیکن خراب موسم کی وجہ سے یہ میچ ایک بھی گیند
کھیلے بغیر ختم کردیا گیا۔ اسے مذکورہ اسٹیڈیم کا آخری ایک روزہ میچ قرار
دیا گیا کیوں کہ اس کے بعد اس گراؤنڈ پر کسی بھی بین الاقوامی میچ کا
انعقاد نہیں کیا گیا۔
راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کئی منفرد ریکارڈ کا حامل ہے اس میں ٹیسٹ کھیلنے
والی تین ٹیموں کو اپنی حریف ملک پر اننگ کی برتری حاصل ہوئی۔ پہلی مرتبہ
پاکستان نے 1996میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ایک اننگاور 13رنز سے شکست دی۔
1998میں آسٹریلیا نے قومی ٹیم کو اننگ اور 99رنز سے ہرایا جب کہ 2004میں
بھارت نےپاکستان کو اننگ اور 131رنز کے بھاری مارجن سے شکست دی۔ اس
گراؤنڈکو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاںسے10نٹرنیشنل کرکٹرز نے اپنے
ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا جن میں پاکستان کے محمد رمضان، اظہرمحمود، یونس
خان، شعیب اختر، سید علی عروج نقوی، محمد زاہد، ، محمد آصف، آسٹریلیا کے
کولن ریڈ ملر، ویسٹ انڈیز کے فیلو ویلس اور بھارت کے رمیش راج رام پوار
شامل ہیں۔اس اسٹیڈیم میں سب سے زیادہ ناٹ آؤٹ سنچریاں اسکور ہوئی ہیں۔
29نومبر 1997میں ویسٹ انڈیز کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی کرکٹرزعامر
سہیل اور انضمام الحق نے 323رنز کی شراکت کا ریکارڈ قائم کیا جب کہ 2004میں
بھارتی بلے باز، راہول ڈریوڈنے 2004میںسب سے زیادہ انفرادی اسکوراور
گراؤنڈ کی تاریخ کی پہلی اور آخری ڈبل ٹیسٹ سنچری بنانے کا اعزاز حاصل
کیا۔اس اسٹیڈیم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں پاکستان ٹیم بھارت کے
مقابلے میں ہمیشہ ناکامیوں سے دوچار رہی ہے۔
2006کے بعد اسٹیڈیم زبوں حالی کا شکار تھا، 2007 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے
اسے 45000روپے ماہانہ کے عوض لیز پر حاصل کیالیکن چند سال بعد ضلعی
انتظامیہ کو واپس کردیا گیا۔ ان دنوں یہاں مقامی سطح کے کرکٹ میچوں کا
انعقاد ہوتا ہے۔ گزشتہ سال قائد اعظم ٹرافی کے پانچویں مرحلے کے میچوں میں
سے دو میچ راولپنڈی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے۔ دسمبر 2017میںقومی ٹی ٹوئنٹی کے
31میچز اسی گراؤنڈ میں منعقد ہوئے جن میں ناک آؤٹ مرحلے کے تین میچز،دو
سیمی فائنل اور فائنل میچ بھی اسی جگہ کھیلا گیا، جسے دیکھنے کے لیے شائقین
کرکٹ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔2009سے پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے
دروازے بند ہوگئے، 2017میں آزادی کپ اور پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے بعد
ملک میں عالمی ٹیموں کی آمد کی امید پیدا ہوگئی ہے، کہ اس اسٹڈیم کی بھی
بین الاقوامی حیثیت بحال ہوجائے گی ۔
|