پاکستان کی معاشی بنیادیں

تحریر: سہیل ریحان
ہر مسئلے کے پیچھے اس کی مادی وجوہات ہوتی ہیں اگر مسئلے کا حل نکالنا ہے تو مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کی وجوہات کو دور کرنے کے لیے حکمت عملی بنیادی قدم ہے۔ مسائل کا حل اس سے دور بھاگنا نہیں بلکہ اس سے نپٹنا ہوتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف ادوار میں اس کے مختلف طریقہ کار ہیں جیسا کہ پرانے زمانے میں کائنات کو سمجھنے کے لیے فرضی کہانیاں بنائی گئی تھیں، اسے مائتھالوجی کا دور کہتے ہیں۔ اس کے بعد مذہب کا دور اور ایجادات کا زمانہ شروع ہوا اور پھر انسان نے تجربات اور مشاہدوں سے مسائل کا حل نکالنا شروع کیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔

پاکستان کے موجودہ مسائل کو سمجھنے کے لیے ان کی مادی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ فوجی قبضہ سامراج جب کہ اس کے سیاسی ڈھانچے پر قبضہ، جدید سامراج کہلاتا ہے۔ برطانوی حکومت نے ہماری معیشت کو زراعت پر جامد کر کے بیوروکریٹک سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا جو برطانیہ کے بعد سیدھا امریکا کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ 17ویں صدی میں ہندوستان اور پورپ معاشی و سیاسی لحاظ سے ایک جیسے تھے دونوں خطوں میں زراعت معاشیت تھی۔ گھریلو دستکاری تھی اور جاگیر داری نظام کمزور ہو رہا تھا اور تاجر ترقی کر رہا تھا۔ ہندوستانی تاجر سمندر دور ہونے کی وجہ سے تجارت کو بیرون ملک فروغ نہ دے سکے۔ برطانیہ نے سمندر کے قریب ہونے کا فائدہ اٹھایا اور اس نے سمندر پار تجارت شروع کر دی۔ ہندوستان کے مقامی تاجروں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے انہیں خوش آمدید کہا اور یوں ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان تجارت شروع ہو گئی۔ ہندوستانی معاشرہ خود کفیل تھا اور اپنے مال سے اپنی ضروریات کی چیزیں بناتا تھا اور دولت کا بہاؤ ہندوستان کی جانب تھا اور ہندوستان امیر ہو رہا تھا۔ جنگ پلاسی کے بعد برطانیہ راج کا آغاز ہوا۔

بر صغیر میں کالونیل ازم کی ابتداء کر دی گئی۔ کالونیل ازم کا لفظی مطلب ہے نئی بستی بسانا۔ جیسے یورپیوں نے امیریکا، کینڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کیا، مگر ہندوستان اور کئی دوسری جگہوں پر صرف دولت سیمٹنے آئے تھے۔ 1600ء میں لندن میں 70,000 پاؤنڈ کے ابتدائی سرمایہ کی مدد سے ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی گئی تاکہ ہندوستان سے اجناس، ریشمی و سوتی کپڑا، چینی کے برتن اور گرم مسالے کا کاروبار شروع کر دے۔ ہندوستانی معاشرہ خود کفیل دیہاتوں پر مشتمل تھا۔ ہر معاشرہ اپنی ضرورت کی چیزیں خود تیار کرتا تھا جیسا کہ کپڑے کی صنعت، فولاد کی بھٹیاں، شیشے کا سامان، قالین وغیرہ۔ جب یہاں یہ مال یورپ جانے لگا تو پیسے کا بہاؤ ہندوستان کی طرف ہو گیا اور ہندوستان امیر ہونے لگا۔ جنگ پلاسی کے بعد بنگال، بہار اور اڑیسہ پر انگریز قابض ہو گئے اور اس طرح خزانہ اور ٹیکس کا انتظام بھی انگریز کے ہاتھ میں چلا گیا اور دولت کا بہاؤ برطانیہ کی طرف ہو گیا۔ یورپ میں صنعتی دور شروع ہو گیا۔ اس وقت سرمایہ دار طبقہ مضبوط ہو گیا اور سیاست میں قدم جما کر اپنی معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی شروع کر دی۔ انگلستان میں کپڑے کی پہلی صنعت وجود میں آئی۔ H.H.Wilso لکھتا ہے۔

1813ء میں ہندوستانی ریشمی کپڑا، سوتی و اونی مصنوعات منافع کماتے ہوئے بھی برطانیوی منڈی میں برطانیہ کے تیار شدہ کپڑے سے نصف قیمت پر فروخت کیا جا سکا تھا۔ لہذا لازمی ہو گیا کہ ہندوستانی کپڑے پر 80فیصدڈیوٹی لگائی جائے اور اسے برطانوی کپڑے سے مہنگا کر دیا جائے۔ اگر ایسی ڈیوٹیاں نہ لگائی جاتیں تو برطانیہ کی ملیں ابتداء میں ہی بند ہو جاتی اور شاید بھاپ کی قوت کے باوجود بھی دوبارہ حرکت میں نہ آتی ۔ انہیں ہندوستان کی مصنوعات کو قربان کر کے وجود میں لایا گیا۔

پاکستان 1947ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ جنگ عظیم دوم نے برطانیہ کی کمر توڑ دی اور اب کالونیوں پر قبضہ رکھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ برطانیہ کے بعد امریکا کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔

پاکستان وجود میں آ گیا اور اب اس نو آباد ریاست کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا راستہ تو یہ تھا کہ برطانیہ نے دو سو سالہ قبضے کے دوران جس محتاج معاشی ڈھانچے کی تشکیل کی تھی اس میں کوئی تبدیلی کیے بغیر اسے آگے چلایا جاتا اور انگریز کے بجائے مقامی لیڈروں کی نگرانی میں اسی کالونیل سسٹم کو جاری رکھا جاتا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ کالونیل سسٹم کے متبادل ملک کو معاشی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی۔ برطانوی لونیل سسٹم جو ورثے میں ملا اسی کو جاری رکھا گیا مگر اب یہ برطانیہ کے بجائے امریکا کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ ملک کے لیے کوئی بہتر منصوبہ بندی نہ کی گئی جس کی وجہ سے معاشی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو گیا۔

چونکہ ہماری معیشت کو زراعت پر جامد کر دیا گیا اور اس کے لیے کوئی ملکی پالیسی ہوتی کے بجائے گورنمنٹ امریکا کے تیار کردہ پلان کے مطابق کام کرتی رہی۔ کبھی بھاری اقساط پر قرضہ تو کبھی ٹریکٹر سکیم اور کبھی اپنی مقدار سے زیادہ کھادوں کے ذریعے مقامی زراعت کو نقصان پہنچایا گیا۔ ہم زراعت میں بھی بہتر تبدیلیاں لا سکتے ہیں اور جدید مشینری کے ذریعے فصل کی مقدار کو بڑھا سکتے ہیں ۔ نہری نظام کو مزید بہتر بنا کر ہم جہاں زمین بنجر ہو رہی ہے کو قابل کاشت بنا سکتے ہیں۔ اس وقت آپ آلو کی قیمت دیکھ لیں، اب کوئی بھی کسان آلو کی کاشت کرنے کے لیے تیار نہیں اس طرح کی صورتحال کے لیے ملکی سطح پر پلان ہو نا چاہیے۔

زراعت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں گھریلو اور چھوٹی صنعت کاری کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ایک کریانہ ایک پلاسٹک کے کھلونے سے لے کر کریانہ کی شاپ تک بیشتر سامان گھریلو صنعت کاری سے بنایا جا سکتا ہے۔ مقامی لیول کے لوگ خوشحال ہوں گے اور ملکی معیشت بہتر ہو گی۔ اس کے علاوہ جو بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز ہیں ان کی اشیاء پر بھاری ٹیکس لگایا جائے اور قومی اشیاء پر ٹیکس کم کیا جائے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو مزید فروغ دیا جائے۔ جن لوگوں کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ رقم ہے انہیں انڈسٹریل فیلڈ میں پیسہ لگانے کی کوشش کی لگانا چاہیے جس سے مالک، ملک اور عوام کو فائدہ ہوگا۔ اشیاء باہر سے منگوانے کے بجائے خود مال تیار کر کے پوری دنیا کو فروخت کر کے ہم اپنی معیشت کو بہترین بنا سکتے ہیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.