تحریر: زہرا تنویر
ہم ترقی کی جتنی بھی منازل طے کر لیں لیکن اپنی پہلی درس گاہ اور وہ لوگ
کبھی نہیں بھول سکتے جو آپ کو چلنا سکھاتے ہیں۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے
کہ اپنے فن و صلاحیتوں کا اظہار احسن طریقے سے کرے اور اس کے لیے کسی اچھے
ادارے کا انتخاب کرے۔ آغاز میں قدم ڈگمگاتے بھی ہیں اور کچھ تجربہ ناکافی
ہونے کی بدولت ٹھیک رستے کی نشاندہی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ معاشرہ کوئی بھی
ہو رنگ، نسل و علاقائی فرق بھی ہو تو لکھاری کی پہچان اس کا قلم ہوتا ہے۔
لکھاری کے الفاظ اس کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں لیکن بعض اوقات مثبت و تعمیری
سوچ کے حامل لوگوں کو اپنی ایک خاص جگہ و مقام بنانے میں بہت سی مشکلات کا
سامنا کرتا ہے۔
مشکل وقت میں درپیش حالات و واقعات انسان کو مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے
میں کافی مددگار ہوتے ہیں کیونکہ میرے نزدیک ’’وہ انسان جہالت کے اعلی درجے
پر فائز ہے جو مشکل وقت سے سبق حاصل نہ کرے‘‘۔ بات ہو رہی تھی لکھاری کے
الفاظ کی۔ تو ہر لکھنے والے کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ایک اچھا پلیٹ
فارم ملے، جہاں وہ اپنے الفاظ کی روشنائی سے معاشرے میں مثبت کردار ادا کر
سکے۔ حالاں کہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کتابی باتیں ہیں اور
یہ باتیں کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی لین دین نہیں۔
شاید یہ بات اپنی جگہ درست ہو لیکن ہم سب کو ایک کٹہرے میں ہرگز کھڑا نہیں
کر سکتے۔
لکھنے والے کی طاقت اس کی قلم کی آواز ہوتی ہے اور معاشرتی، سیاسی، مذہبی و
معاشی مسائل پر لکھنے والوں کے الفاظ کو جب حقیقت سے دور باتیں کہہ کر رد
کیا جاتا ہے تو صاحب عاقلان پر افسوس و حیرت ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی
خاطر طنز و تضحیک کا رستہ اپناتا ہے۔ میرے قلمی سفر کا آغاز کالج میگزین سے
چلتا ہوا 2016 میں رائٹرز کلب تک آیا۔ تو سیکھنے کو وہ سب کچھ ملا جو ایک
معیاری لکھنے والوں کے لیے ازحد ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ دس لائن سے ایک
کالم لکھنے تک کا سفر رائٹرز کلب کی بدولت طے کیا تو ایک بات کا شدت سے
احساس ہوا کہ ہمارے ہاں نئے لکھنے والوں کے لیے رہنمائی کرنے والے لوگوں کی
بہت کمی ہے۔ اگر ہمارے گروپ کے ایڈمن عارف جتوئی صاحب نئے لکھاریوں کی
حوصلہ افزائی، نامی گرامی اخبارات و رسائل میں تحریر چھپنے تک رسائی کا
ذریعہ بنتے ہیں۔ تو اس کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد تو شامل نہیں۔ بلکہ
ایک سوچ، ایک عزم، ایک خواب اور ایک مقصد ہے۔
سوچ، عزم، خواب اور مقصد ایک ساتھ ہوں تو کامیابی ضرور حاصل ہوتی ہے۔
رائٹرز کلب ایک گروپ نہیں بلکہ ایک تعمیری و عملی پلیٹ فارم کا نام ہے جہاں
معیار کو اولین فوقیت دی جاتی ہے اور لکھنے کی ہر صنف (کالم، مضمون،
مراسلہ، افسانہ، ناول) کے متعلق لیکچرز و ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جاتا
ہے۔ چند لوگوں کے گروپ سے شروع ہونے والا سفر اب سب اخبارات میں ایک ممتاز
حیثیت و مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ سوشل ویب سائیٹ اور اردو و انگریزی ای
میگزین کا کامیابی سے آغاز کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سالنامہ کتاب جو
نئے لکھنے والوں کی تحاریر پر مبنی ہے اشاعت ہو چکی ہے جو رائٹرز کلب کے
بانی و منتظم کی محنت اور خلوص کا نتیجہ ہے۔ کتاب ’’قلم کا قرض‘‘ میں آپ کو
ہر صنف کی تحریر پڑھنے کو ملے گی جو نوجوان لکھاریوں کے پرخلوص اور سچائی
پر مبنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔ سقراط کہتا ہے کہ ’’وہ گھر جس میں کتابیں نہیں
اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو‘‘۔ کتابیں پڑھیں اور اپنی روح کو
تسکین پہنچائیں اور کبھی اپنے فن کا سودا نہ کریں آپ کا قلم آپ کی پہچان ہے
اپنی پہچان حق کہنے والوں کی صف میں بنائیں۔ باطل کو بے نقاب کریں کیونکہ
ہمارا قلم ہی ہمارا ہتھیار ہے اور اس کو صرف حق بیانی کے لیے استعمال کریں۔
اگر آپ کو اچھا رہنما مل گیا ہے اور آپ اس قابل ہو چکے ہیں کہ دوسروں کی
رہنمائی کریں تو پیچھے مت ہٹیں۔ دیے سے دیا جلتا رہے۔
پھر شعور و آگہی کے ہم کریں روشن چراغ
پھر جہاں میں فکر و فن کی رہ گزر پیدا کریں |