تحریر: وقاص معین
میں کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہا تھا۔ گاڑی میں سوار ہوا کچھ ہی دیر
میں ایک بھکاری کی صدا سنائی دی، ’’میری بیوی بیمار ہے۔ وہ اسپتال میں داخل
ہے، کل اس کا آپریشن ہے اور مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ صاحب جی! میری مدد
کرو اﷲ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے گا‘‘۔ اس نے یہ الفاظ سرائیکی زبان میں
کہے۔کچھ لوگوں نے اس کو سو پچاس روپے دے کر مدد کی لیکن جب میرے پاس آیا تو
میں نے یونہی کہہ دیا کہ ’’ایک ہفتہ پہلے بھی آپ کی بیوی کا آپریشن تھا اور
آج بھی آپریشن ہے۔ تمہیں شرم آنی چاہیے بھیک مانگتے ہوئے نوجوان ہو کر،
ہاتھ پاؤں بھی سلامت ہیں‘‘۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ گداگر منظر سے ایسے غائب
ہوا جیسے میں اسے ایک عرصے سے جانتا ہوں۔
خیر میں اپنے سفر پر روانہ ہوا دو دن کے بعد جب میری واپسی ہوئی تو پھر وہی
گداگر، وہی الفاظ، شام کا وقت تھا میں فوراً سائیڈ پر ہو گیا اور اس کی نقل
و حرکت پر غور کرنے لگا۔ لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر اس نے چار سے پانچ سو
تک اکٹھے کر لیے تھے پھر وہ اڈے کی پچھلی جانب پر بنے سینما ہال میں موجود
سنوکرگیم پر جاکر جوا کھیلنے لگا۔وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے جیب سے کوئی نشہ
آور چیز نکالی اور اس میں مگن ہوگیا۔ میں گھر کو نکل آیا مگر راستے بھر میں
یہ سوچتا رہا کہ نہ جانے ایسے کتنے گداگر پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں جو
نشہ کرنے کے لیے لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں اورحقیقی ضرورت مند لوگوں کا حق
مارتے ہیں۔
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس نوجوان کو گداگر کس نے بنایا۔۔۔۔ جوے نے،
نشے نے، یا پھر ان کی مدد کرنے والوں نے؟ یقینا 90% لوگوں کا جواب جوا یا
نشہ ہو گا جو کہ بالکل غلط ہے۔ ان لوگوں کو گدا گر بنانے میں سب سے بڑا
ہاتھ معاشرے کا ہی ہوتا ہے بنا حقیقت کو جانے ہم ان کے لیے نشہ جیسی غلاظت
کا بندوبست کر کے دیتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں ملک سے گداگری کبھی ختم نہیں
ہو گی ۔انجان لوگوں کو کچھ بھی دینے کے بجائے ہم اپنے ارد گرد موجود ایسے
لوگوں کی ضروریات کیوں پوری نہیں کرتے جوضرورت مند ہونے کے باجود کسی کے
آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں گداگر کی صدا سن کر آپ کو
لگے گا کہ یہ آپ نے پہلے بھی سنا ہوا ہے، ایک ہی مجبوری، ایک ہی رٹ اور ایک
ہی مانگنے کا انداز۔
دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ دنیا کا سب سے اچھا اور بہترین کام ہے۔ انسانیت
نام ہی اسی کا ہے کہ آپ کسی کی مجبوری میں اس کے کام آجائیں ۔اس جذبے کو
اپنے آپ سے کہیں نکلنے نہ دیجیے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں حق دار کو
پہچاننا چاہیے۔اپنے محلے داراورپڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ہمیں بس کے
فرنٹ پر کھڑا مصنوعی مجبور شخص نظر تو آجاتا ہے مگر ہمیں ہمارا اپنا پڑوسی
نظر کیوں نہیں آتا؟ کیا ہماری نظر کا قصور ہے یا ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ وہ
بھی کسی بس کے فرنٹ پر آکر صدا لگائے تو ہی ہم کچھ دیں گے۔سوچیے گا ضرور۔۔۔ |