تحریر: معاذ عتیق راز
آدمی میں جب ضمیر نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے تو پھر فتنہ و فساد اس کے
مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ جھوٹ کو سچائی پر ترجیح دینا اپنا حق سمجھتا ہے۔
حیا کے مقابلے میں بے حیائی اور خیر کی جگہ شر کو پسند کرنے لگتا ہے۔ یہی
چیزیں اسے ذلت وگمراہی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں جو جہنم کی آگ سے بھرا
ہوا ہوتا ہے۔ دنیا میں بے شمار قومیں فتنہ و فساد میں مبتلا ہوکر پیوند خاک
ہوئیں اور آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن گئیں۔ اﷲ کے رسول سیدنا
ابراہیم علیہ السلام کی قوم بتوں کو پوجتی تھی۔ آپ کی لاکھ کوششوں کے
باوجود ان کی بیوی اور بھتیجے سیدنا لوط علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایمان
نہ لایا۔ ان تینوں نے مصر کی طرف ہجرت کی۔ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام
نے سیدنا لوط علیہ السلام کو دین کی تبلیغ کے لیے اردن کے شہر سدوم کی طرف
بھیجا۔ سیدنا لوط علیہ السلام کو بھی اﷲ تعالی نے نبوت عطا فرمائی۔
سدوم کے لوگ دنیا کے بدترین لوگ تھے۔ یہ قوم طرح طرح کے گناہوں کی دلدل میں
دھنسی ہوئی تھی۔ ان کا سب سے بڑا اور قبیح جرم مردوں سے ہم جنس پرستی تھی۔
لذت آشنائی اور شہوت پرستی میں یہ قوم تمام حدیں پھلانگ کر شہوت رانی کی
انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس قوم نے فطری اور طبعی طریقوں کو ترک کر کے
سدومیت کے غیر فطری غیر طبعی اور شنیع جرم کو اختیار کیا۔ ان کے حالات قرآنِ
کریم کی کئی سورتوں (الاعراف، ھود، الحجر، الذاریات، القمر، النمل،
العنکبوت، الشعراء، النجم، وغیرہ) میں بیان کیے، تاکہ قیامت تک آنے والی
نسلیں اس جرم سے بچیں اور قوم لوط کے انجام سے عبرت پکڑیں۔ چانچہ اﷲ تعالی
نے سورہ اعراف میں ان کا واقعہ یوں بیان کیا ’’اور (اسی طرح جب ہم نے) لوط
کو (پیغمبر بنا کر بھیجا) تو اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسی بے
حیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہل علم میں سے کسی نے اس طرح کا
کام نہیں کیا‘‘۔ یعنی خواہش نفسانی پوری کرنے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر
مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے
والے ہو اور ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ وہ بولے، ’’ان
لوگوں (لوط اور ان کے گھر والوں) کو اپنے گاؤں سے نکال دوں (کہ) یہ لوگ پاک
بننا چاہتے ہیں‘‘۔
اﷲ تعالی کا یہ قانون ہے کہ وہ اس وقت تک کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتا جب
تک کہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنا کوئی رسول نہ بھیج دے۔ لیکن جس کی
فطرت مسخ ہو چکی ہو، بے حیائی جس کے رگ و پے میں زہر بن کر اتر چکی ہو۔ اس
کے لیے ہر نصیحت بیکار جاتی ہے۔ غلطی اور گناہ انسان سے ہوتے آئے ہیں اور
توبہ کرنے والوں کے لیے اﷲ کی رحمت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا، لیکن جو
گناہ کو لذت سمجھ کر کرنے لگے، گمراہی کو سچائی سمجھ کر ایسے فعل سرانجام
دینے لگے جس سے حیا منہ چھپائے اور اخلاق در بدر ہو جائے تو پھر ایسی قوم
کا مٹ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اﷲ تعالی نے ہم جنس پرستی کے قبیح جرم کی
شکاراس قوم کوبھی دردناک عذاب سے دوچار کیا۔
سورہ ھود میں ان پر عذاب کا واقعہ یوں بیان کیا ہے۔ ’’جب ہمارے فرشتے لوط
کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج
کا دن بڑی مشکل کا دن ہے اور لوط کی قوم کے لوگ ان کے پاس بے تحاشا دوڑتے
ہوئے آئے اور یہ لوگ پہلے ہی سے برافعل کیا کرتے تھے۔ لوط نے کہا کہ اے
قوم! یہ (جو) میری (قوم کی) لڑکیاں ہیں، یہ تمہارے لیے (جائز اور) پاک ہیں۔
تو اﷲ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے میں میری آبرو ضائع نہ کرو، کیا تم
میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں؟ وہ بولے: تم کو معلوم ہے کہ ہمیں تمہاری
قوم کی بیٹیوں کی کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری غرض ہے اسے تم خوب جانتے ہو۔
قوم لوط کو ان کی حد سے بڑھی ہوئی سرکشی نافرمانی اور بے حیائی پر جبرائیل
علیہ السلام نے اﷲ تعالی کے حکم سے بستیوں سمیت آسمان تک اٹھایا اور پھر
نیچے پھینک کر زیر و زبر کر دیا اور ان پر پتھروں کی بارش کی۔ جس سے ان کا
نام و نشان ہی مٹ گیا۔ پھر آئندہ اس فعلِ شنیع کے مرتکب ہونے والوں کو سخت
دھمکی دی کہ اگر وہ اس فعل سے باز نہ آئے، تو ان کا انجام بھی اسی طرح
دردناک ہوگا۔ اﷲ تعالی نے اس بستی کو بدبودار نمکین پانی کے دریا میں تبدیل
کردیا، جو آج بحیرہ مردارکے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کے پانی اور اس کے ارد
گرد کی زمین سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ اﷲ تعالی کی قدرت، عظمت
اور اس کی گرفت کی ایک نشانی بن چکا ہے‘‘۔
اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ایک با حیا عفت و عصمت اور فطرت کے عین مطابق
نظام حیات دیا ہے۔ اﷲ تعالی نے اپنی رحمت سے ہمارے لیے ہر وہ چیز حلال اور
جائز رکھی ہے جو ہمارے لیے مفید نفع بخش اور ہماری سلامتی و بقاء کے لیے
ضروری ہے اور ہر اس چیز کو حرام و ممنوع کردیا ہے جو ہماری دنیا یا آخرت کے
لیے نقصان دہ ہے۔ انسان کی فطری خواہش کی تسکین کے لیے اﷲ تعالی نے عورت کو
پیدا فرمایا ہے اور انسانی شہوت کی تسکین کے لیے نکاح کا مقدس نظام انسانوں
کو دیا ہے تاکہ انسانوں کے جذبات کو مناسب راہ مل سکے، نسل انسانی کی بقا
کا سامان مہیا ہو اور معاشرے میں امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
|