اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیق کرکے ان کی ضروریات کی
تکمیل کے سارے اسباب مہیا فرمادئے ۔ کھانے پینے کے واسطے مختلف قسم کی
غذائیں ، انواع واقسام کے اناج ، طرح طرح کے میوے ، ہری ہری سبزیاں اورحلال
جانوروں کے لذیذ گوشت میسر کردئے ۔ انسان اللہ کی ان مختلف غذاوں سے جی بھر
کر لطف اندوز ہوتا ہے اور اپنے خالق کی اس عظیم نعمت وصنعت پر شکر بجالاتا
ہے ۔ جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے یا ان کے بدلے شکرگزاری سے انحراف
کرتا ہے وہ اپنے خالق ومالک کا ناشکرہ ہے۔
سورہ الرحمن میں اللہ نے متعدد نعمتوں کا ذکر کیا ہے ، ان میں زمین سے
پیداہونے والے غلوں اور پھلوں کا بھی ذکر ہے ۔ ان نعمتوں کا تذکرہ کرکے کہا
کہ تم کون کون سی نعمتوں کا انکار کروگے ۔ فرمان باری تعالی ہے :
فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ
وَالرَّيْحَانُ، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (الرحمن :11-13)
ترجمہ: جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں اور بھس والا اناج
ہے اور خوشبودار پھول ہیں پس(اے انسانواورجنو!)تم اپنے پروردگار کی کس کس
نعمت کو جھٹلاوگے ۔
کسان اپنے کھیتوں میں بیج بوتا ہے اور کافی محنت کرتا ہے مگر نتیجہ یعنی
پھل اللہ ہی اگاتا ہے ، اللہ کے علاوہ کوئی اناج اور پھلوں کو پیدا کرنے
والا نہیں ہے چنانچہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیڑپودے کے خالق نے کہا:
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ،أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ
الزَّارِعُونَ (الواقعه:63-64)
ترجمہ:اچھا یہ بتاؤکہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو، کیا اسے تم ہی اگاتے ہو
، یا اگانے والے ہم ہیں۔
جیساکہ اوپر کہا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں پہ اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری
ہے۔ پھلوں اور غلوں میں اللہ نے زکوۃ فرض کیا ہے اس کی ادائیگی مال کی پاکی
کے ساتھ اللہ کا شکر بجا لانا بھی ہے ۔ اللہ زمینی پیداوار کا حق ادا کرنے
کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ
ۖ(الأنعام:141)
ترجمہ : ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤجب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے
وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو۔
اس بات کا ذکر دوسرے مقام پہ اللہ نے اس انداز میں بھی کیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ
وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ(البقرة:267)
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے
ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو۔
کن کن چیزوں میں زکوۃ دی جائے گی ؟
تمام قسم کی زمینی پیداوار میں زکوۃ نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نےبیان کیا ہے کہ چارقسم کے اناج اور پھلوں میں زکوۃ دینا ہے۔
موسی بن طلحہ ؒ بیان کرتے ہیں:
كان عِنْدنا كتابُ معاذِ بنِ جبلٍ – رضِي اللهُ عنه - ، عن النبيِّ - صلَّى
اللهُ عليهِ وسلَّم - : أنَّه إِنَّما أمَرَه أن يَأْخُذَ الصَّدقةَ : من
الحِنْطةِ ، والشَّعيرِ ، والزَّبيبِ ، والتَّمْرِ۔
ترجمہ: ہمارے پاس معاذ بن جبل ؓ کی وہ تحریر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے انہیں عطا کی تھی جس میں انہوں نے ان کو حکم فرمایا تھا کہ
گندم ، جو ، منقی اور کھجور میں سے زکوۃ لی جائے ۔
بعض روایات میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے مگر شیخ البانی نے پانچویں چیز مکئی
کے ذکر والی روایت کو منکر کہا ہے اور مکئی کے بغیر چار چیزوں والی حدیث
صحیح کہا ہے ۔(ضعيف ابن ماجه:۳۵۸)
مذکورہ حدیث کی چارچیزوں میں سے دو گندم وجو کا تعلق اناج اور دومنقی
وکھجور کا تعلق پھل سے ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ غلہ اور پھل دونوں پر
زکوۃ ہے مگر ہر قسم کے اناج اور پھل پہ زکوۃ نہیں ہے ۔ یہاں چار چیزیں
معلوم ہوگئیں اور چار کا ہی تذکرہ ہونے کا سبب اس زمانے کے مطابق ہے چار
میں محصور کرنا مقصود نہیں ہے، ان کے علاوہ ہر قسم کا اناج اور پھل جو وزن
کیا جاسکے اور ذخیرہ کیا جاسکے ان سب پر زکوۃ ہے ۔ گویا اناج اور پھلوں میں
زکوۃ کے لئے دو صفات ہونی چاہئے ایک وزن کے قابل ہونا دوسری ذخیرہ اندوزی
کے قابل ہونا۔ان دو صفات کی روشنی میں اناج میں گندم وجو کے علاوہ چاول،
دال، مکئی ، موم پھلی وغیرہ اور پھلوں میں کھجور ومنقی(کشمش) وغیرہ پرزکوۃ
ہے۔
پھلوں میں کسی قسم کے میوے مثلاآم، امردود، سیب ، ترانگور، انار، موسمی
وغیرہ پہ زکوۃ نہیں ہے اور کسی قسم کی سبزیوں پر بھی زکوۃ نہیں ہے یعنی
پیاز، لہسن ، گاجر ،مولی، ساگ وغیرہ میں زکوۃ ادا نہیں کرنی ہے ۔ ترکھجور
اور انگور میں زکوۃ نہیں ہے ، سوکھ جانے پر زکوۃ ہے۔گننا ، انجیر، زیتون
اور شہد میں زکوۃ نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم رہے کہ زکوۃ کے وہیں آٹھ
مصارف ہیں جن کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر بائیس میں ہے۔
زکوۃ کی مقدار کیا ہے ؟
اوپر جن پیداوار میں زکوۃ کا ذکر کیا گیا ہے ان کا پانچ وسق ہونا ضروری ہے
تب ہی زکوۃ فرض ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ليسَ في حَبٍّ ولا تَمْرٍ صَدَقَةٌ، حتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أوْسُقٍ، ولا
فِيما دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، ولا فِيما دُونَ خَمْسِ أواقٍ
صَدَقَةٌ.(صحيح مسلم:979)
ترجمہ:نہ غلے میں صدقہ ہے نہ کھجور میں حتیٰ کہ وہ پانچ وسق تک پہنچ جائیں
اور نہ پانچ سے کم اونٹوں میں صدقہ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم(چاندی) میں
صدقہ ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں دینی ہوگی ۔ اب جاننا
یہ ہے کہ پانچ وسق آج کے زمانے میں کتنا کیلوگرام ہوتا ہے؟۔ ابن
ماجہ(ح:361)اور ابوداود(ح:1559) میں ایک وسق کی مقدار ساٹھ صاع بتلائی گئی
ہے مگر یہ روایت سندا ضعیف ہے ، ارواء الغلیل میں اس روایت پہ بحث کرتے
ہوئے شیخ البانی نے ذکر کیا ہے کہ اس کے دوسرے طریق بھی ہیں اور اس کا شاہد
بھی ہے ۔(إرواء الغليل:3/280)
امام نووی نے المجموع میں ابوداود کی روایت ذکر کے ضعف کا حکم لگایا ہے اور
کہا ہے کہ اس کے معنی پہ اجماع ہوا ہے ۔ ابن المنذروغیرہ نے اس بات پہ
اجماع نقل کیا ہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ۔
جب ایک وسق ساٹھ (60)صاع کا ہوگا تو پانچ وسق برابر تین سو (300)صاع ہوگا۔
زکوۃ الفطر میں ایک صاع کا وزن عام طور سےتقریبا ڈھائی کلو(2.5)مانا جاتا
ہے ، شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے یہاں ایک صاع تین کلو اور شیخ ابن عثیمین کے
یہاں دوکلوصفرچار(2.04)کے برابر ہے ۔ اگر ڈھائی کلو کے حساب سے تین سو صاع
کا حساب لگاتے ہیں تو اناج اور پھلوں میں زکوۃ کی مقدارتقریبا سات سو
پچاس(750) کلو گرام ہوگی۔ اس سے کم ہو تو پھر زکوۃ فرض نہیں ہے ، ہاں تھوڑا
بہت کم ہو تو زکوۃ دینی ہوگی کیونکہ یہ وزن بھی دوسرے اہل علم کی پیمائش کے
حساب سے زیادہ ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان رہے کہ صاع میں اختلاف کی وجہ سے پانچ
وسق کا انگریزی وزن دوسرے علماء کے یہاں فرق فرق ہوسکتا ہے۔ شیخ ابن باز کے
یہاں نو سو(900) کلو بنتا ہے اور شیخ ابن عثیمین کے یہاں چھ سوبارہ(612)کلو
بنتا ہے۔
پھلوں اور اناج میں زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ
زکوۃ کی دوسری اصناف میں نصاب کے ساتھ ایک سال پورا ہونے کی شرط ہے جبکہ
اناج وپھل کی زکوۃ اسی وقت ادا کرنی ہے جس وقت کاٹا جائے جیساکہ اوپر سورہ
انعام کی آیت گزری ہے یعنی ایک سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ اس لئے جب کوئی
گندم، جو،چاول، دال، کشمش، کھجور وغیرہ کی فصل کاٹے اور ان کی مقدار سات سو
پچاس کلوگرام کے برابر ہوجائے تو اس کی زکوۃ ادا کرے ۔ ان اشیاء میں دوطرح
سے زکوۃ ادا کی جائے گی ۔ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے:
عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلم : أنه سنَّ فيما سقتِ السماءُ
والعيونُ أو كان عثرِيًّا العشرُ وفيما سُقيَ بالنضحِ : نصفُ العشرِ .(صحيح
الترمذي:640)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے یہ طریقہ جاری فرمایاکہ جسے بارش یاچشمے کے پانی نے
سیراب کیا ہو، یا عثر ی یعنی رطوبت والی زمین ہوجسے پانی دینے کی ضرورت نہ
پڑتی ہوتو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اورجسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہواس
میں دسویں کاآدھایعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔
پہلا طریقہ : جو زمیں آسمانی بارش یا نہروتالاب کے پانی سے سیراب کی جائے
یا اس میں پانی کی ضرورت ہی نہ پڑے تو اس زمین سے حاصل شدہ پیداوار پہ
دسواں حصہ زکوۃ دینی ہوگی یعنی دس حصے میں سے ایک حصہ یا کہہ لیں کل
پیداوارکا دس فیصد ۔
دوسرا طریقہ : جو زمین بورنگ،کنواں اور نل وغیرہ سے آبپاشی کی گئی ہو اس کی
پیدوار میں بیسواں حصہ یعنی پانچ فیصد زکوۃ دینی ہوگی۔
زکوۃ ادا کرتے وقت پیداوار پہ سیرابی کے علاوہ دیگر مصروفات کا اعتبار نہیں
ہوگا بالفاظ دیگر زمین کی جتائی ، کھاد، دیکھ ریکھ ، کٹائی اور مزدوری
وغیرہ پہ صرف کئے پیسے کی وجہ سے عشر یا نصف عشر پر فرق نہیں آئے گا اور نہ
ہی زکوۃ دیتے وقت یہ اخراجات نکال کر زکوۃ دی جائے گی ۔
بٹائی، ٹھیکہ، بھرنا اور کھیتی کا مشروط طریقہ
سماج میں کھیتی باڑی کے متعدد طریقے رائج ہیں ،ہمیں ان کی شرعی حیثیت جاننے
کی ضرورت ہے تاکہ غیرشرعی طریقےسے بچا جاسکے ۔
ایک مسئلہ بٹائی کا ہے یعنی ایک شخص زمین دے اور دوسرا کھیتی کرے اور
پیداوار آپس میں برابر برابر بانٹ لے۔ یہ معاملہ زمین بٹائی پر دینے
کاہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، نبیﷺ نے خیبر کی زمین بٹائی پہ لگائی تھی ،
اس کی پیداوار کا آدھا حصہ مسلمانوں کو ملتا تھا۔ بٹائی میں لگانی اور
پیداوار کا معاملہ طے ہونا چاہئے یعنی کاشت کاری پہ ہونے والے اخراجات کا
معاملہ طے اور واضح ہو،نفع میں دونوں طے شدہ مقدار میں شریک ہوں گے اور
نقصان کی صورت میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔ جب پیداوار تقسیم ہوجائے اور
کاشت کار وزمین مالک کی پیداوار نصاب تک پہنچ جائے تو دونوں اس کی زکوۃ ادا
کریں گے۔ نصاب تک نہیں پہنچے تو زکوۃ نہیں ہے ۔
دوسرا مسئلہ بھرنا کا ہے اس کی شکل یہ ہے کہ قرض حاصل کرنے کے لئے زمین
گروی رکھی جاتی ہے اورجب تک قرض نہیں لوٹایا جاتا تب تک مرتہن زمین میں
کاشت کرتا ہے یا اس سے دوسرا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ معاملہ شرعا جائز نہیں
ہے ۔جب کوئی قرض حاصل کرے اور قرض کے بدلے کوئی چیز بطور ضمانت گروی رکھ دے
، اس حد تک معاملہ جائز ہے مگر جو چیز بطور ضمانت رہن رکھی گئی ہے اس سے
فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے جبکہ یہاں بھرنا میں زمین سے فائدہ اٹھا یا
جارہاہے،اگرچہ قرض دار کی طرف سےزمین سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہو پھر بھی
جائز نہیں ہے کیونکہ قرض کی مہلت کے بدلے یہاں فائدہ اٹھایا جارہا ہے جو کہ
سود کی شکل ہے۔ اس گروی رکھی زمین سے فائدہ اٹھانے کی جائز شکل موجود ہے
کیوں نہ ہم جائز طریقے سے فائدہ اٹھائیں ۔ قرض لینے والا مرتہن سےمزارعت
(بٹائی) کا معاملہ طے کرلے اور اس کی پیداوار سے اپنا حصہ لیا کرے یا اپنا
حصہ چھوڑ کر اتنا قرض میں کم کروالے۔ اسی طرح زمین کرائے پر بھی دے سکتے
ہیں جس طرح مکان یا تجارتی زمین کرائے پر لگائی جاتی ہے۔ ان دو صورتوںمیں
قرض دار اور قرض خواہ دونوں جائز طریقے سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ زمین کرایہ
پر دینے کی صورت میں اس کا عشر یا نصف عشر کاشت کار پر ہوگا۔شیخ ابن بازؒ
لکھتے ہیں : زمین سے اگنے والے دانوں اور پھلوں کی زکوۃ کاشت کار پر واجب
ہے اگرچہ زمین اجرت پر لی گئی ہو اور جس شخص نے زمین اجرت پر دی اور اس کی
بطور اجرت لی ہوئی رقم اگر نصاب کو پہنچ گئی اور ٹھیکہ کی تاریخ کے اعتبار
سے اس پر سال گزر گیا تو اس پر اس رقم کے اعتبار سے زکوۃ دینا واجب ہے۔
(دائمی کمیٹی فتوی : 9388)
تیسرا معاملہ بعض علاقوں میں "من کھپ" کاہے یعنی زمین والا دوسرے شخص کو اس
شرط پہ کھیتی کے لئے زمین دے کہ فی کٹھہ (720 یا 1361 اسکوائرفٹ)ایک مَن
اناج دے گا۔
یہ معاملہ مشروط طریقے سے زمین بٹائی پر دینے کا ہے ، اس میں شرعی طور
پرقباحت ہے ۔ جب زمین والا فی کٹھہ ایک من اناج طے کرلیتا ہے تو نقصان کی
صورت میں صرف عامل کو خسارہ ہوگا ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ آسمانی آفات کی وجہ
سے مکمل فصل برباد ہوجائے ایسی صورت میں عامل کا اپنا جو نقصان ہوا ، ہوا
ہی، زمیندار کو فی کٹھہ اناج اپنے گھر سے دینا پڑے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے
کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔
زکوۃ اداکئے گئے اناج اور پھل کی قیمت پر زکوۃ
بہت سے کاشت کاراپنی پیداوار بیج دیا کرتےہیں ، ایسی صورت میں سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ پہلے اس نے عشر یا نصف عشر جو ادا کیا تھا وہی کافی ہے یا بیچنے
کے بعد اس کی قیمت پر پھر سے زکوۃ دینی ہوگی؟
اس کا جواب جاننے سے پہلے ایک بات یہ جان لی جائے کی کہ زکوۃ نفس مال میں
سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس قیمت اور یا اس کے مشابہ کوئی دوسری چیز
بھی دے سکتے ہیں ، یہ زکوۃ کی تمام اقسام میں جائز ہےمثلا سونے کی زکوۃ
دیتے وقت سونا ہی بطور زکوۃ دینا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی قیمت دینا کافی
اور جائز ہے۔
اب سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی نے غلہ /پھل سے اس کی کٹائی کے بعد زکوۃ
ادا کردیا پھر جو غلہ /پھل بچا اسے بازار میں بیچ دیا ۔ بیچنے کے بعد جو
قیمت ہاتھ آئی وہ سونا اور چاندی کے قبیل سے ہے۔اس پر بھی زکوۃ ہے مگر دو
شرطوں کے ساتھ یہ قیمت سونا یا چاندی کے نصاب تک پہنچتی ہو اور اس پر ایک
سال کا وقفہ گزرجائے جبکہ غلہ اور پھل کی صورت میں محض ایک بار شروع میں
زکوۃ دینی ہوتی ہے بعد میں وہ سالوں پڑا رہے اس کی کوئی زکوۃ نہیں ہے۔
میوے اور سبزیوں کی تجارت پر زکوۃ
اوپر ہم جان چکے ہیں کہ کسی قسم کے میوے اور کسی قسم کی سبزی پر زکوۃ نہیں
ہے ، ہاں اگر کوئی سبزیوں اورمیوے کی تجارت کرتا ہے مثلا ساگ، آلو،پیاز،
ٹماٹر، سیب، انار،جانوروں کا چارہ وغیرہ تجارت کی غرض سے کاشت کرتا ہے تو
ان کی اشیاء میں زکوۃ نہیں ہے مگر ان کی تجارت سے جو مال حاصل ہوگا اس پر
زکوۃ ہوگی بشرطیکہ مال نصاب تک پہنچتا ہو اور ایک سال گزرجائے۔ |