پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ اور زیادہ
دیہی آبادی پر مشتمل ہے ۔اسی لیئے بہت سارے دیہاتی لوگ شہروں میں نقل مکانی
کرتے ہیں کیوں کہ دیہات میں ذریعہ معاش کی کمی ہوتی ہے۔شہروں میں آکر انھیں
بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جن میں سب سے زیادہ اہم رہائش کا
مسئلہ ہوتا ہے ۔اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے پوری فیملی ہی کام پر لگ جاتی ہے
یا کسی بھی امیر گھر میں ملازمت اخیتار کرنے سے ان کا یہ مسئلہ حل ہو جاتا
ہے کیونکہ اکثر بڑے بڑے لوگوں نے گھر وں میں سرونٹ کوارٹر بنا رکھے ہوتے
ہیں جو کہ نوکروں کے رہنے کے کام ہی آتے ہیں۔ یا پھر گاؤں کے رہنے والے
لوگوں اپنے چھوٹے بچوں کو مالکان سے بھاری رقم لے کر ان کے حوالے کر دیتے
ہیں ۔اب کچھ مالک تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں اپنی اچھائی اپنے نرم رویہ کی
وجہ سے ملازمین کے دل جیت لیتے ہیں ۔لیکن کچھ مالک ایسے تنگ نظر اور
نفسیاتی قسم کے ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی باتوں پر ملازمین کو نہ صرف ڈانٹ
ڈپٹ کرتے ہیں بلکہ مار پیٹ بھی کرتے ہیں اور چوری کا الزام لگا کر تھانے
پکڑاوانے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں ۔گاؤں سے آئے ہوئےلوگ جو کہ پہلے ہی غربت
کی چکی میں بری طرح سے پیس رہے ہیں جن کے پاس نہ کھانے کو روٹی نہ پہننے کو
لباس اوپر سے اکثر ایسے بچوں کا باپ نشئی ہوتا ہے بچے زیادہ ہونے کی وجہ سے
ماں بہت ہی مشکل سے بچوں کا پیٹ پالتی ہے سب ماں اور بچے مل جل کر کام کرتے
ہیں باپ کا نشہ بھی پورا کرتے ہیں اور اپنا بھی پیٹ پالتے ہیں ۔اس لیئے یہ
لوگ بہت ہی زیادہ مجبور ہوتے ہیں اور چپ چاپ ان رئیسوں کی ہر ڈانٹ ڈپٹ مار
پیٹ کے عادی ہو جاتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم و ستم پر خاموشی اختیار کرتے
ہیں ۔یا بہت سارے ماں باپ نے پیسے لیے ہوتے ہیں اس لیئے اپنی زبان بند
رکھتے ہیں کیوں کہ جو ایڈونس والدین نے لیا ہوتا ہے نہ وہ لوٹا سکتے ہیں نہ
بو سکتے ہیں یہاں تک کہ کئی باریہ امیر زادے یا خود صاحب حضرات ان ملازمین
کی بیٹوں کی عزتوں تک سے کھیل جاتے ہیں لیکن یہ غربت کی دلدل میں دھنسے
ہوئے لوگ ایک بے زبان جانور کی طرح چپ چاپ ہر ظلم سہہ جاتے ہیں ۔ان کی ان
چپ کا جو سب سے بڑا نقصان ہوا ہے ان دولت کے غرور میں اندھے لوگوں نے اب ان
ملازمین کے بچوں کی جان لینی شروع کر دی ہے ۔ تشدد کے بہت سارے واقعات
رونما ہو رہےہیں ۔جن میں اسلام آباد میں 10 سالہ بچی طیبہ کو جج کے گھر میں
شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔اسی طرح 2102 میں فیصل آباد میں سمیہ نامی
بچی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو کہ ایک پراپرٹی ڈیلر کے ہاں کام کرتی
تھی پراپرٹی ڈیلڑ کی بہنیں اور ماں سمیہ کو چھریوں سے مارتی تھیں ۔ لاہور
میں ایک مسلم لیگی رہنما نے عطیہ نامی بچی اور طاہر نامی 16 سالہ بچے کو
شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس سے طاہر کی موت واقع ہوگئی ۔اس طرح بہاولپور
میں 8 سالہ شمیم جس کو میاں یونس نامی شخص نے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔10
سالہ ثنا کو کراچی میں مالکان نے تشدد کا نشانہ بنایا ملتان شالیمار ٹاؤن
میں خدیجہ نامی 10 سالہ بچی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا بچی نے بھاگ کر
جان بچائی ۔لاہور اچھرہ میں 10 سالہ ملازمہ سعدیہ پر میاں بیوی نے تشدد کیا
اسی طرح آئے دن بے شمار واقعات سامنے آرہے ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ بات ہے
اس کی ورک تھام کے لیئے قانون سازی تو ہو چکی ہے لیکن اس پر سختی سے عمل
درآمد کرانا ہوگا نہیں تو یہ انسانوں کی شکل میں وحشی درندے جن کی شکلیں تو
مومنوں جیسی ضرور ہیں لیکن کرتوں میں یہ وحشی درندے کو بھی مات دے جاتے ہیں
انسانی حقوق پر لمبے لمبے لیکچر دینے والے اپنے اوپر انسانیت کا خول چڑھانے
والوں کے اندر چھپے وحشی انسان کو سامنے لانا ہوگا جو کہ بہت ہی بے دردی سے
معصوم ملازمین پر تشدد کر کے معصوم جانو ں سے کھیل رہے ہیں ۔ایک چھوٹا بچہ
جس کی عمر بمشکل 10 سے 15 سال ہو گی جو دن اس کے کھلینے کودنے کے ہیں ان
ایام میں وہ بچہ مشت کی چکی میں پس رہا ہے اس بچے کے بھی کچھ جذبات ہیں
احساسات ہیں کیوں کہ اللہ نے تمام انسانوں کر برابر بنایا ہے جو پارٹس ایک
ڈاکٹر انجینئر میں لگائے ہیں وہی ایک عام مزدوری کرنے والے میں لگائے ہیں
اگر ایک امیر آدمی کی خواہشات ہیں تو ایک غریب آدمی بھی خوہشات کا غلام ہے
امیر کی خواہشات پوری ہوجاتی ہیں غریب اپنی خواہشات اپنے اندر دبائے رکھتا
ہے،لیکن جب غریب آدمی کی خواہش غریب پر حاوی ہو جاتی ہے تو اسے غلط کام
کرنے پر اکساتی ہے ۔ اسی لیئے بعض اوقات ہوتا ہے کہ غریب ملازم چوری بھی کر
لیتے ہیں لیکن اس کی سزا یہ نہیں اس کی جان لے لی جائے یا کسی بچی سے کوئی
پلٹ ٹوٹ گئی ہے تو اس کی جاں لے لی جائے یا کوئی کام ٹائم پر نہیں کیا تو
اس پر بُری طرح سے تشدد کیا جائے یا جان سے مار دیا جائے ، اللہ پاک نے سب
انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے کوئی کسی کا غلام نہیں ہر انسان دوسرے انسان
سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے اسی طرح یہ دینا کا نظام چل رہاہے ۔اس لیئے کسی
طاقتور کو کمزور کی جان لینے کمزر پر تشدد کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ملازمین
پر تشدد کی ورک تھام کے لیئے جو قانانی سازی کی گئی یا کی جا رہی ہے اس پر
سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا ،نہیں تو ایک غریب کی امیر سے نفرت زور پکڑ
کر کوئی رخ اختیار کر لے گی ۔جو لوگ غریب ملازمین پر تشدد کرتے ہیں ان کی
جان تک لینے سے گریز نہیں کریں گے ایسے لوگوں کو سزا لازمی ہونی چاہیئے ۔
جو این ،جی اوز انسانی حقوق پر کام کر رہی ہیں جن کا پوری دُنیا میں ایک
نام ہے جو بہت بڑے بڑے قصیدے پڑھ کر سناتیں ہیں کہ ان سے زیادہ کام کوئی کر
ہی نہیں رہا ایسے تشدد کے پرُ مذمت موقعوں پر ان کی زبان پر اس طرح آبلے پڑ
جاتے ہیں کہ شائد ان سے بولا ہی نہ جا رہا ہو بہت سارے بڑے بڑے اینکرز کی
زابنیں ایسے موقعون پر بند ہو جاتیں ہیں ۔ گھریلو ملازمین پر تشدد کے پرُ
مذمت واقعات کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی آج مارننگ شوز میں میں ہر ٹاپک پر
بات ہوتی ہے لیکن بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کو ئی باقاعدہ پروگرام ان
معصوم ملازمین کے لیئے بھی کیا گیا ہو جن میں ان کے حقوق کی بات کی ہو۔آئے
دن اخبارات ملازمین پر تشدد کی خبریں شائع ہوتی ہیں بہت سارے بچوں کی تشد د
سے موت بھی واقع ہو گی اور اس بے رحمی سے ان پر تشدد کیاگیا جو ناقابل بیان
ہے لیکن اس پر کو ئی خاص ایکشن نہیں لیا گیا جس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ
قانون صرف غریب کیلئے ہے امیر کے لیئے کوئی قانون نہیں ایک ریاست کا کام اس
میں رہنے والے تمام باشندوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اسی وجہ سے اس کا
نام ریاست ہوتا ہے اگر کوئی ریاست ایک غریب کو تحفظ نہ دے سکے اس کو ریاست
کہلانے کا کوئی حق نہ ہوگا ۔جس ریاست میںامیر غریب کے لیئے قانون مساوی
ہوتا ہے وہ قومیں ہی ترقی کرتیں ہیں اور مہذب کہلاتیں ہیں ۔اس لیئے اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں بھی ان ملازمین پر تشدد کے کے واقعات پر قابو پانے
کیلئے قانوں کی پاسداری کرنی ہو گی ان مجرموں کو سخت سزادینی ہوگی ۔تب ہی
ان واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے - |