پی ٹی ایم۔۔۔جو انہیں باہر سے مل رہاہے وہ اندر سے ممکن نہیں

دہشتگردی نے پوری دنیا کو تو متا ثر کیا ہی ہے لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس کو اس نے برُی طرح متا ثرکیا ہے۔ایک عرصہ تک اس نے معمولات زندگی کو کافی حد تک مفلوج رکھا حالانکہ پاکستان کا ان وجوہات سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا جس نے اس نئی افتاد کو دُنیا پر نازل کیا تھا۔11 9/ کا واقعہ ہوا امریکہ میں تھا، بقول امریکہ آپریٹ افغانستان سے ہوا اور مبینہ ماسٹر مائنڈ یعنی اُسامہ بن لادن باشندہ سعودی عرب کاتھا لیکن سزا سب سے زیادہ پاکستان کو ملی۔ ایک طرف امریکہ کا دباؤ رہا دوسری طرف افغانستان سے مسلسل دہشت گرد یہاں درآمد ہوتے رہے اور ملک میں امن و امان ایک خواب و خیال بن کر رہ گیا کوئی دن ہی جانا تھا کہ تخریب کاری نہ ہو دھماکے روز کا معمول بن گئے۔شاہراہیں،مساجد،سکول حتّٰی کہ جنازے بھی نشانے پر آگئے۔قبائلی علاقے ممنوعہ علاقے بن گئے دوسرے لوگ تو کجا خود ان علاقوں کے لوگ اپنے گھروں میں نہ رہ سکتے تھے اور انہیں نقل مکانی کرنا پڑی ایسے میں شدید اور سخت ترین فوجی آپریشن ناگزیر ہوگئے۔ 16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پر حملے اور بچوں کی شہادتوں کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا اور دہشت گردوں کے خلاف ایک شدید آپریشن کیا گیا اور ملک میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہوگئی،دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی زندگی بہت حد تک معمول پر آگئی۔ دہشت گردی کے ان سالوں میں سب سے زیادہ نقصان خیبر پخونخواہ میں ہوا اور یہ نقصان جانی اور مالی دونوں طرح کا تھا۔ ہمارے قبائلی علاقے بھی اس عفریت سے بُری طرح متا ثرہوئے۔از اپنے سخت جغرافیائی حالات اور مخصوص قبائلی نظام کی وجہ سے یہ علاقے ترقی کی دوڑ میں ویسے بھی پیچھے تھے اور حالات نے انہیں مزید پیچھے دھکیل دیا۔ تاہم امن و امان بہتر ہونے کے بعدیہاں پاک فوج نے بے شمار ترقیاتی کام کئے سڑکیں سکول ہسپتال اور کھیل کے میدان بنائے گئے،بازاروں کی رونق بحال ہوئی، تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں علاقہ مکین اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور زندگی معمول پر آگئی تو دشمن پھر سرگرم ہوگیا اور ایک اور فتنہ پی ٹی ایم اور منظور پشتین کے نام سے اٹھا دیا گیا جس کے ابتدائی مطالبات علاقے سے چیک پوسٹوں کے ختم کرنے سے شروع ہوئے اور اسے پختون قوم پر ستی تک پہنچادیا گیا۔ منظور پشتین پاک فوج کی تما م قربانیوں اور علاقے میں ترقی کے لئے اس کی کوششوں پر آنکھیں بند کرکے اپنے بیرونی آقاؤں کی شہ پر انہی کا دیا ہوا نعرہ لگاتا ہو امیدان میں اتر آیا اور دہشتگردی کے پیچھے وردی کو قرار دے کر خود ایک نئی دہشتگردی شروع کردی۔ اس نے پاک فوج کے خلاف زہر پھیلاکر دشمن کا ایجنڈا پورا کرنے پر پورا زور لگادیا۔ فوج اور حکومت نے اسے کئی مواقع دیے اور بقول ڈی جی آئی ایس پی آر کے آرمی چیف نے ہدایت کی تھی کہ یہ نوجوان غلط بات بھی کریں تو ان سے نرمی برتی جائے لیکن ان کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی کیو نکہ جو انہیں باہر سے مل رہاہے وہ اندر سے ممکن نہیں۔ بیرونی میڈیا نے اس چوبیس پچیس سالہ نوجوان کو بنیادی انسانی حقوق کا عظیم علمبردار بنا کر پیش کیا اور حسب معمول ایک ملک دشمن کو ہیرو کا روپ دینے کی کوشش کی ظاہر ہے کہ وہ ان کا ایک اہم مہرہ ہے۔ حکومت اورپاک فوج نے منظور پشتین کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش میں ہی اس کے دو حمایت یافتہ امیدواروں کو قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کے مقابلے میں مضبوط امیدوار بھی نہیں لایا گیا یوں سیاسی جماعتوں نے انکو موقع فراہم کیا کہ وہ اسمبلی میں پہنچیں اور علی وزیر اور محسن داوڑ اگر چہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لیکن پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ ا راکین اسمبلی کے طور پر منتخب ہوئے۔اگر فوج اس عمل کوروکنے کی کوشش کرتی تو اس کے لئے بھی یہ کام کچھ مشکل نہ تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں آنے سے روکا جا رہا ہے، اس دوران فوج کی علاقے میں دہشتگردی ختم کرنے اور امن بحال کرنے کے لئے کوشش اور قربانیاں جاری رہیں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا کئی فوجی افسر اور جوان شہید ہوئے۔ محسن داوڑ اور علی وزیراسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن نہ ہی انکا نکتہء نظربدلا اور نہ منظور پشتین کا،ویسے قابل غور بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں پشتین سے سینئر ہیں لیکن اس کے ماتحت بن کر رہنے پر راضی ہیں جو قبائلی رواج اور طرز عمل کے بالکل خلاف ہے تو کیا اس کی کوئی خاص وجہ تو نہیں کیا حکم ایساہی تو نہیں دیا گیا ہے اور کوئی خاص مصلحت تو مراد نہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پاک فوج کئی دشمنوں کا مقابلہ کرتی ہوئی بہادر فوج ہے جس نے ان لوگوں کے علاقے میں بے تحاشا ترقیاتی کام کئے لیکن یہ لوگ بڑی ڈھٹائی سے اس بات سے انکاری ہیں اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ فوج کے خلاف بر سرپیکار ہیں اور اسی منصوبہ بندی کے تحت محسن داوڑ نے بین الاقوامی اور خاص کر یورپ کا محاذ سنبھالا ہوا ہے جہاں اُسے گلالئی اسماعیل جیسی ”ترقی پسند“ خواتین کا تعاون بھی حاصل ہے ایسی ہی کچھ خواتین کو اسرائیل سے بھی تر بیت دلائی گئی۔محسن داوڑ کو بیرونی دنیا سے کافی مدد مل رہی ہے اور اسکی وجہ سب ہی جانتے ہیں کہ ایسے ملک دشمنوں کو دشمن ممالک کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔دوسری طرف علی وزیر کو افغانستان کا محاذ سونپا گیا ہے جہاں اُسے ظاہر ہے کہ زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ افغانستان کہنے کو تو برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان نے ہمیشہ ہر مشکل میں اس کا ساتھ دیا ہے بلکہ اسکی مصیبت کو اپنے سر لیا ہے اور گذشتہ چار دہائیوں سے اسی کی سزا بھگت رہا ہے اپنے ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کی قربانی دی ہے جس پر آج پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو شدید افسوس ہے کہ ان کا ملک ایک ایسے ملک کے ساتھ جا کھڑا ہوا جسے نیکی کا بدلہ اُتارنا تو کیا نیکی کا احساس تک کرنا نہیں آتا۔ آج جب پاک فوج نے اپنی بے تحاشا قربانیوں کے بعد ملک میں امن کو کافی حد تک بحال کرلیا ہے اس سکون کو برباد کرنے کے لیے افغانستان ایک بار پھر منظور پشتین کے نمائندے علی وزیر کے ہاتھ ختم کرنے کی کوشش میں مبتلاء ہے۔ اشرف غنی حکومت نے علی وزیر کو طورخم کے پار ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔پی ٹی ایم نہ تو ایک مستحکم سیا سی جماعت ہے نہ ہی کسی پختہ سوچ کی مالک ہے یہ جذباتی نوجوانوں کا ایک گروہ ہے جو بد امنی کے مارے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے پر مامور ہے۔خود منظورپشتین کبھی حکومت سے مذاکرات کا عندیہ دیتا ہے اور ساتھ ہی اعلان کرتا ہے کہ اپنے ایک کارکن ارمان لونی کے قتل کے خلاف دھرنا دے گا۔ خیالات میں یہ اچانک تبدیلیاں اس کی نا پختہ سوچ کی عکاس ہیں۔ منظو پشتین اور اس کے کا رکن اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان کے علاقے میں دہشت گردوں کو بیرونی قوتوں نے پالا پوسا ہے اور اس کا نقصان پورے ملک نے اٹھایا ہے۔ اس بات سے مجھے بھی انکار نہیں کہ سب سے زیادہ نقصان پختونوں نے اٹھایا ہے لیکن دیگر عوام کی طرح میرا بھی یہ سوال ہے کہ پی ٹی ایم اور پشتین کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں بلکہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کا یہ رویہ تو پختونوں کے لیے مزید نقصان کا باعث بن رہا ہے ترقی کا وہ عمل جو پاک فوج کی زیر قیادت شروع ہوا ہے احتجاج، دھرنے اور فساد اُس کو روک دیں گے تو کیا یہ سب کسی خاص ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے اور کیا ایسا نہیں کہ ایسے منصوبے دشمن کی طرف سے ہی بنتے ہیں تو کیا پھر یہ شک کرنا جائز نہیں کہ یہ لوگ کسی کے ایجنٹ ہیں جو عوام کے لئے نہیں انہیں کے لئے کا م کر رہے ہیں۔ بہرحال پھر بھی میری یہ دلی دعا ہے کی اللہ تعالیٰ ان گمراہ نوجوانوں کو سیدھی راہ پر ڈال دے کہ وہ دشمن کی بجائے اپنے ملک اور لوگوں کے لیے کا م کرسکیں-

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552997 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.