8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد اس کی وجوہات کے حوالے
سے طویل عرصے تک جس کے جی میں جو آتا تھا اس کا اظہار کر دیتا تھایہ وجہ ہے
یہ مسئلہ ہے مذہب کے تناظر میں باتیں کی جاتی رہیں‘ سائنسی اعتبار سے بھی
جواز بتائے گئے جتنے منہ اتنی باتیں مگر ان کی بحث برائے بحث سے زیادہ کوئی
حیثیت تھی نہ نتیجہ نکلتا تھا‘ زمینی سائنس کے اعتبار سے دو فالٹ لائنوں کا
وجود تقاضا کرتا تھا کہ محفوظ اور مختصر تعمیرات کی جائیں مگر بغیر منصوبہ
بندی کے تعمیرات کی گئیں جس کا سب سے زیادہ نقصان مستقبل کے معماروں‘
یونیورسٹی‘ کالجز‘ سکولز میں زیر تعلیم طلبہ کی شہادتوں کی صورت میں سامنے
آیا اور پھر ریسکیو کے دوران تنگ گلیوں‘ راستوں کے باعث جن کو بچایا جا
سکتا تھا وہ بھی نہ بچائے جا سکے یہ وہ سائنسی ٹھوس جوازیت تھی جو ثابت
کرتی تھی کہ اپنے گھر کے دروازے کے باہر اجتماعی حوالے سے سفاکیت نے تباہی
بربادی کر دی مگر اس کے باوجود سفاکیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا آ رہا
ہے تاہم روحانی یعنی تعلیمات اسلامی کے اعتبار سے دین دار ولی اللہ کے
آستانوں سے عقیدت رکھنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ اپنے مرشد سے پوچھا کیا
وجہ بنی تو ان کا کہنا تھا کہ زلزلہ کے باعث زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں
میں بہن بیٹی کو وارثت میں ان کا حق نہ دینے کا غلبہ وجہ بربادی تھا بیرونی
امداد فقیر کی جھولی میں ڈالے سکے نہیں ہوتے جو واپس نہیں لینے ہوتے بلکہ
امداد نام پر قرضے ہوتے ہیں جو کسی ملک کو دیئے جاتے ہیں یا پھر ملکوں کا
ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی‘ معاشی‘ سفارتی اعتبار سے ضرورتوں کا مفاد ہوتا ہے
جس کے باعث ملک پاکستان کو بہت بڑی مقدار میں قرض کے وسیلہ یہ علاقے پہلے
سے سو گنازیادہ اچھی تعمیرات کے ساتھ زندگی کے رنگوں میں رنگے گئے مگر
سماجی ناانصافیوں میں انفرادی سے لیکر اجتماعی سطح تک بہتری کے بجائے ابتر
سے ابتر ہونے کا سلسلہ بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ایسے میں پانچ اپریل کو
ہائی کورٹ آزادکشمیر کا ایک فیصلہ گھپ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر
سامنے آیا ہے جس کے مندرجات ساری سول سوسائٹی خصوصاً اس کے تمام ستونوں کے
بڑے کہلانے والوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے مگر اس کے لیے ضمیر احساس کا
زندہ ہونا لازمی ہے جس کے بغیر انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہے‘ جسٹس
رضا علی خان نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا وارثت میں بہن بیٹی کوحق نہ دینا
اللہ کی شریعت اور ریاست کے آئین سے بغاوت ہے‘ قرآن کا حکم ہے اسلام میں
پورے کے پورے داخل ہو جاؤ ریاست کا آئین کہتا ہے قرآن و سنت سپریم لاء ہے
کوئی بھی مسلم کہلانے والا کسی کو بھی اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتا ہے
بہن بیٹی کو وراثت میں حق نہ دینا اسلامی ریاستی قانون کے تحت قابل دست
اندازی جرم ہے جس کی سزا بل واسطہ یا بلاواسطہ جرم پر پانچ سال قید‘ دس
لاکھ جرمانہ ہے‘ ریاست خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پابند ہے‘
فیصلے کے مندرجات کا یہ حصہ کہ یہ تاثر غلط ہے آزادی سے پہلے ڈوگرہ راج میں
کیوں کہ مہاراجہ غیر مسلم تھا اس لیے شرعی قانون خصوصاً خواتین کے حوالے سے
کوئی قانون نہیں تھا‘ لہٰذاخواتین کو وراثت کا حق نہ تھا صریحاً غلط ہے‘
مہاراجہ حکمرانی میں 1920 میں قانون نافذ کیا گیا تھا جس میں توسیع ہوتی
رہی پھر مستقل بنا دیا گیا‘سرپرتاب سنگھ آرڈیننس کے تحت تمام عدالتوں کو
پابند کیا گیا تھا کہ مسلم خواتین کے اُمور میں شریعت اسلام کی روشنی میں
فیصلے کیے جائیں جسٹس رضا علی خان کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ
کوئی بھی روایتی قانون رسم شریعت وآئین کے حکم پر بالادستی نہیں رکھتا یہ
فیصلہ عدالتی تاریخ کے لیے سنہری باب اور معاشرے کیلئے نجات راہ پر چلنے کی
دعوت ہے تاہم ڈوب مرنے کے مقام سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلم حکمران کا قانون
دیکھو اور مسلمانوں کے اطوار مزاج دیکھو تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ڈوگرہ
یا غیر مسلم ہی بہتر تھا جو غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی مسلم اُمور کو ان کی
شریعت کے مطابق حل کرنے کی مثالیں قائم کر گیا تو 30 سال سے چلتے اسی مقدمہ
کی طوالت بھی سارے معاشرتی انداز وردیوں کی واقع موت کی عکاسی کرتی ہے جس
کے جبر و قہر منافقت کے سامنے حق اس کے حق دار کو نہ ملنے کا انجام زلزلے
ہوتے ہیں تاہم اسی فیصلے کے بعد سول سوسائٹی کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے
وہ حق تلفی پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو ریاست حکومت ادارے بھی
عملدرآمد پوری قوت سے کرائیں بلکہ اس حکومتی کابینہ کے موسٹ سینئر‘ تجربہ
کار‘ معاملہ فہم وزیر مذہبی اُمور راجہ عبدالقیوم خان تمام مساجد کے خطیب
کرام کو جمعہ کے خطبات میں سماجی پہلوؤں بہن بیٹی سمیت سماج کے تمام رشتوں
ناطوں کے حقوق شادی موت پر تماشہ گیری‘ زندگی کے معاملات پر روشنی ڈالنے کے
لیے محکمہ کو موضوع کے اعتبار سے شیڈول جاری کر کے نگہبانی کی تاکید کریں
جو خود مذہب اور اولیاء اللہ کے آستانوں سے عقیدت رکھتے ہیں کھڑی شریف
دربار کے بعد سہیلی سرکار کمپلیکس کی تعمیر کے آغاز کے لیے تیاریاں ان کی
فہم و فراست ہے کہ بظاہر کچھ بھی نہ ہو مگر کام کرنے والے کام کرتے ہیں۔ان
سے ان کے تجربہ مقام کے مطابق کام لینا حکومت عوام کیلئے آسانیاں فراہم
کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ |