کہانی ہے اور پرانی ہے مگر ہر دور میں ترمیم کر کے دہرائی
جاتی رہی ہے۔جب شروع میں یہ کہانی لکھی گئی اس کا ہیرو، یقین کی دولت سے
مالا مال ایک غریب اور نیم خواندہ، نورحیات نام کاشخص تھا۔ اس نے ایک عالم
دین کا وعظ سنا اور اپنی ساری جمع پونچی خرچ کر کے گاؤں کے باہر اس رستے پر
کنواں کھدوایاں جس رستے پر مسافروں کی آمدو رفت ہوا کرتی تھی۔ وہ صبح کی
نماز پڑھ کر کنویں کی منڈہیر پر بیٹھ جاتا اور پیاسے مسافروں کو پانی
پلاتا۔شیطان کو اس کا یہ عمل کھٹکتا تھا۔ اس نے نور حیات کے ساتھ دوستی
لگائی اور انتظار کرنے لگا کہ موقع ملے تو اسے خدمت خلق سے باز رکھے۔
گرمیوں کی ایک دوپہر نور حیات نے ایک مسافر جو " راز دار لوح مقد ر" تھا کو
پانی پلایا۔ مسافر کا کلیجہ تازہ پانی پی کرٹھنڈا ہوا تو اس نے نظر بھر کے
نور حیات کو دیکھا اور بولا اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے ۔ نور حیات
مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا جو
چاہیں عطا کر دیں ۔ مسافرنے اس کے ہاتھ ہر اپنی انگلی سے ایک کا ہندسہ لکھا
اور چل دیا۔ چند دنوں میں ہی نورحیات کو احساس ہو گیاکہ اس کی آمدن بڑھ کر
ایک روپیہ روز ہو گئی ہے۔ وقت گزرتا رہا کہ ایک دن نور حیات کے ہاتھوں سے
ایک اور " راز دار لوح مقد ر" نے پانی پیا اور کہا اے نیک بخت مانگ کیا
مانگتا ہے ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا
ہاتھ پھیلا کر کہا جو چاہیں عطا کر دیں مسافر نے اس کے ہاتھ پر ایک کا
ہندسہ دیکھا تو اس کے دائیں طرف ایک صفر ڈال کر چل دیا۔ نور حیات کی روزانہ
آمدن دس روپے ہوگئی۔ جس زمانے کی کہانی ہے دس روپے روازانہ بڑے بڑے رئیسوں
کی آمدن بھی نہ تھی۔ طاق میں بیٹھے نور حیات کے دوست نے اسے یہ روپیہ
کاروبار میں لگانے کا مشورہ دیا۔دونوں دوستوں نے مشورہ کیا اور اور اونے
پونے داموں بنجر زمیں خرید کر اس پر اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگا لیا۔ دس روپے
روزانہ میں بھٹے کی کمائی بھی شامل ہو گئی۔ چند سالوں میں نور حیات نے
علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں کا جا ل پھیلا دیا۔ اس کا دوست اس کو مشورہ دیتا
کہ وہ کنویں کی منڈہیر پر کسی ملازم کو بٹھائے اور خود اپنے کاروبار پر
توجہ دے۔ مگر نورحیات کو کنویں پر لوگوں کو پانی پلا کر قلبی سکون ملتا تھا۔
ادھر اس کا دوست اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ نور حیات فیصلہ نہ کر پاتا
کہ وہ دل کی مانے یا دوست کی۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن گرمیوں کی تپتی دوپہر کو ایک گھڑ سوار کہ "
راز دار لوح مقد ر" تھا ، اپنے ساتھی سمیت کنویں پر اترا۔نور حیات نے اسے
پانی کا پیالہ پیش کیا اس نے پیالہ پکڑانے والے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے
کو دیکھا پھر نور حیات کے ماتھے کو پڑھا اور بولا اے نیک بخت مانگ کیا
مانگتا ہے نور حیات نے ہاتھ پھیلا دیا۔ مسافر نے پوچھا بولتے کیوں نہیں کیا
مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا ، نور حیات نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مسافر نے
اپنے ساتھی سے کہا۔
مولوی، اس کے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کے دائیں طرف ایک صفر ہماری طرف سے
ڈال دے، ساتھ ہی مولوی کی طرف متوجہ ہو کر کہا تیرا چلہ بھی ختم ہوا اب تو
اسی نیک بخت کے ساتھ رہ اور اسے مانگنے کا نہیں خرچ کرنے کاسلیقہ سکھا۔یہ
کہہ کر مسافر گھوڑے پر سوار ہوکر چل دیا۔
گھڑ سوار کے جاتے ہی مولوی نے نور حیات کو باور کرا دیا کہ سو روپے میں نوے
روپے اس کے استاد کے دیے ہوئے ہیں اس لیے یہ رقم سلیقہ سیکھنے پر ہی خرچ ہو
گی۔ نور حیات رضا مند ہو گیا۔
مولوی کے مشورے پر نور حیات نے کنویں کے ساتھ ہی ایک مسافر خانہ بنا لیا۔
اس میں کھانا پکتا مسافر اور ارد گرد کے لوگ کھاتے اور نور حیات کو دعائیں
دیتے۔ آمدن زیادہ تھی اور اخراجات کم۔کچھ ہی عرصے میں مولوی کے کہنے پر ایک
مسجد بھی بن گئی، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اہل علم بھی
علاقے کے راستوں سے آشنا ہوئے۔یہ سب نور حیات کے دوست کو پسند نہ تھا۔ اس
نے علاقے کے لوگوں کو قائل کیا اور نور حیات کے خلاف علاقے کے تھانے میں،
نیب کے دفتر اور انکم ٹیکس کے دفتر میں درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ تفتیش
شروع ہوئی، پولیس کو ہدائت ہوئی ایک کا ہندسہ لکھنے والے کو گرفتار کیا
جائے۔ کہا جاتا ہے پولیس چاہے تو ملزم کو پاتال سے بھی ڈہونڈ کر لا سکتی
ہے۔ پولیس نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا، ملزم کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا
لکھا ہوا ایک کا ہندسہ مٹائے۔ نیب کا خیال تھا کہ ایک کے مٹ جانے کے بعد،
صفر، خواہ کتنے ہی ہوں اپنی وقعت کھو دیں گے۔ایسا ہی ہوا، اینٹوں کے سارے
ہی بھٹے بیٹھ گئے۔ البتہ کہانی کے مطابق ایک مٹ جانے کے بعد وہ صفر بے وقعت
ہو گیا جو ایک کو دس بناتا تھا البتہ تیسرا صفرجو سو بناتا تھا اپنے مقام
پر قائم ہے مگر اس کی قیمت نوے ہے۔
کہانی، کہانی ہی ہوتی ہے، ہمارا کام لکھنا ہے، نتیجہ نکالنا یا سبق حاصل
کرنا قاری کا حق ہے اور پڑھ کر نذر انداز کردینے والوں کے اپنے حقوق ہیں۔
ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا رواداری ہے، اس سے بڑھ کر رواداری کیا ہو
سکتی ہے کہ دستر خوان بچھا کر معترض کو بھی کھلایا جائے اور اس کی تنقید
کوبھی مسکرا کر سنا جائے۔ |