ناصر کاظمی کی ایک غزل ہے جو
شائد انھوں نے اپنی شریک حیات کے بارے میں لکھی ہے جس کا ایک شعر ہے.....غم
یا خوشی ہے تو میری زندگی ہے تو، دوستوں کے درمیان وجہ دوستی ہے تو، میری
زندگی ہے تو۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کا شریک حیات یا اسکا ہمسفر اسکے لئے
غم یا خوشی دونوں میں سے ایک چیز ضرور ہوتا ہے۔اگر آدمی کام سے تھکا ہارا
اور پریشان حال گھر آئے اور اسکی بیوی مسکرا کر اسکا استقبال کرے اور اسکا
حال احوال پوچھے تو اسکی تمام پریشانیان یکدم کافور ہو جاتی ہیں اور وہ
اپنے اندر ایک نئی طاقت و توانائی محسوس کرتا ہے اور اسکے اندر زندگی کے
حوادث و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا ایک نیا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور
اسکے برعکس اگر بیوی اس بات کا نوٹس ہی نہ لے کہ کون آیا ہے اور اپنی دھن
میں مگن رہے اور اسکے آگے حالات کا رونا روئے تو اسکا دل بجھ سا جاتا ہے
اور زندگی اک بار گراں محسوس ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ)” وہی
ذات (اللہ) ہے جس نے تمھارے جوڑے بنائے تاکہ تم باہمی سکون حاصل
کرو“(القرآن)۔
ان آیات کی روشنی میں میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے بنیادی طور پر سکون و
اطمینان کا ذریعہ ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ عالم
ارواح میں روحیں گروہ در گروہ جمع تھیں، پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں
پہچان و محبت پیدا ہو گئی تو دنیا میں آکر بھی ان میں ویسے ہی محبت و الفت
پیدا ہو گی اور جن روحوں میں وہاں آپس میں موانست پیدا نہیں ہو گی تو یہاں
آ کر بھی ان میں محبت و الفت پیدا نہیں ہوگی۔(المشکوٰة)
بعض جگہ یہ دیکھا گیا گیا ہے کہ دونوں میں کوئی ایک فوت ہو جائے تو دوسرا
بھی ساتھ ہی ملک عدم کو سدھار جاتا ہے اور دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھتے
ہیں کہ جب روح کا ایک حصہ ہی ختم ہو گیا تو دوسرا کیسے جئے گا؟ اور اگر
روحوں میں باہمی موانست و الفت نہ ہو تو پھر آپس میں نفرت و بغض و عداوت
پیدا ہو جاتی ہے، بات بات پر لڑائی جھگڑا اور نوک ٹوک شروع ہو جاتی ہے اور
نباہ مشکل ہو جاتا ہے اسی لئے شریک حیات کے انتخاب میں نہائت احتیاط کی
ضرورت ہے۔
کہتے ہیں کہ مغل شہنشاہ شہاب الدین شاہ جہان کو اپنی بیگم ممتاز محل سے بے
پناہ محبت تھی دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے ایک روز وہ بادشاہ سے کسی
بات پر خفا ہو گئی اور محل کے ایک الگ حصے میں رہائش پذیر ہو گئی۔ کچھ عرصے
کے بعد اس نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ آ کر مجھے مل جاﺅ! مگر بادشاہ
ملنے کیلئے نہ گیا، کچھ عرصے کے بعد اس نے دوسرا پیغام بھجوایا کہ” آ جاﺅ!
ابھی وقت ہے“ مگر بادشاہ پھر بھی ملنے کیلئے نہ گیا پھر اسکا تیسر اپیغام
ملا کہ ”اب آﺅ یا نہ آﺅ ایک ہی بات ہے“ پھر اسکا انتقال ہو گیا بادشاہ کو
اسکی موت کا نہایت صدمہ ہوا اس نے اسکی یاد میں آگرہ میں اسکا مقبرہ تاج
محل تعمیر کرایا جو محبت کی ایک انوکھی یادگار اور فن تعمیر کا ایک نادر
نمونہ ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب بادشاہ کا انتقال ہوا تو اسکا منہ تاج
محل کی طرف تھا۔
شریک حیات کے انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے ازروئے شریعت شادی
سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی رائے معلوم کرنا نہایت ضروری ہے اگر کسی جگہ وہ
رشتہ پسند نہ کریں تو اپنی مرضی ان پر ہرگز مسلط نہ کی جائے اور نہ اسے
اپنی انا کا مسئلہ بنایا جائے کیونکہ زندگی انھیں بسر کرنا ہوتی ہے اور
والدین کے کسی غلط فیصلے کا خمیازہ انھیں زندگی بھر بھگتنا پڑتا ہے۔قرآن
پاک میں آتا ہے ” تمھاری بیویاں تمھارا لباس ہیں اور تم انکا لباس
ہو“(البقرہ) اور فرمایا نبی پاک ﷺ نے کہ نکاح نظروں کو نیچا کر دینے والا
ہے اور شہوت کا بہترین علاج ہے (المشکوٰة) گویا کسی انسان کی شریک حیات اس
کیلئے تقویٰ اور پرہیزگاری کا ایک ایسا لباس ہے جو اسے برائیوں سے بچاتا ہے،
اس کی نظروں میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اور اسے غلط کاری سے بچاتا ہے اور
آپ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح نصف ایمان ہے۔
قرآن پاک کی آیات کا مفہوم ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انکی اولاد نے بھی
انکی پیروی کی ایمان و عمل کے ساتھ تو ہم انکی اولاد کو بھی انکے ساتھ(جنت
میں)اکٹھا کر دیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ جیسے ایک فیملی اس دنیا میں ہنسی خوشی
زندگی بسر کر رہی ہے اگر وہ نیک ہوں گے تو انہیں جنت میں بھی اکٹھا کر دیا
جائے گا اور اس دنیا کی شریک حیات تو جنت کی حوروں کی سردار ہوگی ۔لہٰذا
اگر خاوند و بیوی میں باہمی الفت ومحبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انکی جوڑی
اور انکا ساتھ ابدالآباد کیلئے قائم و دائم رہے تو انھیں چاہئے کہ اچھے
اعمال کریں تاکہ جنت میں بھی انھیں قرب و وصال اور دائمی نعمتوں سے مالا
مال کیا جاسکے۔ |