ایک بات تو بتائیں ،یہ سب
طوفانوں اور بحرانوں نے ہمارے ہی گھر کا رخ کیوں کرلیا ہے ؟ زمینی اور
آسمانی سب آفتوں کے لیے کیا صرف ہم ہی بچ رہے ہیں ؟ اپنے اور غیر سب مل کر
ہمیں مار رہے ہیں اور ہمارا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے ۔
غریب کا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔ انسانوں کے روپ میں آدم خور بھیڑیے ہمارے
اوپر مسلط ہیں۔مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے ۔ بے روزگار ی کا عفریت
روز بروز تنومند ہوتا جارہا ہے ۔ طبقاتی رسہ کشی نے ملک کے مستقبل کو داؤ
پر لگا رکھا ہے ۔ امن امان کے حوالہ سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک
میں ہورہا ہے ۔ غیر ملکی دہشت گرد سرِ عام دندناتے پھر رہے ہیں ۔ لاقانونیت
کا اندھا راج ہے ۔ظلم سے زیادہ انصاف مہنگا ہو چکا ہے ۔دہشت گردی کے خاتمہ
کے عنوان سے شروع کی گئی جنگ نے ہمارا ستیاناس کر رکھا ہے ....لیکن اِس سب
کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ دنیا بھر کا کفر ہمیں نیست ونابود کرنے کے لیے
متحد ہوچکا ہے اور یہ سارے حالات اسی کی سازشوں اور چیرہ دستیوں کا نتیجہ
ہیں۔مگر اس کی کیا توجیہ ہوگی کہ قدرتی آفات نے بھی ہمیں ہی گھیر رکھا ہے ۔
کبھی سیلاب ہماری بستیوں پہ چڑھ دوڑتا ہے اور کبھی زلزلہ آکے ہمارے ہنستے
بستے شہروں کو تہہ وبالا کر جاتا ہے ۔ کبھی کوئی وائرس اور کبھی کوئی
وبا!یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا بھی ہم سے ناراض ہے اور مظلوموں کے فریاد رس
نے بھی ہم سے نظریں ہٹا لی ہیں۔
یہ ملک مسلمانوں کا ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں کی 98فی صد آبادی ان
لوگوں پر مشتمل ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ ہر ِچالیس گز کے بعد یہاں
ایک مسجد دستیاب ہے ۔ گلی کوچوں میں پھیلے دینی وقرآنی مکاتب ومدارس کا
کوئی شمار نہیں ۔لوگ دل کھول کر دینی طلباء وعلماء کی مدد کرتے ہیں ۔ یہ
ملک کلمہ طیبہ کے نام پر بنا اور تمام تر خرابیوں اور عہد شکنیوں کے باوجود
آج بھی اسلام کے رشتہ میں بہرحال بندھا ہوا ہے ۔ عالم ِ اسلام میں اِس ملک
کو اِسلام کے قلعہ کے نام سے معنون کیا جاتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ
”اسلامی بم “ کی ایجاد بھی اسی ملک کا امتیاز ہے ۔ ملکی کرنسی کی بنیادی
اکائی پر مسجد کی تصویر لگی ہوئی ہے اور قومی اسمبلی کی پیشانی پر آج بھی
کلمہ توحید جگمگا رہا ہے ۔ دینی جماعتوں اور تحریکوں کو یہاں جو آزادی حاصل
ہے ، پوری دنیا میں اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ۔ روکھی سوکھی کھا کر
دین کی خدمت میں زندگیاں کھپا دینے والے اور کہاں ہیں؟ مگر خود کو کیسے
دھوکہ اور فریب دیا جائے کہ قدرتی آفات وبلیات نے بھی ہمیں ہی نرغے میں لیا
ہوا ہے ! ماورائی عذابوں نے بھی ہمیں ہی چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور
وقتاً فوقتاً کاتبِ تقدیر کا عتاب مختلف شکلوں میں ہمارے اوپر ہی نازل ہوتا
رہتا ہے !
ابھی چند ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
رات گئے ایک بار پھر محسوس کیے گئے اور زخموں سے چور ہم وطنوں کو دہلا گئے
۔ لیکن افسوس کہ یہ تاثر بالکل وقتی اور عارضی ثابت ہوا جس کا ثبوت یہ ہے
کہ اسی شب نمازِ فجر میں نمازیوں کی تعداد میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں
آیا ۔ کسی تھیٹر اور سینما کے بند ہونے کی خبر نہیں آئی ۔ کسی محکمہ اور
شعبہ نے رشوت اور جھوٹ کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا ۔ لوٹ کھسوٹ کا
بازار جوں کا توں ہے۔ مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے اور دینی ارکان
وفرائض سے جان بچانے کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لینے ،چالاکیاں دکھانے اور
لومڑی کی چالیں چلنے کی روش تبدیل نہیں ہوئی ۔ وکالت ،سفار ت اور صحافت
....کیا کسی شعبہ میں اصلاحِ احوال کی مہم چلی؟نہیں ناں! تو پھر ہمیں کس
بات کا شکوہ ہے کہ قدرت بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہی ، نظامِ ہستی ہمارا
مخالف ہوچکا ہے اور آسمان سے بھی ہماری نصرت کی بجائے ، ہلاکت کے فیصلے اتر
رہے ہیں!
کیا قرآن میں کہیں ہے کہ اللہ ان مسلمانوں کی مدد کرے گا جو نماز کے قریب
نہیں پھٹکتے ، قرآن وحدیث کے حوالے اپنی بدعملی کو جواز دینے کے لیے پیش
کرتے ہیں، ”راشی اور مرتشی دونوں جہنم میں “ کی حدیث لکھ کر بھی ہیر پھیر
کرتے ہیں ، جس کے بازار پررونق ، تماشہ گاہیں آباد اور مساجد ویران اور
سنسان ہیں، جو دنیا کے نام پر دنیا کماتے ہیں اور دین کا عنوان بھی روزگار
کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔جن کے مذہبی راہ نماؤں کے پاس صرف یہی کام کرنے
کو رہ گیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کو ان کی پسند کی غزل سنائیں اور اپنی
مقبولیت کا تحفظ کرتے رہیں....سورة البقرة میں یہودیوں کے ”سیاہ کارنامے “
پڑھے جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی نہیں، ہمارے اپنے
حال کی کارگزاری ہے ۔ کتبِ حدیث میں ابواب الفتن کا مطالعہ کرلیا جائے تو
اپنا بھیانک چہرہ کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ ابوالفرج ابن جوزی کی ”تلبیسِ
ابلیس “ پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب وہ ہم پاکستانیوں کے کرتوتوں کو
دیکھ کر ہی لکھنے پر مجبور ہوئے ۔ اسلام کا قلعہ ، اسلامی بم اور دینی
مدارس کا جال....یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں ،ہمارا استحقاق نہیں۔ جتنی بڑی
نعمت کی ناقدری کی جائے ، اس پر اللہ کی ناراضگی بھی اتنی ہی بڑی اور شدید
ہوتی ہے۔ ہمیں اب اس گھمنڈ سے نکل آنا چاہئے کہ اِن نعمتوں کی موجودگی میں
ہم خدا کے منظورِ نطر اور لاڈلے ہیں ، ورنہ یوں ہی رسوائیاں اور پسپائیاں
ہمارا مقدر بنی رہیں گی۔
ایک اللہ والے کے بقول انسان کو اپنی زندگی میں جتنے بھی جھٹکے اور دھچکے
لگتے ہیں ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ وہ سنبھل جائے اور اپنا
آپ احتساب کر لے ۔ ہر چوٹ اور ہر ٹھوکر میں قدرت کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی
ہے جسے اگر سمجھ لیا جائے تو فبہا ، ورنہ قدرت کا کوڑا ایسی شدت سے پڑتا ہے
کہ بے حس انسانوں کا کام ”تمام“ہوجاتا ہے ۔ ذراتصور تو کیجئے کہ زیادہ
گہرائی میں آنے والے جھٹکے اگر سطحِ زمین کے قریب ہوتے تو آج ہمارا کیا
نقشہ ہوتا ؟ سوچ کر ہی جھر جھری آجاتی ہے ۔ کیا ہم بالکل بے حس ہوچکے ہیں
؟کیا ہم نے نہ بدلنے کی قسم کھا لی ہے ؟ کیا ہم قدرت کو یہی پیغام دینا
چاہتے ہیں کہ اب ہم سے تبدیلی کی کوئی توقع نہ رکھی جائے؟ |