قرآن کریم کا پارہ نمبر4(لَنْ تَّنَا لُو ) سورہ آلِ
عمران کی 92ویں آیت سے شروع ہوتا ہے اور200آیت پر اس سورۃ کا اختتام ہوتا
ہے ۔ اس طرح سورہ آل عمرران کی 109آیات اس پارہ میں شامل ہیں ۔ لن تنا لو
کا مطلب ہے ’’ہر گز نہیں پہنچ سکتے تم‘‘ ۔ سورہ آل عمران کی آیات 92 میں
اپنی محبوب ترین یا پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو پھر ہ
میں نیکی کا اصل اجر حاصل ہوگا ۔ ارشاد ہوا کہ ’’ہر گز نہیں پہنچ سکتے نیکی
کو جب تک کہ نہ خرچ کرو اس میں سے جو تم محبوب رکھتے ہواور جو بھی خرچ کرتے
ہو تم کوئی چیز ، تو بے شک اللہ اس سے با خبر ہے ‘‘ ۔ دین ابرہیمی کی پیروی
کرنے کا حکم دیا گیا ، کہا گیا کہ بے شک پہلا گھر جو بنایا گیا لوگوں کے
لیے یقینا وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور مرکز ہدایت تمام جہان والوں
کے لیے ۔ مقام ابرہیم کی عظمت بیان کی ،پھر کہا کہ جو داخل ہوا اس میں مل
گیا اسے امن ۔ اس کے علاوہ کئی نشانیوں کی نشاندھی کی گئی ہے جن سے اس کی
فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ یہاں بھی حج کی سعادت حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی
انہیں جو استطاعت رکھتے ہیں ۔ آیت 103 میں فرقہ بندی نہ کرنے کی ہدایت کی
گئی ، کہا گیا کہ اللہ کے فضل سے تم بھائی بھائی ہوگئے ، تم تو آگ سے بھرے
گھڑے کے کنارہ پر کھڑے تھے ، اللہ نے تمہیں بچا لیا ۔ نیکی کی دعوت دینے
والی جماعت کا ذکر ہے جو نیکی کے کام کریں اور برے کاموں سے روکیں ، امت
مسلمہ کو تمام امتوں سے افضل اور بہترین قرار دیا گیا ہے ۔ آیت 118 میں
کہا گیا کہ آاے ایمان والو ! مت بناوَ راز دار کسی کو اپنوں کے سوا، نہیں
اٹھا رکھیں گے کوئی کثر تمہیں نقصان پہچانے کی، یہاں کفار کی جانب اشارہ ہے‘
۔
غزوہ بدر کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ’’اور بلا شبہ مدد کر چکا تھا
تمہاری اللہ غزوہ بدر میں حالانکہ تم اس وقت بہت کمزور تھے ، سو ڈرو اللہ
سے تاکہ تم شکر ادا کرسکو اس کے احسان کا ‘ ۔ غزوہ بدر میں جو اللہ کی جانب
سے مسلمانوں کے لیے فتح حاصل کرنے میں مدد دی تھی یہاں اس کا قدر تفصیل سے
ذکر کیا گیا ہے ۔ غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد میں مسلمانوں کو جزوی شکست ،
وجوہات و اسباب اور واقعات کا تذکرہ آ ّیت 121تا 189 میں کیا گیاہے،
کوتاہیوں کی نشاندھی کی گئی ہے، شوال 3ھ کی ابتدا میں کفار قریش تقریباً
3ہزار کا لشکر لے کر مدینے پر حملہ آور ہوئے ۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان
کے پاس ساز وسامان بھی مسلمانوں سے بہت زیادہ تھا اور پھر وہ غزوہ بدر کے
انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے ۔ جب طے ہوگیا کہ کفار کا مقابلہ احد کے
مقام پر کرنا ہے ایک ہزار افراد آپ کے ساتھ نکلے ، مگر مقام شَوط پر پہنچ
کر عبد اللہ ابنِ اُبیَ اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا ۔ اس کے اس
فیصلے سے مسلمانوں میں اضطراب کا پھیلنا ضروری تھا، یہی نہیں بلکہ بنو
سَلَمہ اور بنو حارثہ کے لوگ بھی دل شکستہ ہوئے انہوں نے بھی پلٹ جانے کا
ارادہ کریاتھا ، لیکن بعض صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب دور ہوگیا ۔ سات سو
افراد کے ساتھ احد کے پہاڑ کے دامن میں ، مدینہ سے کوئی چار میل کے فاصلہ
پر اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر
سامنے ۔ پہلو میں ایک درہ ایسا تھا جہاں سے دشمن حملہ آور ہوسکتا تھا،
وہاں آپﷺ نے عبد اللہ بن جُبیر کے زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور
ان کو تاکید کی کہ کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا ، کسی حال میں یہاں سے
نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جارہے ہیں تب بھی تم
اس جگہ سے نہ ٹلنا‘‘ ۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی، شروع میں مسلمانوں کا پلا
بھاری رہا، یہاں تک کہ مقبل کی فوج میں ابتری پھیل گئی، لیکن اس ابتدائی
کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت کے دمع سے
مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لوٹنا شروع کردیا، ادھر جن تیر
اندازوں کو بنی ﷺ نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ
دشمن بھاگ رہا ہے اور مال غنیمت لٹ رہی ہے تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر
خنیمت کی طرف لپکے، حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو منع بھی کیا لیکن انہوں
نے ایک سنی ، چند لوگ وہاں رہ گئے باقی مال غنیمت کی جانب چلے گئے ۔ اس وقت
خالد بن ولید نے، جو اس وقت لشکر کفار کے رسالے کی کمان کر رہے تھے، بروقت
فائدہ اٹھایا اور پہاڑی ک چکر کاٹ کر پہلو کے درے سے حملہ کردیا ۔ عبد اللہ
بن جبیر نے اوران کے چند ساتھیوں نے حملہ روکنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئے
اور کفار کا ریلا مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، وہ دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ
آئے، جنگ کا پاسہ پلٹ گیا، آپ ﷺ بھی زخمی ہوئے، دندان مبارک شہید ، اسی
دوران افواہ پھیل گئی کہ نبی ﷺ شہید ہوگئے ، اس خبر سے مایوسی اور پھیل گئی
لیکن جلد ہی خبر غلط ثابت ہوئی ، صحابہ جو زندہ بچ گئے تھے آپﷺ کو گھیرے
میں لے کر بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے ۔ اس صور ت حال میں جب کہ شکست کے
آثار نمایاں تھے، کفار غالب آگئے تھے پھر بھی وہ خود بخود واپس ہولیے،
اسے بھی اللہ کی جانب سے کوئی مدد تھی ، ورنہ قریش اور بڑا نقصان کر سکتے
تھے ۔ اگر کفار اپنی فتح کو انتہا تک پہنچانے کی سعی کرتے تو ان کے لیے
مشکل نہ تھا ۔ لیکن وہ میدان چھوڑ کر واپس پلٹ گئے ۔ منافقین نے طرح طرح کی
وسوسہ اندازی شروع کی ، کہا گیا کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو انہیں کسی
صورت شکست نہ ہوتی ، وغیروغیرہ ۔ اس لیے پچپن آیات میں غزوہ احد پر تبصرہ
کرنے کے بعد پچیس آیات میں منافقین کا تذکرہ ہے ۔ شہدائے احد کی تدفین کے
افسوس ناک عمل سے فارغ ہوئے تو اطلا ع ملی کہ ابو سفیان کو ’روحاء‘ کے مقام
پر پہنچ کر اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے کہ وہ جنگ کے اہداف پوری طرح حاصل
کیے بغیر لوٹ آیا، اس کے ساتھیوں کی ملامت کی وجہ سے وہ دوبارہ مدینہ
منورہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ آپ ﷺ اس کے اس ارادے کی خبر
سن کر خود ہی قریشی لشکر کے تعاقب میں چل پڑے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا
دی کہ تعقب میں صرف انہیں مجاہدین کو جانے کی اجازت ہے جو کل کی جنگ میں
شریک تھے، اب صحابہ اکرام کے ایمان و یقین اور عزم کو سلام وہ ابھی ستر
شہدا کو دفن کر کے فارغ ہوئے تھے، زخموں اور تھکاوٹ سے نڈھال تھے لیکن
انہوں نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اور انتہائی سرعت
سے سفر کرتے ہوئے مدینہ سے آٹھ میل دور ’’حمراء الاسد‘‘ کے مقام تک جا
پہنچے ۔ اللہ نے مشرکین کے دل میں رُعب ڈال اور وہ تیزی سے مکہ کی جانب کوچ
کر گئے ۔ مدکورہ مقام کی مناسبت سے اسے ’’غزوہ حمراء الا سد‘‘ کے نام سے
یاد کیا جاتا ہے ۔ اس غزوہ کا تذکرہ سورہ عمران کی آیت 172 میں اللہ تعالیٰ
نے اس طرح کیا’’ جن لوگوں نے جنگ میں زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور رسول کے
حکم پر لبیک کہا ان میں سے جو نیک اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے‘‘
۔
سورہ عمران میں دوگنا چوگنا، بڑھتا چڑھتا سود کھانے سے منع فرمایا ۔ موت کا
دن معین ہے ، اللہ نے فرمایا کہ کسی کہ کیا مجال کہ وہ مرجائے جب تک اللہ
نہ چاہے ۔ موت اللہ کے اختیار میں ہے ۔ آخری آیات میں اہل ایمان کا ذکر
کیا گیا ہے جو ہر حال میں اللہ کو یاد کیا کرتے ہیں ، ارض و سماء کی تخلیق
کے بارے میں ٖغورفکر کرتے اور اپنے پرور دگار سے دعائیں کرتے ہیں ۔ وہ لوگ
جو جنہوں نے ہجرت کی اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے اللہ کی
راہ میں اور جنگ کی انہوں نے اور شہید ہوئے انہیں جنت میں داخل کرنے اور
بہترین عجر دینے کا وعدہ اللہ نے کیا ۔ سورہ آل عمران کی آخری آیت200
میں اللہ کہتا ہے کہ اے ایمان والو! ثابت قدم رہو اور دشمنوں کے مقابلے میں
پامردی دکھاوَ اور اتفاق و اتحاد قائم رکھتے ہوئے جنگ کے لیے کمر بستہ رہو
اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم کامیابی سے ہمکنار رہو ۔
سورۃ النِّسَاء(4)
سورۃ النِّسَاء مدنی سورہ ہے، کلام مجید میں ترتیب کے اعتبار سے چوتھی اور
نزول ترتیب کے اعتبار سے 92سورہ ہے ۔ اس میں کل 24رکو ہیں اور 176آیات پر
مشتمل ہے ۔ یہ سورہ چوتھے پارہ سے شروع ہوتی ہے ۔ اس کا تقریباً ایک
پاوَ(کواٹر) چوتھے پارے میں ہے جب کہ باقی حصہ پانچویں پارہ میں ۔ اس سورہ
کو سورۃ النساء کبریٰ یعنی بڑی سورۃ النساء بھی کہا جاتا ہے ۔ جب کہ 28ویں
پارہ کی سورہ طلاق کو سورۃ النساء قصر ی یعنی چھوٹی سورۃ النساء کہا جاتا
ہے ۔ عربی میں ’نساء ‘ خاتون یا عورت کو کہا جاتا ہے ۔ سورہ النساء جیسا کہ
اس کے نام سے ظاہر ہے خواتین سے متعلق ہے ۔ اس سورہ میں عورتوں کے مسائل،
احکامت و معاملات کا بیان ہے اس وجہ سے اس کا نام سورۃ النساء ہے ۔ یہ سورۃ
آں حضرت محمد ﷺ کے مدینہ ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی ۔ اس کا
اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا، یہ وہ دور تھا جب ریاست مدینہ اپنے
ابتدائی قیام اور استحکام ، نیز نئے ریاستی ڈھانچے کی تشکیل کے شروع کے دور
میں تھی ۔ جنگ بدر کی فتح کے باعث مسلمانوں کے حوصلے بلند ضرور تھے لیکن
قریش بدلہ لینے کی تیاروں میں بھی تھے، مسلمانوں کو ان کا بھی علم تھا اور
وہ قریش کے مقابلہ کرنے کی تیاری اس طرح نہیں کرسکے جس طرح کرنی چاہیے تھی
۔ مسلمانوں کو زندگی گزارنے ، ریاست کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے ،
حکمرانی، اخلاقی و معاشرتی طریقوں کی تفصیلا ت کی اشد ضرورت تھی ، کفار
مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف تھے ۔ ایسی صورت میں سورۃ النساء
نے ان تمام معاملات میں کھل کر اور تفصیلی ہدایات و رہنمائی فراہم کی ۔
مستحکم خاندانی ڈھانچہ کس بھی معاشرے کی شہ رگ ہوا کرتا ہے ، یہ سورہ
خاندانی معاملات ، شرعی احکامات کے موضوع سے شروع ہوئی ، عورتوں کے حقوق و
فراءض ، وراثت میں ان کا حصہ، نکاح و دیگر تمام معاملات اس سورہ میں بہت
تفصیل سے بیان کیے گئے ۔ غزوہ احد کے بعد مسلمانوں کے حوصلے پست تھے، بہت
سی عورتیں بیوہ ہوچکی تھیں اور بچے یتیم ، اس سورہ میں بیوہ عورتوں اور
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تفصلات کا بھی ذکر تفصیل سے ہوا ۔ اسی مناسبت
سے یہ سورہ ’النساء ‘ کہلائی ۔ چوتھے پارہ میں سورہ النساء کے ساڑے تین
رکوع , 23آیات ہیں ۔ یہاں اس سورہ کی تئیس آیات کی تفصیل ہی بیان کی جائے
گی ۔
سورہ انساء کی ابتدا پرور دگار نے انسانوں کا مخاطب کرتے ہوئے کیا ،
فرمایا’’ اپنے ر ب سے ڈر نے کا کہا جس نے انسان کو پیدا کیا ایک جان سے اور
پیدا کیا اسی میں سے جوڑا اس کا اور پھیلا ئے ان دونوں سے بہت سے مرد او
عورتیں ‘‘ ۔ یہاں ایک جان سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں جب کہ ’’اسی
میں سے جوڑا اس کا‘‘جوڑے کا اشارہ اماحوا کی جانب ہے،پھر ’ان دونوں سے بہت
سے مرد اور عورتیں ‘ یعنی جب آدم;174; اور حوا تخلیق پاگئے تو پھر ان
دونوں سے بچے پیدا ہوتے گئے، دنیا پھیلتی گئی ۔ اماں حوا کی پیدائش کے بارے
دیگر سورتوں میں بیان ہوا ہے لیکن اتنا ہی کہ آدم ;174; کی بائیں پسلی سے
اماں حوا نے جنم لیا، پھر دونوں سے تمام مرد اورعورتیں کو پیدا کیا اور
دنیا میں پھیلا تو حیقت میں تمام انسان (مرد اور عورت) ایک شخص سے اللہ
تعالیٰ نے پیدا کیے ۔ اس کے بعد یتیموں کے لیے کہا گیا کہ’’ دے دو انہیں ان
کا مال اور مت بدلو برے مال کو اچھے مال سے ، اور مت ہڑپ کر ان کے مال اپنے
مالوں کے ساتھ ، یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر تم یتیم
لڑکیوں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو تو ان کے نکاح کردو ۔ سورہ لنساء یہاں
مرد کو چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ
ان چاروں کے سے عدل و انصاف کرسکو ، یہاں بھی یہی کہا گیا کہ اگرشوہر انصاف
نہ کرسکے تو صرف ایک بیوی پر ہی اکتفا کر ے ۔ چار کی تعداد اسلام نے مقرر
کی ، اس سے قبل تو کوئی قانون، حد، اخلاق ، شرافت غرض کچھ نہیں تھا، دھن
دولت کا غمار ، عورت کو اپنی ماندی سمجھنا، کوئی شمار ہی نہ تھا کہ کتنی
بیویاں ہیں ، کتنی کو چھوڑدیا گیا، بیویوں کے مابین عدل و انصاف کا تصور ہی
نہ تھا ۔ اسلام نے عورت کی اس بے توقیری کو توقیر دی، بے عزتی کو عزت دی،
مقام دیا، حد مقرر کی لیکن اس میں بھی انصاف کی حد لگا دی ۔ آگے چل مرد کو
طلاق دینے کا اختیار دیا لیکن ان کو خوش دلی مہر ادا کرنے کی ہدایت کی ۔
سورۃ النساء میں آیت6 میں ترکے یعنی والدین جو جائیدام چھوڑ کر دنیا سے
چلے جائیں اس جائیداد میں مردوں کا تو حصہ ہے ہی اس کے ساتھ عورتوں یعنی
بیٹیوں کے لیے بھی حصہ مقرر کیا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ ترکہ کم ہو یا زیادہ
دونوں کا حصہ مقرر ہے ۔ کہا گیا کہ تقسیم کے وقت اگر یتیم اور مسکین موجود
ہوں تو ان کو بھی اس میں سے حصہ دو ، یہاں آیت 9 میں واضح طور پر ان لوگوں
کو مخاطب کیا گیا جو ترکہ تقسیم کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کہ وہ ڈریں
وہ اللہ سے اور کریں ٹھیک ٹھیک بات ۔ آیت 11 میں ترکے کی تقسیم کی وضاحت
کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہدایت کرتا ہے تم اللہ تماہری اولاد
کے بارے میں ، مرد کا (حصہ) برابر ہے دوعورتوں کے حصے کے پھر اگر ہوں
(وارث) صرت لڑکیاں ہی دو سے زادہ تو ان کے لیے ہے دو تہائی پورے ترکے کا
اور اگر ہو ایک ہی لڑکی تو اس کے لیے نصف (کل ترکے کا) ۔ اور میت کے ماں
باپ کے لیے دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ہے چھٹا حصہ، ترکے میں سے اگر ہو
میت کی اولاد پھر اگر نہ اس کی اولاد اور وارث بن رہے ہوں اس کے ماں باپ ہی
تو اس کی ماں کو ایک تہائی حصہ ہے ۔ پھر اگر ہوں میت کے بھائی بہن تو اس کی
ماں کا چھٹا حصہ (یہ حصے نکالے جائیں گے)وصیت کی مرنے والے نے اور بعد
ادائیگی قرض کے(جو میت پر ہو) ۔ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد نہیں
چانتے کہ کون اسن میں سے قریب تر ہے تمہارے نفع کے لحاظ سے، (یہ حصے) مقرر
ہیں اللہ کی طرف سے ۔ بے شک اللہ ہے ہر بات جاننے ولا ، بڑی حکمت والا‘‘ ۔
اس کے بعد دو خاص قسم کی بدکاریوں کا ذکر ہے ۔ عورت اگر اس کی مرتکب ہو تو
اسے سزا دینے کی بات کی گی ہے،آیت 20 میں کہا گیا کہ اگربیوی کو طلاق دیدی
ہے توماضی میں اسے جو کچھ دے چکے ہو اس سے وا اپس نہ لینے کی بات ہے ۔ سورہ
النسا کی آخری آیات میں ان عورتوں کاذکر ہے جن سے نکاح کرنا جائز نہیں ،
کہا گیا کہ نہ کرو نکاح تم ان سے کرچکے ہوں تمہارے باپ ان عورتوں سے ، ساتھ
ہی یہ بھی کہا کہ پہلے ہوچکا سو ہوچکا، اس عمل کو کھلی بے حیائی اور قابل
نفرت کہا گیا ہے ۔ آخری آیت23حرام کردی گئیں ہیں تم پر تمہاری مائیں اور
تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں ، اور تمہا اری پھو پھپیاں ، تمہاری
خالائیں ، تمہاری بھتیجیاں ، تمہاری بھانجیاں ، اور وہ مائیں جنہوں نے دودھ
پلایا تمہیں اور بہنیں تمہاری ، دودھ شریکاور مائیں تمہاری بیویوں کی اور
وہ لڑکیاں جو پل رہی ہوں تمہارے گھروں میں جو اولاد ہوں تمہاری ان بیویوں
کی جن سے تم مباشرت کرشکے ہو، لیکن اگر نہ کی ہو تم نے ان سے تو نہیں ہے
کوئی گناہ تم پر نکاح کرنے میں ان لڑکیوں سے اور بیویاں تمہاری ان بیٹوں کی
جو تمہارے صُلب سے ہوں اور حرام کیا گیا ہے یہ بھی کہ جمع کر دوبہنوں کو
نکاح میں مگر جو کچھ پہلے ہوچکا سو چکا، بے شک اللہ ہے معاف کرنے والا ، ہر
حالت میں رحم فرمانے والا‘‘ ۔ (4 رمضان المبارک 1440ھ، 10مئی2019ء)
|