بزبان جانورو پر ظلم

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اسے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا اور کہا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی دوسری مخلوق پر رحم اور پیار کریں۔ مگر ہم نے جو سلوک بے زبان جانوروں اور پرندوں کے ساتھ کیا ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں۔

میں بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں کہ انسان اپنا روزگار کمانے کے لیے جانوروں اور پرندوں کو استعمال کرتا آ رہا ہے مگر جس کی محنت سے وہ رزق کماتے ہیں انھیں وہ ان کا حصہ پورا نہیں دیتے بلکہ ان پر ظلم کرتے ہیں۔ خاص طور پر گھوڑا، گدھا، اونٹ اور بیل کو کام میں لایا جاتا ہے، گھوڑے کو ٹانگے میں جوت کر سواریاں اٹھائی جاتی ہیں، گدھا اور اونٹ سامان لانے لیجانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور بیل سامان لادنے کے علاوہ زمین میں ہل چلانے کے بھی کام آتا ہے۔

صبح سویرے جب گھوڑے، گدھے اور اونٹ کے مالک انھیں کام کے لیے لے جاتے ہیں تو انھیں پیٹ بھر کے کھانا جسے ہم چارہ کہتے ہیں نہیں دیتے اور پھر سارا دن رات دیر تک اس سے کام لیتے ہیں۔ ایک تو ان پر اتنا وزن ڈالتے ہیں جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا ہے اور جب وہ چل نہیں سکتا تو اسے ڈنڈے سے مارتے رہتے ہیں۔

گدھا گاڑیوں پر سبزی اور پھل رکھ کر بیچے جاتے ہیں اور ان جانوروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ انھیں پورا دن کھڑا ہونا پڑتا ہے اور وہ ہانپتے رہتے ہیں اور اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو مالک اسے باگ (Rein) کے ساتھ مارتے ہیں۔ ان کے منہ میں لوہے کی ہٹی ڈال دی جاتی ہے جس سے چمڑے کے پٹے سے کنٹرول کرتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جانوروں کے مالک خود تو ہوٹل سے پانی پیتے ہیں مگر جانوروں کو پیاسا رکھتے ہیں اور ان کے پاس گھاس بھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ جہاں بھی کوئی ہری چیز دیکھتے ہیں تو اس طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں اور مالک کی مار کھاتے ہیں۔

پچھلے وقتوں میں سندھ میں نہ صرف مسافر خانے بلکہ جانوروں کے پینے کے لیے پانی کے حوض اور سائے کے لیے شیلٹر بنائے جاتے تھے اور پرندوں کے لیے چھت پر پانی اور دانہ رکھتے تھے۔ مگر اب تو شہر میں جانوروں کے پانی پینے کے لیے کوئی جگہ نہیں اور جو جگہیں تھیں ان پر قبضہ کر کے بزنس اسپاٹ بنائے گئے ہیں۔

اس وقت جانوروں کے علاج کے لیے باقاعدہ ہر شہر میں چھوٹے اسپتال ہوتے تھے اب تو اس نام کی اگر کوئی جگہ ہے بھی تو وہاں نہ آپ کو ڈاکٹر ملے گا اور نہ ہی دوائیں جس کی وجہ سے سرکاری جانوروں کے ڈاکٹر اپنا کلینک کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں آپ اپنے جانور اور پرندوں کا مہنگا علاج کروا سکتے ہیں۔ یہ منظر صرف آپ کو عیدالاضحی کے موقعے پر زیادہ نمایاں ملے گا اور ہر چورنگی پر پرائیوٹ ڈنگر ڈاکٹر کا کیمپ نظر آئے گا۔

ہم لوگ اتنے ظالم ہیں کہ اپنے شوق اور خوشی کے لیے ریچھ اور کتے کو، مرغوں ، تیتروں اور کتوں کو لڑاتے ہیں اور ان کے زخم اور موت کا تماشا بڑی ہنسی کے ساتھ دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب پشاور سے لے کر لاہور اور سندھ کے ایک سے دوسرے شہرے میں جانوروں کو ذبح کے لیے لے کر آتے ہیں اور کیسے ان کو ٹھونس کر بھرتے ہیں ٹرکوں میں جہاں پر وہ کئی دنوں کا سفر کر کے کراچی پہنچتے ہیں۔ ان جانوروں کو پورا سفر کھڑے ہو کر گزارنا پڑتا ہے اور وہیں پر فضلہ بھی نکالتے ہیں۔ مویشیوں کے کھانے کو بہت کم گھاس دی جاتی ہے، چارہ کھاتے وقت انھیں نیچے جھکنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے جو صرف وہی جانتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے لیے رزق کا بندوبست کیا ہے جب آپ مرغی یا بھینس، گائے یا بکری کا گوشت لینے جاتے ہیں تو اس کی غیرضروری چیزوں کو باہر پھینکا جاتا ہے تا کہ وہ بلیاں، کتے، چیل اور کوے وغیرہ کھائیں۔ مگر اب تو ہمیں لالچ اور حرص نے اتنا جکڑ لیا ہے کہ ہم ہر بچی ہوئی چیز کو بھی بیچ کر اس میں سے انسانوں کے لیے دوسری مصنوعات بناتے ہیں اور خدا کی پیدا کی ہوئی اس مخلوق کو بھوکا رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے

Amanullah Sabir
About the Author: Amanullah Sabir Read More Articles by Amanullah Sabir: 8 Articles with 13979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.