ذلتوں کے مارے لوگ

انور بیگ
انسانی حقوق کے استحصال کے سب سے بڑے مراکز(district management ) میں لوگ کس طرح انصاف کے حصول کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اور ان پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ درج ذیل روداد کو پڑہ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔

بخدمت جناب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لاہور

بعنوان۔غیر قانونی تعمیرات ، میونسپل کارپوریشن،صحت عامہ اور ماحولیات کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی۔

جناب عالی
گزارش ہے کہ میں جناح کالونی ٹیپو روڈ میں رہتا ہوں۔میں یہاں تقر یبا عرصہ ۰۲ سال سے رہ رہا ہوں۔یہ رہائش گاہ ایک کمپاﺅنڈ کی طرح ہے اور اس میں ۹ کے قریب مکانات موجود ہیں۔

میں نے اس کمپاﺅنڈ میں موجود درج ذیل مسائل کے حل لئے تین بار راولپنڈی کے کمشنروں کو درخواست دی کہ وہ اس مسئلے کے حل میں میری مدد کریں۔کمشنر صاحبان نے اس مسئلے کے حل کے لئے حکم جاری کئے اور متعلقہ اداروں اور لوگوں سے تفصیلات طلب کیں تاہم میونسپل کمیٹی میں موجود کالی بھیڑوں نے اپنے لوگوں کو بچانے اور غیر قانونی اقدامات پر پردہ ڈالنے کے لئے کمشنر صاحبان سے جھوٹ بولا اور انہیں بتایا کہ یہ مسائل کمپاﺅنڈ میں موجود نہیں اور یہ کہ سائل کی درخواست حقائق پر مبنی نہیں لہٰذا درخواست کو داخل دفتر کر دیا جائے۔

پہلی بار میں نے یکم اکتوبر۷۹۹۱ میں کمشنر جناب میجر قمر زمان صاحب کو درخواست دی جسکی نقل ساتھ منسلک ہے۔
دوسری بار میں نے ۹۲ نومبر۷۹۹۱ کو کمشنر صاحب کو درخواست دی جس کی نقل ساتھ منسلک ہے۔
تیسری بار میں نے میونسپل کمیٹی میں آرمی مانیٹرنگ میں میجر رؤف صاحب کو متعلقہ مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے۶۲ جولائی ۰۰۰۲ کو درخواست دی۔
چوتھی بار میں نے ۶ دسمبر ۸۰۰۲ کو تیسرے کمشنر صاحب کو درخواست دی جو گم کر دی گئی اور میرے استفسار پر کہا گیا کہ میں ایک اور درخواست دوں لہٰذا میں نے پانچویں بار ۷۱ اکتوبر ۹۰۰۲ کو کمشنر صاحب کو ایک اور درخواست دی اور میں نے کمشنر صاحب کو ماضی کے واقعات اور ریاستی اداروں کی چالوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بار آپ تیسرے کمشنر ہوں گے جنہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آپ میری مدد کر سکتے ہیں یا نہیں۔

حسب دستور اس درخواست پر بھی کاروائی کرنے کے احکامات جاری ہوئے اور میونسپل کمیٹی میں موجود محکمہ تعمیرات،تقشہ جات،انسپکشن،سرٹیفیکیشن، محکمہ صحت اور ماحولیات،epa) (کے محکموں کے افسران سے اس بارے میں رائے طلب کی گئی۔

کمشنر صاحب کی ہدایات پر یہ انکوئری ضلعی آفیسر سپیشل پلاننگ کے سپرد کی گئی۔چونکہ معاملہ طویل عرصہ سے زیر بحث تھا لہٰذا معاملہ کی تحقیق کے لئے چار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے موقع پر جا کر معاملات کی چھان بین کی۔ میں نے کمیٹی کے ممبران کو ایک ایک جگہ کی حالت زار کے بارے میں موقع پر لے جا کر دکھایا اور تفصیل سے اس کے پس منظر اور اپنی ذلتوں اور رسوائیوں سے آگاہ کیا۔

چند دنوں کے بعد مجھے ایک خط کے ذریعے معلوم ہوا کہ میں نے سپیشل پلاننگ میں ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہونا ہے۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کمیٹی کے سامنے میونسپل کمیٹی میں تعمیرات،نقشہ جات،انسپکشن،سرٹیفیکیشن اور غالباً صحت کے محکمہ اور ماحولیات سے متعلق ذمہ دار لوگوں کو بھی بلایا گیا تھا کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔لیکن اس کمیشن کے سامنے کوئی بھی پیش نہ ہوا۔مجھے بتایا گیا کہ مجھے ایک بار پھر آنا ہو گا۔اس طرح مجھے دوسری بار بھی اس کمیٹی کے سامنے بلایا گیا تاہم ما سوائے میرے کوئی بھی ذمہ دار شخص کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوا۔ اور اس کھیل کے سب سے بڑے کھلاڑی آفتاب چوہان جو ٹی ایم اے میں ریگولیشن آفیسر ہے نے بھی آنے سے معذرت کر لی۔

جبکہ میں اس معاملہ کے بارے میں جاننے کے لئے دس بار سے ائد چکر لگا چکا تھا۔ پھر مجھے ایک خط بتاریخ ۲۲ جون ۹۰۰۲کے ذریعے بتایا گیا کہ( میرے) کمپاؤنڈ کے مسائل کے حل کے لئے ٹاﺅن آفیسر ریگولیشن،ٹاﺅن آفیسر پی انیڈ سی،ایم ڈی واسا،سوفی نذیر احمد اور ٹاﺅن میونسپل آفیسر راول ٹاﺅن کو خطوط لکھ دئیے گئے ہیں کہ وہ اس کمپاﺅنڈ کے مسائل کے حل کے لئے میری مدد کریں۔

میں نے اس کمپاﺅنڈ میں موجود جن مسائل کا ذکر کیا تھا اور جن کے تدارک کے لئے مدد مانگی تھی وہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ یہ کہ اس کمپاﺅنڈ میں موجود مکانات کی تعمیر بلڈنگ رولز کے مطابق نہیں ہے۔کمیٹی بنائی جائے جو اس امر کی تحقیق کرے۔
۲۔یہ کہ اس کمپاﺅنڈ میں عیر قانونی طور پر گندگی کا سٹور بنایا گیا ہے جس میں گندگی ، کیڑے مکوڑے اور چوہوں کی بھر مار ہے۔ اور یہ امر حفظان صحت کے اصولوں اور افراد کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
۳۔اس کمپاﺅنڈ میں زیر زمین پانی کے ٹینکس کے عین درمیان طوالت بنائی گئی ہے اور استعمال میں ہے جبکہ قانون کے مطابق اس میں کم از کم سات فٹ کا فاصلہ ہونا چائیے۔ذمہ دار لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔
۴۔یہ کہ میرے گھر کے کچن کے تین فٹ سے کم فاصلے پر کمپاﺅنڈ کی پشی پوٹی کا گٹر بنایا گیا ہے۔جو کہ غیر قانونی اقدام اور میرے بنیادی حقوق کی نفی ہے،ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
۵۔یہ کہ میرے گھر کے صحن میں اوپر والے مکان کا ڈرین پھینکا جا رہا ہے۔ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور مجھے اور میرے گھر والوں کو اس اذیت سے نجات دلائی جائے اور اوپر والے مکان کے رہائشیوں مسمات زیبا زریں کو متنبہ کیا جائے کہ وہ اس مسئلے کے فوری حل کے لئے مالک مکان یا عدالت سے رجوع کر کے اس کی مرمت کرائے ۔
۷۔ یہ کہ اس کمپاﺅنڈ میں پچھلے ۰۲ سالوں کے دوران کوئی سالانہ مرمت نہیں ہوئی ہے اس کا تعین کیا جائے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
۸۔ یہ کہ اس کمپاﺅنڈ میں پچھلے ۰۲ سالوں کے دوران صفائی ستھرائی اور روشنی کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے اور اس کمپاﺅنڈ میں روشنی کا انتظام میں ہی کرتا ہوں اور میں ہی اس کی بجلی کا بل بھی دیتا ہوں۔ مجھے اسکا معاوضہ دلوایا جائے اور ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
۹۔یہ کہ اس کمپاﺅنڈ میں غیر شادی شدہ لوگوں کو بھی کمرے دیے گئے ہیں جو کہ فیملی والوں کے لئے ایک مسلسل عذاب ہیں۔یہ ایک غیر قانونی اور قابل مذمت اقدام ہے ، مالکان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور غیر متعلقہ لوگوں کو یہاں سے بے دخل کیا جائے۔
۰۱۔یہ کہ میں نے ان مسائل کے حل کے لئے ۷۹۹۱جب دوڑ دھوپ تیز کی تو اس کمپاﺅنڈ کے سابق مالک نے میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائیر کر دیا کہ میں کرایہ ادا نہیں کرتا اس کے بعد اس نے ایک اور مقدمہ دائیر کیا کہ اسے اس مکان کی ذاتی ضرورت ہے۔ اس کی وفات کے بعد(نئے لینڈ لارڈ) چودھدی محمد اکرم نے بھی اسی کی راہ پر چلتے ہوئے ان مسائل پر پردہ ڈالنے اور اس طرح کی شکایتوں سے مکمل طور پر جان چھڑانے کے لئے میرے خلاف رینٹ کنٹرولر کی عدالت میں درخواست دائیر کی ہے کہ میں کرایہ باقائدگی سے ادا نہیں کرتا لہٰذا مکان خالی کرنے کا حکم صادر کیا جائے۔حالانکہ میں رینٹ کنٹرولر کی ہدایات کے عین مطابق کرایہ بنک میں جمع کرا رہا ہوں۔

جناب عالی
گزارش ہے کہ اس طرح کی درخواستیں دینا ہمارے معاشرے میں ایک روایت بن چکا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ضلعی عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات کی بھرمار ہے حالانکہ ان درخواستوں میں ۰۷ فیصد سے زائد درخواستوں کا تعلق کرایہ میں اضافے یا کرائے دار کی جانب سے مکانات کی حالت زار کو درست کرنے سے ہوتا ہے۔

جبکہ ایک فیصد سے کم معاملات میں مالک مکان کو ذاتی ضرورت ہوتی ہے یا اس کا موقف درست ہوتا ہے۔

جیسا کہ چند سال قبل میرے ہی کمپاﺅنڈ میں رہنے والی ایک فیملی سے مکان صرف اس لئے خالی کرا لیا گیا کہ مالک مکان صوفی نذیر کرائے میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کرنا چاہتا تھا، حالانکہ اس نے ان سے ایک کمرہ بھی زبردستی لیا ہوا تھا۔ جبکہ شاہ بی بی روڈ پر ایک بیوہ خاتون نسیم مصطفے جس کے دو بچے ہیں اور وہ دوسروں کے گھروں میں محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلا رہی ہے سے اس لئے مکان خالی کرا لیا گیا کہ مالک مکان اس میں۰۰۰۲ روپے کا اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح اس عورت کو اس کے آئینی و قانونی حق سے محروم کر دیا گیا۔

ایک سروے کے مطابق شہروں میں ہونےوالی رہائیشی تعمیرات میں سے ۰۸ فیصد سے زائد رہائشی عمارات کسی بھی تعمیراتی قانون قائدے،حفظان صحت کے اصولوں یا ماحولیات کے قانون کے مطابق نہیں بنائی جارہی ہیں اور اس طرح کی تمام تعمیرات اکیسویں صدی کے سملز ثابت ہوں گی اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔اور اس کی تمام تر ذمہ داری ضلعی انتظامیہ میں موجود تعمیرات،حفظان صحت اور ماحولیات کے محکموں کے سربراہان پر عائد ہوتی ہے۔جو اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور یہاں رہنے والے عوام کو شودر سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔یقیناً انہیں ایسا کرنے کا حق دیا گیا ہو گا۔ بصورت دیگر ان لوگوں کو توجیلوں میں ہونا چاہیے تھا۔

یہی صورتحال میرے گھر کی ہے اور مالک مکان اسی طرح کے روائتی بہانوں سے فائدہ اٹھا کر حقیقی معاملات اور خود پر عائد ذمہ داریوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔اور ضلعی انتظامیہ اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مکمل طور پر اس کے ساتھ ہے۔اس کا واضح ثبوت ۳۱ سال سے چلنے والا یہ مقدمہ ہے جس میں کارپوریشن میں بیٹھے محکمہ تعمیرات کے ایک ریگولیشن افسر کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں تا حال نہیں بلایا جا سکا ہے۔جبکہ اس کے برعکس مجھے سمجھانے کی کوشش کی جاری ہے کہ ایسے کاموں میں کیا رکھا ہے،کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہو گا۔حالانکہ میں تو انسانی حقوق اور قانون کی با دستی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔

جناب عالی
یہ ذو معنی چالیں ہیں اور ان کا زیادہ تر فائدہ مالک مکان کو ہوتا ہے،اول یہ کہ اسے مکان خالی مل جا تا ہے اور دوئم یہ کہ اس کا دوسروں پر منفی اثر پڑتا ہے کہ مالک مکان نے کرایہ دار کو سبق سکھا دیا لہٰذا مالک مکان سے کوئی مطالبہ نہ کیا جانا چاہئے اور اس کی باتوں کو من و عن تسلیم کر لیا جانا چاہئے۔

جناب عالی،اس طر ح کے واقعات ہماری عدالتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں اور عوام اس طرح کے روائیتی ہتھکنڈوں سے نجات چاہتے ہیں۔تاکہ وہ امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔

لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے کہ ضلعی انتظامیہ ،میونسپل کارپوریشن میں موجود ذمہ دار افراد ، حفظان صحت اور ماحولیات سے متعلق ضلعی افسران سے یہ پوچھا جائے کہ ان کی اس ضمن میں کیا قانونی ذمہ داری بنتی ہے اور وہ کون سے محرکات تھے جن کی بنا پر وہ کمشنر کی ہدایات پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے۔ نیز شہر میں ہونے والی تعمیرات بشمول رہائشی و تجارتی کے تمام تر معاملات کو صحت اور ماحولیات کے قوانین کا سختی سے پابند بنائے جائے کے احکامات بھی صادر فرمائے جائیں یعنی تعمیرات سے متعلق تمام نقشہ جات کو epaکے قوانین کا سختی سے پابند کیا جائے اور اس ضمن میں ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں NGOs کو بھی نمائندگی دی جائے ۔

جناب عالی
میری آپ سے درخواست ہے کہ اس طرح کے تمام مقدمات میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے انصاف کمیٹی اور مصالحت انجمنوں کے کردار کو فعال بنانے کا حکم بھی صادر فرمایا جائے۔چونکہ یہ ادارے ایک تو قانونی حیثیت کے حامل ہیں اور دوسرے یہ مقامی ہونے کے باعث کسی بھی معاملے سے با خبر ہوتے ہیں۔ اس طرح بے شمار مسائل کو ان کی اپنی ہی کونسل Grassroot level میں حل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح لوگوں کو ناقابل بیان اذیتوں اور پیسے کے ضیا سے بچایا جا سکتا ہے۔نیز یہ طریقہ کار عدلیہ کے وقار اور قانون کی بالا دستی میں اضافے کا باعث بھی بن سلتا ہے۔

تاہم ان مقاصد کے حصول کے لئے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو سب سے پہلے ضلعی عدالتوں کے نظام کو انقلابی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔بصورت دیگر یہ سب خواب ہے۔

آپکا ممنون

انور بیگ
ایڈٹر
پاکستان فیچر سنڈیکیٹ
مکان نمبر ۷۹۲ سی گلی نمر ۲ جناح کالونی ٹیپو روڈ راولپنڈی
فون نمبر۔0334-5022647
Muhammad Baig
About the Author: Muhammad Baig Read More Articles by Muhammad Baig: 22 Articles with 14168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.