زکوٰۃ ایک اہم رکن اسلام اس کی تحصیل اور تقسیم

 زکوٰۃ وہ عظیم الشان عبادت ہے جو کہ اسلام کے ارکان میں سے اہم رکن قرار دی گئی ہے اور سابقہ آسمانی مذاہب میں بھی فرض بتلائی گئی ہے۔شریعت محمدﷺ نے دیگر اَحکام کی طرح اس میں بھی اپنا تکمیلی کام مکمل کر کے نہایت ہی خوبی کے ساتھ زکوٰۃ کا پورا نظام تیار کیا ہے۔ ابتدائے اسلام ہی سے جس طرح نماز کا حکم دیا گیا اسی طرح صدقہ و خیرات کی ترغیب بھی ساتھ ساتھ شروع ہوئی۔ سورۂ مزمل وحی کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے، اس میں بتصریح نماز اور زکوٰۃ دونوں کا حکم موجود ہے ۔زکوٰۃ بارے ارشارباری تعالیٰ ہے:۔۔ ’’اور قائم کرو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور قرض دو اﷲ کو اچھی طرح پر قرض دینا اور جو کچھ آگے بھیجو گے اپنے واسطے کوئی نیکی اس کو پاؤ گے اﷲ کے پاس بہتر اور ثواب میں زیادہ‘‘۔۔ نبی کریمﷺ کا طریقہ اُمت کو عملاً اسلام کی تعلیمات پر کاربند بنانے کا تھا، اس لیے حالات کی مناسبت کے ساتھ ساتھ تعلیمات کی تفصیل اور اس کے متعلق احکام کی تشریح آہستہ آہستہ تکمیل کو پہنچائی گئی۔ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی پریشانی اور شکستہ حالی کی جو کیفیت تھی اورزکوٰۃ کے لیے کوئی نصاب و مقدار متعین نہیں ہوئی تھی ۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو کسی قدر اطمینان ہوا اور انھوں نے کچھ اپنا کاروبار شروع کیا تو روزہ کے ساتھ صدقۂ فطر واجب ہوا ، تاکہ غریب و محتاج لوگ بھی اپنی عید کا دن پیٹ بھر کر خوشی اور مسرت سے گزاریں۔اس کے بعد جب مسلمانوں کو صدقہ و خیرات کی عام طور سے تاکید کی گئی تو انھوں نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ ! ہم کیا خیرات کریں؟ ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے،، اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ کہہ دے : جو بچے اپنے خرچ میں سے‘‘ ۔۔یہ زکوٰۃ کے تعین بارے میں اسلام کا پہلا قدم تھا۔ جب مسلمانوں کو فتوحات نصیب ہونے لگیں اور تجارت کی آمدنی شروع ہوئی تو حکم ہوا ٰ۔۔ٓ’’اے ایمان والو! خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اور اس چیز میں سے کہ جو ہم نے پیداکیا تمہارے واسطے زمین سے۔‘‘۔۔ اس وقت تک تمام عرب اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع نہیں ہوا تھا اس لیے زکوٰۃ کا کوئی مرتب نظام قائم نہیں ہوا تھا۔ رمضان المبارک ۸ ہجری میں فتح مکہ نے تمام عرب کو ایک سررشتہ میں منسلک کردیا ۔ اس کے بعد نئے سال یعنی محرم ۹ ہجری میں زکوٰۃ کے تمام احکام اور قوانین مرتب ہوئے اور اس کی تحصیل و تقسیم کے لیے باقاعدہ نظام مقرر ہو۔ مدینہ منورہ میں آکر مسلمانوں کی مستقل مضبوط جماعت بن گئی تو زکوٰۃ کا لازمی قانون بنا دیا گیا۔اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قابل زکوٰۃ اموال کا تعیین کرکے زکوٰۃ کی شرائط اور مصارف بیان کرکے اسکی وصولی اور تقسیم کے انتظام کے لیے ایک مستقل شعبہ قائم کیا جو حکومت کی زیر نگرانی مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے فقراء میں تقسیم کرے۔ اب زکوٰۃ کا معاملہ انفرادی نہیں رہا تھاکہ مالکان خود ہی فقراء میں تقسیم کردیں۔ بلکہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے نظم و ضبط کے لیے ایک مستقل ادارہ مقرر ہوچکا تھا جو حکومت کے زیر نگرانی اس فریضہ کو سرانجام دیتا تھا۔زکوٰۃ کا معاملہ اجتماعی اور حکومت کا ایک شعبہ ہونے کی سب سے واضح دلیل قرآن پاک کی وہ آیت ہے جس میں زکوٰۃ کے مصارف بیان کیے گئے ہیں، اس آیت میں مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے جو سرکاری سطح پر زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے کام پر مقرر کیے گئے ہیں اور ان کو ’’العاملین علیہا‘‘ کا نام دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ ــزکوٰۃ جو ہے سو وہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور زکوٰۃ کے کاموں پر جانے والوں کا‘‘اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنا امام کی ذِمہ داری ہے ۔ ؛ لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ کا وصول کرنا امام (حاکم) کا حق ہے اورمالکان کا خود ہی فقراء کو دینا جائز نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ حاکم وقت یا اس کے مقرر کردہ عاملین کو دینا ضروری ہے۔ ،، کوئی وصول کنندہ اسے وصول کرتا ہے اور تقسیم کنندہ اسے تقسیم کرتا ہے،، نہ یہ کہ جس پر واجب ہوئی ہے اسی کے اختیار پر چھوڑ دی گئی ہے اس حدیث سے یہ ثابت ہوا ،، کہ حاکم ہی زکوٰۃ وصول کرنے اور صرف کرنے کا والی ہے یا تو خود یا اپنے نائب کے ذریعے،، لہٰذا جو نہ دے اس سے زبردستی لی جائے گی۔ اور بھی بہت ساری احادیث سے وضاحت ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکومت کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین و دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے عملی کردار سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہما کو مختلف قبائل اور علاقوں کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا۔اور پورے جزیرہ عرب کے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچائی جاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قوم یا قبیلہ اسلام میں داخل ہوتا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ان میں سے ایک آدمی مصدق متعین فرمادیتے جو ان کے اغنیاء سے زکوٰۃ وصول کرکے فقراء میں تقسیم کرتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری سطح پر زکوٰۃ وصول کرنے کا نظام قائم ہے اور حکومت بینکوں اور بہت سے مالیاتی اداروں سے زکوٰۃ وصول کرتی ہے یکم رمضان المبارک سے بینکوں میں جمع رقوم سے زکوٰۃ منہا کردی گئی ہے تاہم ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ کئی لوگوں نے بینکوں میں غلط سرٹیفیکٹ پیش کرکے زکواۃ دینے سے دانستہ اجتناب کیا ہے ایسا کرنے والوں کواﷲ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا انتظام اسلامی حکومت کی ایک اہم ذِمہ داری ہے اور اسلامی حکومت یہ انتظام ٹھیک ٹھیک شرعی احکام کے مطابق قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ نفاذِ شریعت کی طرف ایک نہایت مثبت قدم ہوگا۔ مگر حکومت کو ان باتوں کالحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی میں کسی مسلمان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہو، جس کے ذِمہ جتنی رقم واجب ہے اس سے ایک پائی بھی زائد وصول نہ ہو۔ کیونکہ حدیث پاک میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: صدقہ وصول کرنے میں زیادتی کرنے والا ایسا ہی گنہ گار ہے جیسے زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا۔ دوسری بات یہ ہے کہ زکوٰۃ سے حاصل ہونے والی رقم عین شریعت کے مطابق اس کے صحیح مستحقین تک پہنچ جائے۔ عاملین زکوٰۃ کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ اس میں کوئی خیانت، خرد برد، بدعنوانی یا شریعت کے احکام سے تجاوز نہ ہونے پائے کیونکہ اس طرح زکوٰۃ کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔حکومت سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر مقامی زکواۃ کمیٹیوں میں عوام میں سے جو زیادہ دیانت دار اور امانت دار اور پرہیزگار ہیں ان ہی کا انتخاب کریں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور مسلمانانِ پاکستان مل کر اس نظام کو کامیاب اور قابل اعتماد بنائیں تاکہ زکواۃ کی رقم صحیح حق داروں تک پہنچ پائے۔

Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 18973 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.