پیغام ِ رمضان!

اﷲ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی طرح امت محمدیہ ؐ پر بھی روزے فرض کیے تاکہ یہ امت تقویٰ اور پرہیز گاری حاصل کرے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب کم از کم ستر گنا بڑھا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مہینے میں امت محمدیہؐ کیلئے جہنم کے دروازے بند جبکہ جنت کے دروازے کھول کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ روزہ وہ مبارک عمل ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اپنے بندے کو اس کا اجر دونگا۔اس لیے روزہ ہی و ہ مبارک عمل ہے جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ سے ذہنی وقلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، خواہشاتِ نفس دب جاتی ہیں، دل کا زنگ دور ہو جاتا ہے جبکہ انسان گناہوں، فواحشات اور بے ہودہ باتوں سے بچ جاتا ہے اور روزہ کے ذریعے مساکین و غرباء سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ ام المو منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک آتا تھا تو حضورﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا، نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا، دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب آجاتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ‘ رمضان المبارک میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ داروں کی دعا پر آمین کہا کرو۔

ایک روایت میں ہے کہ رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی (فرشتہ) پکارتا ہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار بس کر (بازرہ) اور آنکھیں کھول۔ منادی کہتا ہے کہ کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت بڑا اور مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (شبِ قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔

یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ (جہنم) سے آزادی ہے، جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام (و خادم) کے بوجھ کو ہلکا کر دے اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی نہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے کہ جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔

حضورؐ نے فرمایا ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے بدلے میں سوائے بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہ ملا یعنی اس کے غیبت و چغلی کے ذریعے اور حرام مال کے ساتھ اس کو افطار کر کے اس کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ایک اور حدیث میں حضور اقدسؐ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا گیا ہے کہ میری امت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں (1) ان کے منہ کی (روزہ کی وجہ سے) بدبو اﷲ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (2) ان کیلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (3) جنت ہر روز ان کیلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں (4) اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں (5) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کیلئے مغفرت کی جاتی ہے۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا شبِ مغفرت، شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اس ماہ میں ایسی عبادت عطا فرمائی ہے جس کا اجر اﷲ تعالیٰ خود عطا فرمائیں گے۔ پھر ماحول بھی ایسا عطا فرما دیا کہ شیاطین کو پابند زنجیر کر دیا۔ رمضان کے تینوں عشروں کو بالترتیب رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا زمانہ قرار دیا۔سوچنا یہ ہے کہ اس مبارک مہینہ میں کس طرح رہاجائے کہ رمضان المبارک کے انوار و انعامات حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحئی صاحب ؒ فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میر امہینہ ہے اور اس مہینہ میں اطاعت و عبادات کا صلہ میں دوں گا۔ خدا معلوم ان کی مشیت میں کیا کیا صلہ ہے جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرمائیں گے۔

ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کینہ نہ ہو۔ کینہ رکھنے والا شخص شب قدر کی تجلیات، مغفرت اور قبولیت دعاء سے محروم رہے گا۔ معاشرتی تعلقات میں اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب دوست و احباب سب پر ایک نظر دوڑائیں کہ ان میں سے کسی کے لیے دل میں کوئی کھوٹ، کینہ یا غصہ تو نہیں ہے۔ اگر آپ کسی معاملہ میں حق بجانب اور دوسرا باطل پر ہے لیکن آپ اﷲ کی مغفرت چاہتے ہیں تو اسے معاف کر دیں اور اگر آپ نے زیادتی کی ہو تو اس سے معافی مانگ لیں۔ اس کے علاوہ اپنے بیوی بچوں پر بھی نظر ڈالیں کہ ان میں سے آپ سے کوئی ناراض تو نہیں یعنی ان کے ساتھ کوئی بے جا تشدد یا زیادتی تو نہیں کی۔ اگر ایسا ہے تو ان سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں بلکہ خوش اسلوبی سے ایسا برتاؤ کریں جس سے وہ خوش ہو جائیں۔

اسی طرح بھائی،بہن، عزیز و اقارب، غرض کسی سے کسی قسم کی رنجش بھی ہو تو ان کو معاف کر دیں کیونکہ آپ بھی تو اﷲ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔ اسی طرح فضول باتوں سے پرہیز کریں کیونکہ لغو باتیں کرنے سے عبادت کا نور جاتا رہتا ہے۔ اس کی بجائے کلام پاک اور سیرۃ النبیؐ پڑھئے۔ رمضان المبارک کی دو عبادتیں سب سے بڑی ہیں۔ ایک تو کثرت سے نماز پڑھنا جس میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے اس کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کا خاص اہتمام ہونا چاہیے جبکہ دوسری عبادت تلاوت کلام پاک ہے۔اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو تہیہ کر لیں کہ آپ کے ہاتھ سے، زبان سے، قلم سے خدا کی مخلوق کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ کسی کو دھوکہ نہ دیں‘ کسی ناجائز غرض سے اس کا کام نہ روکیں اور کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو۔ اگر آپ تاجر ہیں تو صداقت و امانت سے کام کریں۔

رسول اﷲؐ نے ایک اور موقعہ پرارشاد فرمایاکہ ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ باہمی رواداری اورغم خواری کا مہینہ ہے۔‘‘رسول اﷲؐ نے رمضان المبارک کے مقدس ماہ کے بارے میں جو ارشادات فرمائے ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے مسلمانوں کو اس ماہ میں اخوت کی خصوصی تربیت دی۔ اخوت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان دوسرے سے ہمدردی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور اسے تکلیف یا دکھ دینے سے پرہیز کرتاہے۔ چنانچہ آپ ؐنے فرمایا:ترجمہ’’جس دن کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ بری باتیں کرے نہ بے جا چلائے اور اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے لڑنے لگے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔

آپس میں بھائی چارے کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ کینہ، بغض، حسد اور اس جیسے برے جذبات آپس میں ختم ہو جائیں اور آپس میں ہمدردی اور شفقت پیدا ہو۔اخوت اسلامی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی مشکلات میں کام آئے اور دنیاوی پریشانیوں اور دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے خصوصاً رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں پوری کوشش رہے کہ کسی مسلمان کو اس سے تکلیف نہ پہنچے۔بدقسمتی سے آپس میں حسد، کینہ اور بغض کی وجہ سے آج امت مسلمہ بکھری ہوئی ہے اور یہی وجہ سے کہ دُنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے جس کی مثال برما، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم ہیں لہٰذا امت مسلمہ کو چاہیے کہ اس ماہ رمضان میں آپس کے لڑائی جھگڑے ختم کرکے ایک ہوجائیں۔

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 141958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.