آخرکار پاکستان کینیڈا سے جیت ہی گیا۔
ہر پاکستانی کی طرح میچ جیتنے کی تو مجھے بھی خوشی ہوئی۔ خاص طور پر اس وقت
جبکہ میں لندن میں مقیم ہوں اور میرا رابطہ مختلف ممالک کے لوگوں سے رہتا
ہے۔ پاکستان کی ہر فتح، ہر کامیابی یہاں ہمارے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے
اور ہم فخر سے سر اٹھا کر دوسری قومیتوں کے لوگوں سے بات کرتے ہیں۔
مگر اس فتح کے باوجود کینیڈا کے خلاف پاکستانی ٹیم کی کارکردگی نے کئی
سوالوں کو جلا بخشی۔ پاکستانی بیٹنگ پچھلے دو میچز میں خاصی تسلّی بخش رہی
تھی جس کا نتیجہ پاکستان کی واضح فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ مگر آج کے میچ
میں کینیڈا جیسی نا تجربہ کار ٹیم کے سامنے پاکستانی ٹیم کا 184 رنز پر آؤٹ
ہوجانا بحرحال تشویش کا باعث ہے۔ واضح رہے کہ آج کے میچ میں پاکستان پر کسی
قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور تماشائی بھی پاکستان کے خلاف نہیں تھے جیسے
کہ “ہوم ٹیم“ کے خلاف کھیلنے کی صورت میں ہوتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اصل طاقت ہمیشہ باؤلنگ رہی ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا
بہترین باؤلنگ اسکواڈ رہا ہے۔ مگر اس ورلڈ کپ میں ہماری باؤلنگ کسی بھی طرح
متاثر کن نہیں رہی۔ شعیب اختر اور عبدالرزّاق سے باؤلنگ اوپن کرانا بذات
خود باؤلنگ کی کمزوری کی نشانی ہے۔
بہرحال شاہد آفریدی کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی جس کی جتنی تعریف کی
جائے کم ہے۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کی جو بھی کارکردگی رہے مگر شاہد آفریدی
کی دلکش کرکٹ ہمیشہ یاد رہے گی۔ چاہے وہ ان کی جارحانہ بیٹنگ ہو، صلح جو
قیادت ہو، عمدہ فیلڈنگ ہو یا خطرناک ترین باؤلنگ، انہوں نے بہرحال ہمارے دل
جیت لئے ہیں۔
مگر کیا پاکستانی ٹیم صرف ایک کھلاڑی کی کارکردگی پر ورلڈ کپ جیتنا چاہتی
ہے؟ یاد رکھیں یہ تجربہ تو انڈیا اور ویسٹ انڈیز میں بھی ناکام رہا جہاں
سچن ٹنڈولکر اور برائن لارا کے آؤٹ ہونے کے بعد پوری بیٹنگ خزاں کے پتوں کی
طرح بکھر جایا کرتی تھی۔ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ سری لنکا کے خلاف جب تمام
پاکستانی بیٹسمینوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی تبھی فتح کی صورت نظر آئی۔
ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں جہاں تک بھی پہنچے مگر
پاکستانی ٹیم کی کمزور باؤلنگ ہمیشہ باعث تنقید رہے گی اور شاہد آفریدی کی
مثالی کارکردگی ہمیشہ دلوں کو لبھاتی رہے گی۔ |