جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ورلڈ
کپ 2011 کا موسم شروع ہوچکا ہے اور آج سے کچھ دن بعد یعنی 19 فروری 2011 کو
دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا ایونٹ شروع ہوجائے گا اور زیادہ تر ٹیمیں ورلڈ کپ
میزبان ملکوں میں پہنچ چکی ہیں اور وارم اپ میچز کھیلے جارہے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی بنگلہ دیش پہنچ چکی ہے اور ورلڈ کپ کی تیاریاں شروع
کرچکی ہے۔مختلف ٹیموں کے کوچز اور کپتانوں کی طرف سے طرح طرح کے بیانات
سننے کو اور پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ ہم یہ کردیں گے ہم وہ کردیں گے ۔ میں
غیب کا علم تو نہیں جانتا کہ دعویٰ کرسکوں کہ کون سی ٹیم ورلڈ کپ جیتے گی
اور کون سی نہیں ۔ اور یہ بات بھی سب پہ عیاں ہے کہ جو ٹیم کھیل کے تمام
شعبوں میں سو فیصد کارکردگی دیکھائے گی وہی ٹیم ٹائٹل جیتے گی اور وہ چاہے
کوئی بھی ٹیم ہو۔
بحیثیت پاکستانی میری تمام نیک خواہشات، تمنائیں اور دعائیں اپنی پاکستانی
کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیں اور میری دلی خواہش بھی یہ ہے کہ پاکستان اب کی بار
ورلڈ کپ جیت جائے (آمین)۔ لیکن اگر تمام حقائق کا جائزہ لیا جائے اور
پاکستان کی گزشتہ فتوحات کا ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے
کہ پاکستان نے جب بھی فتح حاصل کی اس فتح میں پاکستان کی باؤلنگ نے کلیدی
کردار ادا کیا ۔اور اس وقت پاکستانی باؤلنگ کی جو پوزیشن ہے وہ بھی سب کے
سامنے ہے ۔ پاکستانی ٹیم کے دو فاسٹ باؤلر محمد آصف اور محمد عامر اسپاٹ
فکسنگ اسکینڈل میں ملوث ہونے کی پاداش میں بالترتیب 7 اور 5 سال کی پابندی
لگوا کر کرکٹ سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرے خیال سے محمد عامر کے ٹیم میں
موجود ہونے سے پاکستان کا باؤلنگ اٹیک کافی مضبوط تھا۔سہیل تنویر کو بھی ان
فٹ قرار دے کر ورلڈ کپ سکواڈ سے باہر کیا جاچکا ہے ۔ شعیب اختر میں اب وہ
پہلے والا دم خم نہیں رہا ۔ اور پیچھے باقی باؤلرز میں عمر گل اور وہاب
ریاض رہ جاتے ہیں اور پاکستانی ٹیم کی باؤلنگ کا سارا دارومدار ابھی انہی
دونوں کے کندھوں پر ہے ۔
رہ گئی بات پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کی تو آن پیپر دیکھا جائے تو اس وقت
پاکستان کے پاس سب سے اچھی بیٹنگ لائن اپ ہے ۔ لیکن میں نے اسی بیٹنگ لائن
اپ کو میدان میں تاش کے پتوں کی طرح سے بکھرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یا سیدھی
طرح یوں کہہ لیں کہ ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ کب کیا کردیں۔
لیکن میں ٹھہرا ایک سیدھا سادا پاکستانی اور میرا دل چاہتا ہے کہ میرے ملک
کی ٹیم اس بار ورلڈ کپ جیت کر لائے ۔ تو میری تمام کھلاڑیوں سے التماس ہے
کہ وہ تمام آپسی رنجشوں کو بھول بھال کر متحد ہوکر اور جی جان سے کھیلیں تو
فتح و کامرانی ان کے قدم چومے گی ۔ اور میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ
وہ ہمارے کھلاڑیوں کے آپس میں پیار و محبت میں اضافہ فرمائے اور انہیں
ملک کے لئے کھیلنے اور جیتنے کا حوصلہ عطا فرمائے ۔
آخر میں میں یہ کہوں گا کہ وش یو گڈ لک آفریدی، وش یو گڈ لک پاکستان!!! |