زرہ سوچئیے گا اگر سوچنے کا وقت ھو تو
جمیلہ نے پکوڑوں کے لیے تیل کڑاہی میں ڈالا اور تیل کے گرم ہونے تک کچن میں
ہی سانس لینے کو بیٹھ گئی.. آج بیگم صاحبہ کی طرف سے ان کے سب رشتہ داروں
کو افطار ڈنر تھا..اس لیے جمیلہ دوپہر سے تیاریوں میں مصروف تھی...ابھی درد
سے چور ہوتے جسم اور تھکے ماندے ذہن کے ساتھ لمحہ بھر کو سانس لینے کے لیے
بیٹھی تھی..
تب ہی رخسانہ بیگم انتظامات دیکھنے کو باورچی خانہ میں داخل ہوئیں اور
جمیلہ کو وہاں بیٹھے دیکھ کر ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے..چیختی ہوئیں بولیں
افطار کا وقت ہو گیا,مہمان آنے والے ھیں اور تم یہاں سکون سے بیٹھی ہو
جمیلہ نے ڈرتے ڈرتے کہا:
جی جی!!!!! بیگم صاحبہ بس سب انتظام ہو گیا ھے میں بس ذرا سستانے کو بیٹھی
تھی بس یہ پکوڑے رہتے میں ابھی پکوڑے نکال لیتی..
اف یہ تم جیسے ملازموں کے چونچلے. اچھا یہ بتاؤ کیا کیا بنا لیا ھے.؟
رخسانہ بیگم نے غصے سے کہا..
جی بیگم صاحبہ بریانی اور کھانا تیار ھے.. فروٹ ٹرائفل اور دہی بڑے بھی
فریج میں رکھ دیے ھیں.. .مشروبات بھی تیار ھیں... بس یہ پکوڑے رہ گئے اور
فروٹ رہ گئے وہ چھوٹی بیگم صاحبہ کاٹ رہی ھیں. انہوں نے کہا تھا کہ وہ کاٹ
لیں گی میں باقی کام کروں..
ہیںںںں.!!! کیا کہا... رمشا کا تو روزہ ھے...میری بیٹی روزے میں کام کر رہی
ھے.. میں اس سے واپس لیتی ہوں تم ہی کاٹنا.. رخسانہ بیگم چیختے ہوئے کچن سے
چلی گئیں..
پکوڑے تلتے ہوئے لمحہ بھر کو جمیلہ نے سوچا کہ روزہ تو اس کا بھی ھے. وہ
بھی دوپہر سے روزے کے ساتھ ہی تپتے ہوئے کچن میں تھیں. لیکن پھر جلدی سے سر
جھٹک کر کام میں مصروف ہو گئی..
اذان ہونے سے ذرا پہلے دستر خوان پہ سب کچھ سجا کر جمیلہ نے بیگم صاحبہ سے
اجازت مانگی جو میک اپ کر سجی سنوری مہمانوں کے انتظار میں تھیں..
"ہائے یہ سب برتن کون دھوئے گا... ؟ ابھی جانا ھے تو جاؤ رات کو برتن دھونے
کے لیے لازمی آ جانا" رخسانہ بیگم نے بے دلی سے اجازت دے دی.
جمیلہ تھکے ہوئے وجود کے ساتھ یہ سوچتے ہوئے کہ اس کے بچے افطاری کے لیے اس
کی راہ دیکھ رہیں ہوں گے جلدی سے اپنے گھر کو چل دی...
دو کمروں اور صحن کے بوسیدہ مکان میں جیسے ہی جمیلہ داخل ہوئی اس کے بچے اس
کو خالی ہاتھ دیکھ کر حیران ہو گئے..امّاں تو نے کہا تھا آج بیگم صاحبہ نے
بڑی افطاری کرانی ھے اس لیے ہم خوش تھے آج ہم بھی اچھی افطاری کریں گے..پر
اماں تو خالی ہاتھ آ گئی ھے.. اب ہم کیا کھائیں گے... ؟؟
جمیلہ نے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کچھ کجھوریں پڑی ھیں..پانی لے آؤ ہم
روزہ کھول لیں گے. چلو جلدی کرو اذان ہونے والی ھے..
جمیلہ کا بڑا بیٹا کرب سے بولا پر اماں افطاری صرف امیروں کے لیے ہوتی ھے
کیا؟؟افطاری تو روزہ داروں کے لیے ہوتی ھے. ہمارا بھی تو روزہ تھا بیگم
صاحبہ کچھ ہمارے لیے بھی بھیج دیتی تو کیا ہو جاتا؟؟
صبر کا دامن چھوٹ گیا ....
آخر کار جمیلہ بھی رو پڑی..
ہاں بیٹا یہ افطاری امیروں کے لیے ہی ہوتی ھے وہی صرف کچھ دنوں کے لیے
بھوکا رہتے.. غریب تو سارا سال ہی بھوکے رہتے ھیں. غریبوں کی کیا سحری اور
کیا افطاری..
منقول
|