"کچھ نظر کرم سرگودھا پر بھی"

یہ تحریر شاہینوں کے شہر سرگودھا کی زبوں حالی پر ہے۔ اور اس کا مقصد ہے"شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات"

شاہینوں کے شہر سرگودھا کے نام

سرگودھا ایک ایسا شہر ہے جو کہ دو چیزوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔ پہلی اس کے کینو کے باغات اور دوسری اس کی ائیر بیس جس نے 1965ء کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس شہر کو شاہینوں کا شہر کہا جاتا ہے وہ شاہین جس کو اقبال کی شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اہلیانِ سرگودھا کو 1965 کی جنگی خدمات کے عوض 8 مئی 1967 کو ہلالِ استقلال سے نوازا گیا۔ یہ سرگودھا ایک شہر بے مثال جس کی تاریخ تو شاید اتنی پرانی نہیں ہے مگر یہ ہی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے شاہین بے مثال پیدا کیے ہیں۔ کئی نامور شخصیات اس شہر سے تعلق رکھتی ہیں جیسا کہ انوار علی چیمہ مرحوم جو کہ مسلم لیگ ق کے سیاسی لیڈر تھے۔ امجد علی نون، امتیاز بھٹی جو کہ سابق سفیر ہیں انکا تعلق بھی سرگودھا سے ہے۔ ایک اور مشہور سیاسی شخصیت اور سابق پارلیمنٹرینز اور آرمی آفیسر ہیں انکار تعلق بھی شاہینوں کے شہر سرگودھا سے ہی ہے۔ صرف سیاسی میدان میں ہی نہیں بلکہ ادبی میدان میں بھی سرگودھا والے پیچھے نہیں ہیں۔ اس میدان میں بھی سرگودھا نے وزیر آغا، رفیق انجم اور جہانزیب قمر جیسی شخصیات متعارف کروائی ہیں۔ کھیل کے میدان میں بھی سرگودھا نے محمد حفیظ اور اعزاز چیمہ جیسے کھلاڑی متعارف کروائے۔ حمید گل جو کہ سابق ISI چیف ہیں وہ بھی شاہینوں کے شہر سے وابستہ ہیں۔ غرض یہ کہ سرگودھا کسی بھی میدان میں بڑے بڑے شہروں سے پیچھے نہیں ہے مگر ترقیاتی کاموں میں اب بھی دوسرے شہروں کے مقابلے میں شاید کئی سال پیچھے ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ دوش کس کو دوں، بے حس اور لاپرواہ حکومتوں کو یا پھر سرگودھا کے لوگوں کو جن کو اپنی روزی روٹی کے چکر سے اتنی فرصت نہیں کہ شہر کی بہتری کے لیے آواز اٹھا سکیں۔ ناخواندہ طبقہ تو ایک طرف یہاں خواندہ حضرات نے بھی آج تک کسی کی توجہ اس طرف دلوانے کی شاید ہی کبھی ضرورت سمجھی ہو۔ اور اگر کسی انسان نے حقیقی معنوں میں اقبال کا شاہین بنتے ہوئے اس شہر کے مسائل صاحب اقتدار لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی بھی ہے تو اس کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ مانا کہ سرگودھا لاہور جتنا بڑا نا سہی مگر اس میں رہنے والے بھی انسانیت ہی ہیں، ان کی زندگی میں بہت نہیں تو تھوڑی آسانی پیدا کرنا تو حکومت کا فرض اور ان کا بنیادی حق ہے، ہم بھی پاکستان کی شہریت رکھتے ہیں، ہم بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر ترقیاتی کاموں میں ہمارا حصہ کیوں نہیں ؟ باقی سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہیں صرف سڑکوں کی ہی بات کر لیتے ہیں جو کہ نواز حکومت کا پسندیدہ کام رہا ہے، لاہور میں میٹرو،ہر جگہ فلائی اوورز اور اورنگ ٹرین بناتے ہوئے یہ قطعی فراموش کر دیا گیا کہ سرگودھا کو بھی یاد کر لیا جائے۔ شاید سرگودھا کو کبھی گرانٹ ملی بھی ہو تو وہ لگتی کہیں نظر نہیں آتی،سلانوالی روڈ کی زبوں حالی روز بروز فزوں تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ سلانوالی روڈ جوکہ سرگودھا والوں کی انتہائی اہم ضرورت ہے اس کا حال دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ سرگودھا نے موجودہ اور گزشتہ سالوں میں کتنی ترقی کی ہے۔ سرگودھا میں دو ہی روڈ ایسے ہیں جن پر کام کیا گیا یا ان کا باقاعدگی سے خیال رکھا جاتا ہے اور وہ بھی شاید اس لیے کہ صاحب اقتدار حضرات ان پر سے گزرتے ہیں۔ کیا عام آدمی کا اپنے ہی دیے گئے ٹیکس کے پیسے سے فراہم کی گئی سہولیات پر کوئی حق نہیں ہے۔ کیا کسی کو عام روڈ نظر نہیں آتے ؟ میرا موجودہ حکومت سے بس اتنا سوال ہے کہ سابقہ حکومت نے کیا کیا، یا جو کیا وہ تو گزر گیا، اب اہلیانِ سرگودھا اس حکومت سے کتنی امید رکھیں، امید رکھیں بھی یا نہیں؟
باقی واللہ علم بالصواب۔
 

Afshan Sher kalyar
About the Author: Afshan Sher kalyar Read More Articles by Afshan Sher kalyar: 5 Articles with 18152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.