زندگی روزبروز تلخ ہوتی جارہی ہے، ہرشخص اس بات کا گلہ
کرتے دکھائی دیتاہے،ویسے تو عام طرز ِ گفتگو، اخلاق،عادات اورروزمرہ کے
معمولاتِ زندگی سے لے کر چھوٹے بڑے تمام معاملات میں ہماری حالت پتلی
ہے۔لیکن سب سے زیادہ غفلت و لاپرواہی والدین کے حقوق وفرائض میں برتی جارہی
ہے۔ اس لئے آج کا کالم والدین کے ساتھ کئے جانے والے ناروا سلوک اوراس کے
نتیجہ میں زندگیوں اورمعاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق ہے ۔
قرآن مقدس، احادیث مبارکہ کی کتب سے لے کر ہماری درسی کتب تک والدین کے ادب
واحترام ،والدین کے حقوق، والدین کے ساتھ حسن اخلاق کے متعلق تعلیمات دی
گئی ہیں۔ اسی طرح اخبار ورسائل، ٹی وی اورسوشل میڈیا پربھی والدین کی عزت
واحترام کی نسبت سے کافی مواد دیکھنے ،پڑھنے اورسننے کوملتاہے۔مگراصل
صورتحال اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔کہ اس باب میں بھی ہم صرف کہنے، لکھنے
اورباتوں سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ اگراپنے اردگرد کے ماحول کودیکھا جائے تویہ
حقیقت زیادہ واضح طورپرعیاں ہوتی ہے کہ موجودہ دورمیں سب سے مشکل حالات
کاسامناکمزور،ناتواں والدین کررہے ہیں۔ہر گھر میں والدین کی بے بسی اوربے
چارگی دیکھنے کو ملے گی کہ بچوں کی تعلیم ،روزگار، شادی تک کی ذمہ داریاں
ادا کرنے کے لئے والدین اپنی خوشیاں،خواہشات ،صحت اورزندگی بھرکی جمع پونجی
سب کچھ قربان کرنے کے بعدجب قوت و توانائی کی جگہ ضعف وکمزوری لے لیتی ہے
کہ مزیدکام اورمزدوری کی سکت باقی نہیں رہتی، توہونا تویہ چاہیے کہ اب اُن
کی بے مثال قربانیوں کے صلہ کے طورپر اُن کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جائے جس
کے وہ حق دار ہیں اورجس کی تعلیم دی گئی ہے ۔اُن کی خدمت ، اطاعت
وفرمانبرداری کی جائے، مگر اس سب کے بدلہ میں نوجوان اولاد کی طرف سے طعنوں
کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے، کہ آخرتم نے ہماری خاطرکیا ہی
کیاہے؟ اگرکوئی ڈھنگ کا کام کیا ہوتا تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا،آج ہمارے لئے
آسانی ہوتی ،زندگی سنورجاتی وغیرہ وغیرہ
قرآن پاک کی سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے،ترجمہ"اورتیرے رب
نے حکم دیا کہ بجزاس کے کسی کی عبادت مت کرو اورتم ماں باپ کے ساتھ حسن ِ
سلوک کیا کرو اگرتیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں
سوتوان کوکبھی"ہوں"بھی مت کہنا اورنہ ان کوجھڑکنااوران سے خوب ادب سے بات
کرنااوران کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اوریوں دعا کرتے
رہنا کہ اے میرے پروردگاران دونوں پررحمت فرمایاجیسا کہ انہوں نے مجھ
کوبچپن میں پالا پرورش کیا اورصرف اس ظاہری توقیر وتعظیم پراکتفامت کرنا،دل
میں بھی ان کا ادب اورقصد اطاعت رکھنا،تمہارا رب تمہارے مافی الضمیرکوخوب
جانتا ہے اگرتم سعادت مند ہوتووہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا
ہے۔(سورۂ بنی اسرائیل ع 3)
حدیث مبارک میں آیا ہے ، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے"حضرت ابوامامہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض
کیا یا رسول اﷲ والدین کا ان کی اولاد پرکیا حق ہے آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا وہ دونوں تیری جنت یا تیری جہنم ہیں۔"(مشکوۃ المصابیح،ابن ماجہ)
انسان بھول جاتا ہے کہ یہ وقت(جوانی،طاقت،صلاحیت) جوآج اس پرہے یہ ہمیشہ
نہیں رہنا، بہت جلد ضعف، بڑھاپا اورمحتاجی کاوقت اس پربھی آنے والا ہے۔اسی
لئے انسان کو بڑوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی، مگر افسوس،آج ہم نے
سب جانتے ہوئے اپنی دُنیاا ورآخرت دونوں کواپنے ہاتھوں سے خطرہ میں ڈال دیا
ہے،یہ بات پہاڑوں،غاروں، صحراؤں ،جنگلوں میں بسنے والے جاہل اوربے دین
لوگوں کی نہیں ہورہی ،بلکہ پڑھے لکھے ،دین دار اورصاحب حیثیت افراد کے
متعلق ہے،جو علم رکھتے ہیں،سب کچھ جانتے اورسمجھتے ہیں،مگراس کے باوجود
ضعیف العمروالدین کے بارے میں ان کی سنگدلی اوربے رحمی کی یہ حالت ہے کہ،
نہ توان کے دل کانپتے ہیں، نہ رحم و ترس آتا ہے ۔عام اورمعمولی بات پربھی
والدین کے ساتھ بدسلوکی، بدزبانی،گالم گلوچ اورلعن طعن روزمرہ کا معمول بن
چکاہے۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ کوئی چیزایسی نہیں ہے،جس کے ساتھ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم کومخصوص نہ کیا ہو اوردوسرے مسلمانوں کواس
کے ساتھ مخصوص نہ کیا ہوسوائے اس چیزکے جومیری تلوارکے نیام میں ہے۔ پھر
(تلوارکی نیام سے) ایک نوشتہ نکالا جس میں یہ لکھا تھا"جوغیراﷲ کے لئے ذبح
کرے اس پراﷲ کی لعنت ہو،جوزمین کی نشانی چرائے اس پراﷲ کی لعنت ہو، جواپنے
والدین پرلعنت کرے اس پر اﷲ کی لعنت ہو،جو کسی ایسے شخص کوٹھکانا دے جس نے
دین اِسلام میں(عمل یا عقیدے کے اعتبار) سے کوئی چیزنکالی ہواس پراﷲ کی
لعنت ہو۔" ( الادب المفرد،امام بخاری،اخرجہ مسلم)
جب ہم اپنے ماں ،باپ کے آگے زبان چلاتے ہیں اوران سے سختی سے بات کرتے ہیں
اوران کو بات بے بات جھڑکتے ہیں ،تواس وقت اﷲ تعالیٰ اوراس کے فرشتے لعنت
کرتے ہیں اورآسمان اورزمین کانپنے لگتے ہیں اور توبہ استغفار کرتے
ہیں،ذراسوچیں ہماری ساری عبادات، نماز،زکوٰۃ،روزہ،حج کس کام کے جب ہمارے
والدین ہی ہم سے خوش نہ ہوں۔یقین رکھیں والدین کواذیت دینے ،اُنہیں طعنے
دینے،اُن کے لئے تکلیف کا باعث بننے سے ہم اپنی دُنیا کی زندگی میں ناکامی،
نامرادی،بے چینی،بے سکونی اورمشکلات میں مزید اضافہ کر رہے ہیں ۔والدین کی
ناراضگی اورنافرمانی کی سزا تودُنیا میں ہی یقینی ہے۔اس مختصرسی تحریرمیں
صرف اتنا ہی احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے، کہ ہم سب اپنے گریبان میں
جھانکیں،اپنے رب سے سچے دل سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں، خاص کروالدین
کے ساتھ کئے جانے والے برے سلوک کی والدین کے قدم پکڑکر،اُن کے سامنے ہاتھ
جوڑ کرفی الفور معافی مانگیں اورآئندہ کے لئے کسی قسم کی گستاخی نہ کرنے کا
خلوص نیت سے عزم کریں۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ ماں باپ کے ستانے کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں جن میں سے
اﷲ تعالیٰ جس کوچاہتے ہیں معاف فرما دیتے ہیں اورماں باپ کوستانے کا گناہ
ایساہے کہ گناہ کے کرنے والے کواﷲ جل شانہ موت سے پہلے والی دنیا ہی کی
زندگی میں سزا دے دیتے ہیں۔"(کذافی المشکوۃ،عن البیہقی فی الشعب)
|