اِقْتَرَب‘قرآن کریم کاسترھواں (17) پارہ ہے ۔
اِقْتَرَبکا مطلب ہے ’’قریب آگیا ‘‘ ۔ یہ پارہ دو سورتوں سُوْرَۃُ الا
اِنبِیَاء اور سُوْرَۃُ الْحَجّسے پر مشتمل ہے ۔
سُوْرَۃُ الا اِنبِیَاءِ
سُوْرَۃُ الا اِنبِیَاءِ مکہ المکرمہ میں نازل ہوئی اس لیے مکی سورۃ
ہے،قرآنی آیات کی ترتیبی کے اعتبار سے یہ 21ویں سورہ َ ہے اور نزوالی
ترتیب کے اعتبارسے 73ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 7رکو، 112آیات ہیں ۔ اس سورۃ کی
ایک خاص بات کہ اس میں 17انبیاء کا تذکرہ ہے، اسی مناسبت سے یہسُوْرَۃُ الا
اِنبِیَاء کہلاتی ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے ذکر سے پہلے کئی موضوعات پر مختصر اور بعض پر مدلل
گفتگو کی گئی ہے ۔ ابتدائی آیت میں انسان کے حساب اور غفلت پر توجہ دلائی
گئی کہا گیا ’’قریب آگیا ہے انسانوں کے حساب کا وقت اور وہ پڑے ہوئے ہیں
غفلت میں منہ موڑے ہوئے ‘‘، اللہ نے یہ بھی کہا کہ وہ اللہ کی نصیحت کو اس
طرح سنی ان سنی کردیتے ہیں جیسے کھیل رہے ہوں ۔ مشرکین نبی ﷺ کے بارے میں
اور قرآن کے بارے میں کہا کرتے کہ آیت 5 ’’یہ قرآن تو پراگندہ خواب اور
یہ تو محمد ﷺ جو شاعر ہیں ان کا گھڑا ہوا ہے‘‘، پھر کہا کہ اچھا اگر یہ
رسول ہے ، تو انہیں چاہیے کہ لائے ہمارے سامنے کوئی نشانی جیسے کے بھیجے
گئے تھے معجزوں کے ساتھ پہلے رسول‘‘ ۔ اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ ان
سے پہلے کے لوگ معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تو ہم نے اُنہیں ہلاک
کردیا ، تو کیا یہ ایمان لائیں گے;238;پھر آیت 10 میں کہا ’’بے شک نازل کی
ہے ہم نے ایک ایسی کتاب جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا پھر بھی تم نہیں
سمجھتے ‘‘ ۔ اس سے پہلے اللہ کہہ چکا کہ ہم نے وعدہ کے مطابق نبیوں کو اور
اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے کفار و مشرکین کو ہم
نے ہلاک کردیا ۔ تخلیق کائینات کے ایک مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا اللہ
نے آیت18 میں ’’ حق و باطل کی جو معرکہ آ رائی اور خیر و شر کے درمیان جو
تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں ،
چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پرآز ماتے ہیں ،
جس سے شر، باطل اور جھوٹ کا کچونبر نکل جاتا ہے اور وہ چشم زدن میں نابود
ہوجاتے ہیں ۔ اللہ نے صاف الفاظ میں مشرکین کو کہا کہ ’’یہ جو تم رب کی طرف
جو بے سروپا باتیں منسوب کرتے ہو یہ تمہاری ہلاکت کاباعث ہے ، اس کی وجہ سے
تم باطل کو اختیار کرتے ہو اس کا نتیجہ تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے باطل نظریات کا ذکر کرتے ہوئے چھ تکوینی دلائل
دیے، جن کا تعلق مشاہدے اور تحقیق سے ہے اول : زمین و آسمان ملے ہوئے تھے
، ہم نے ان کو جدا جدا کیا، آسمان پر فرشتے اور زمین کو انسانوں کا مسکن
بنایا ۔ دوم: ہرجاندار چیز کو پانی سے ،آج سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے
کہ ہر جاندار چیز کے وجود کا بنیادی عنصر پانی ہے ۔ سوم:زمین میں بڑے بڑے
پہاڑ تاکہ زمین ساکت رہے، لوگوں کے بوجھ سے ڈگمگ نہ کرنے لگے ، اگر یہ پہاڑ
نہ ہوتے تو زمین اضطراب کی زد میں رہتی ۔ چہارم:زمین میں کشادہ راستے بنانے
کا ذکر ہے تاکہ سفر میں مشکلات پیش نہ آئیں ۔ پنجم: آسمان کو ایک محفوظ
چھت کی حیثیت دی، اس چھت میں روشن ہوتے لاکھوں ستارے، چاند اور سورج جو
اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں ، یہ باہم کبھی نہیں ٹکراتے، یہ نظام اللہ
کی حکمت ہے ۔ ششم: رات، دن ، سورج اور چاند اللہ کی تخلیق ہے ، یہ سب
آسمان میں تیر رہے ہیں جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے یا مچھلی پانی
میں تیرتی ہے ، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں تیرتے ہیں یعنی
رواں دواں رہتے ہیں ، حرکت ہی میں ان کی زندگی قرار دیا گیا ہے ۔ آیت32
میں کہا گیا کہ ’’ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا جب کہ وہ اس آسمان کی
نشانیوں سے اعراض کرنے والے ہیں ‘‘ ۔ موت کے بارے میں اللہ نے کہا کہ کفار
کے جواب میں جو نبیﷺ کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن انہیں بھی مر ہی جانا ہے ۔
اللہ نے فرمایا: موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقینا محمد ﷺ
بھی مستثنیٰ نہیں کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے کسی انسان کے لیے
بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ۔
توحید، رسالت، قیامت ،حساب و جزا ء اور دیگر موضوعات پر دلائل کے بعد
17انبیاء علیہم السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ بعض کے بارے میں مختصر اور
بعض کے بارے میں قدرِ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ انبیاء کے قصے ، حالات اور
واقعات شروع ہی سے کسی نہ کسی موضوع کے تحت اللہ پاک دوبارہ دوبارہ بیان
کرتا رہا ہے ۔ مقصد سہولت اور آسانی پیدا کرنا ہے، یہ قرآن کی ایک اعلیٰ
خوبی بھی ہے ۔ آیت 48سے یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات کا آغاز ہوتا
ہے ، فرمایا اللہ نے ’’اور یقینا ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان (تورات)
اور روشنی عنایت کی، یہاں تورات کی صفات بھی بیان کی گی ہیں ۔ ابراہیم علیہ
السلام کے لیے کہا گیا آیت 51 میں ’’اور بلا شبہ اس سے بھی پہلے ہم نے
ابرہیم کو اس کی دانائی دی تھی، ابراہیم کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا جنہیں
دعوتِ توحید اور تردیدِ شرک کی وجہ سے دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا تھا
، لیکن اللہ نے کہا آیت 69 میں ’’ اے آگ تو ابراہیم پرٹھنڈ ی اور سلامتی
والی ہوجا‘‘ ۔ اور ابراہیم علیہ السلام آگ سے محفظ رہے ۔ حضرت لوط علیہ
السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے انہیں اللہ نے جس قوم کی
طرف نبی بنا کر بھیجا وہ بہت بری قوم تھی ۔ آیت 72 میں کہا اللہ نے
’ ’ ہم نے اسحاق بخشا ء اور یعقوم مزید دیا، اور ہم نے ہرایک کو صالح
بنایا‘‘ ۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی طویل عمر اور اللہ تعالٰ کی راہ
میں صبر و تحمل کرنے کی وجہ سے شیخ الا نبیاء بھی کہا جاتا ہے، انہوں نے
950سال تک فریضہَ دعوت سر انجام دیا ۔ حضرت داوَد علیہ السلام اور ان کے
بیٹے سلیمان علیہ السلام کا قصہ ہے دونوں نبی کے درجہ پر فائز تھے، انہیں
روحانی اور مادی دونوں طرح کی نعمتوں سے خوب نوازا گیا ۔ حضرت سلیمان علیہ
السلام کے بارے میں آیت 78 میں فرمایا ’’اور یاد کریں داوَد اور سلیمان کو
جب وہ دونوں اس کھیتی کی بابت فیصلہ کر رہے تھے جسے رات کو ایک قوم کی
بکریاں چرگئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کے شاہد تھے‘‘ ۔ سلیمان کے لیے تند و
تیز ہوا مسخر کی ۔ حضرت ایوب علیہ السلام جنہیں مصائب و آلام کے ذریعہ
آزمایا گیا ، انہوں نے ایسے صبر کا مظاہرہ فرمایا کہ ان کا صبر ضرب المثل
بن گیا، ان مصائب و آلام میں وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے ، ان
کی توجہ نے رحمت ِ باری تعالٰ کو متوجہ کرہی لیا، ان کی دعائیں قبول ہوئیں
اور دورِ ابتلا ء ختم ہوگیا ۔ کہا گیا اسماعیل علیہ السلام، ادریس علیہ
السلا، یہ سب صابر تھے ۔ حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ انہیں مچھلی نے نگل
لیا تھا، اس کے پیٹ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اندھیرے میں پکارا، ان کی
پکار سنی گئی اور انہیں غم سے نجات مل گئی، بے شک اللہ تعالیٰ کو پکار نے
والوں کو غم سے نجات مل ہی جاتی ہے ۔ فرمایایاد کریں ’ زکریا کو ، جب اس نے
اپنے رب کو پکاراتھا، اے میرے رب تو مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور توہی بہترین
وارث ہے، چنانچہ ان کی دعا قبول کی ‘ اور انہیں یحییٰ عطا کیا ، اسی طرح
حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے ۔ اس سے پہلے بھی ان کا
تفصیلی ذکر سورہ مریم میں موجود ہے،یاجوج ماجود کا ذکر سورہَ کہف میں بھی
ہوچکا ہے، یہاں آیت96 میں ان کا دوبارہ ذکر آیا اور بتایا گیا ہے کہ
قیامت کے قریب یاجوج ماجود کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلند ی سے اتر
رہے ہوں گے ۔ سورہ انبیاء کی آخری آیت 112 میں کہا ’’رسولﷺ نے کہا : اے
میرے رب ! حق کے ساتھ فیصلہ فرما، اور ہمارا رب نہایت مہربان ہے، جو باتیں
تم بیان کرتے ہو ان پر وہی مدد مانگے جانے کے لائق ہے‘‘ ۔
مشرکین اور ان کے اصنام قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن بنیں گے اور کوئی بھی
کسی کے کام نہیں آسکے گا ۔ انبیاء کے قصص بیان کرنے کے بعد بتایا گیا کہ
محمد ﷺ سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں ۔ آپ نے اللہ کا پیغام انسانوں تک
پہنچا دیا مگر جب ہر قسم کے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی لوگ نہ سمجھیں تو
آپ نے اللہ سے دعا کی ’’اے میرے رب ! حق کے ساتھ فیصلہ کردے ار ہمارا
پروردگار بڑا مہر بان ہے، اسی سے ان باتوں میں جو تم بیان کرتے ہو، مدد
مانگی جاتی ہے‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی دُعا قبول فرمائی اور غزوہ
بدر میں مشرکین کو بد ترین شکست ہوئی، ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ۔
سُوْرَۃُ الْحَج
سُوْرَۃُ الْحَج مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اس لیے مدنی سورۃ ہے،قرآن میں
ترتیبی اعتبار سے یہ 22ویں اور نزوالی ترتیب کے اعتبارسے 103نمبرپر ہے ۔ اس
میں 10رکو،78آیات ہیں ۔ اس سورۃ میں حج کی فرضیت، اہمیت اور مسائل کے
علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے حج کے فرض ہونے کا اعلان ہوا،
اس مناسبت سے یہ سُوْرَۃُ الْحَج کہلاتی ہے ۔ اس سورہ کے مکی اور مدنی ہونے
میں اختلاف ہے ، کتا ب ’فتح القدیر‘ کے مطابق اس کا کچھ حصہ مکی اور کچھ
مدنی ہے ۔ لیکن قرآن میں اسے مکی سورۃہی کہا گیا ہے ۔
سورۃ الحج کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ کے ڈرانے اور خوف دلانے سے شروع
ہوا ہے فرمایا گیا’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو ، بے شک قیامت کا زلزلہ بہت
بڑی ہولناک چیز ہے، جس دن تم اسے دیکھوگے یہ حال ہوگا کہ ہر دودھ پلانے
والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا
دے گی اور آپ لوگوں کو نشے میں مدہوش دیکھیں گے ، حالانکہ وہ نشے میں نہیں
ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑاہی شدید ہوگا‘‘ ۔ یہ گویا قیامت کشی ہے، کہ جب
قیامت آئے گی تو لوگوں کی کی صورت حال بے انتہا ابتر ہوگی ۔ اس سورہَ میں
ہجرت ، حج اور قربانی جیسے شرعی احکامات بھی ہیں ساتھ ہی عقیدہ توحید، وعید
و نزارم بعث و جزاء، جنت اور دوزخ ، قیامت کی ہولناکیاں بھی بیان ہوئیں ہیں
۔ اس کے بعد آیت 5 میں انسان کے پیدا ہونے کی تفصیل ہے جو پہلے بھی مختلف
سورتوں میں بیان ہوچکی ہے ۔ انسان کی ذہنیت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کی
عبادت کرتا ہے لیکن معمولی سی تکلیف اور مصیبت میں گھبراجاتا ہے اور عبات
سے ہٹ جاتا ہے، انسان کے اس عمل کو نا پسند فرمایا گیا ہے ۔ خانہ کعبہ کی
حرمت کا بیان ہے کہ یہ گھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا، اس میں
لوگوں کو عبادت سے روکنا اور اس کی بے حرمتی کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو
بھڑکانا ہے ۔ طوفان نوح کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیرسب سے پہلے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے ہوئی،اس کی غرض بیان کی کہ اس میں
صرف عبادت کی جائے، یہاں طواف کرنے والے ، اعتکاف کرنے والے ، رکوع و سجود
کرنے والے اللہ کی عبادت کریں ۔ آیت 35 میں حقیقی مومنوں کی چار علامات
بیان کی گئی ہیں ’’ اللہ کا خوف اور مصائب پر صبر، نماز کی پابندی، نیک
مصارف میں خرچ کرنا‘‘ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے حج کے
لیے لوگوں کو دعوت دی ، جو اللہ کے حکم سے پورے عالم میں پھیل گئی اور سنی
گئی، ساتھ ہی قربانی کے احکامات بتائے گئے ہیں ۔ مناسک حج کا ذکر کرنے کے
بعد سورہ َحج کی آیت 39 میں قتال کی اجاذت دی گئی ۔ اللہ کی قدرت ہے کہ
مکہ کے پہاڑکی چوٹی سے بلند ہونے والی نحیف سے صدا دنیا کے کونے کونے تک
پہنچ گئی جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں زائرین کے ایمانی جذبے اور محبت سے
ہوتا ہے ۔ قربانی کا فلسفہ بتا یاگیا آیت 37 میں کہ’’ اللہ کو خون اور
گوشت نہیں پہنچتا مگر تمہاری دلی کیفیت اور پرہیز گاری پہنچتی ہے‘‘ظالموں
کے خلاف جنگ اور اس فلسفہ جہاد بیان کیا گیا ہے ، مظلوم مسلمانوں کو ظالموں
کے خلاف جنگ کی اجاذت دی ہے اور جو انصاف قائم کرنے کے لیے اٹھیں گے ، ان
کی مددو نصرت کا وعدہ فرمایا ۔ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے اعلان کرایا گیا کہ
آپﷺ کی رسالت دنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ہے، جولوگ اس تصدیق کر کے نیک
عمل کی زندگی اختیار کریں گے ان کے لیے بشارت ہے ۔ شیطان کی چالبازیوں کا
ذکر کیا گیا کہ اس نے ہر زمانے میں دین کی دعوت کو ناکام بنانے کی کوشش کی
اور جو لوگ اس کے آلہ کار ہوئے ، وہ ناکام ہوئے، اور وہ قیامت کے دن سزا
بھگتیں گے ۔ ہجرت اور جہاد کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کی اہمیت بیان کرتے
ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد اور ہجرت کرنے والوں کو اللہ نے اپنی رضا ،
رضوان اور رزق حسنہ کی بشارت دی اور کامیابی کی ۔
مشرکین کو سمجھا یا گیا کہ جن کو تم نے اپنا معبود بنایا ہے وہ ایک مکھی
بھی نہیں بناسکتے ، نہ اسے اپنے اوپر سے اڑاسکتے ہیں ، مکھی ان سے کچھ چھین
لے جائے تو اسے واپس نہیں لے سکتے، اس لیے عقل سے کام لو، شرک نہ کرو ۔ اہل
ایمان کو نماز، جہاد فی سبیل اللہ ، زکوٰۃ اور بھلائی کے کاموں کی تاکید کی
گئی ہے ۔ سورہ َ حج کی آخری آیت 78 میں کہا گیا ہم سب کی اصل ملت ابرہیم
علیہ السلام ہے اور اللہ نے ہمارا نام ’مسلمان‘ رکھا اور پھر ہ میں یا
ددلایا گیا کہ حق کی شہادت کے لیے تمہارا انتخاب ہوا، یہی تمہارے لیے وجہ
شرافت ہے اس لیے نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے
تھامے رہو، انہی احکامات پر سورہَ حج کا اختتام ہوتا ہے ۔ (17رمضان المبارک
1440ھ 23 مئی20
|